شہیدوں کی نہیں منشور کی سیاست

بھٹو کی مقبولیت کو دوام بخشنےمیں ضیاء الحق کی وہ اقتدار پرستی تھی جسے مستحکم کرنے کیلئے بھٹو کو پھندے تک پہنچایاگیا۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ایوب حکومت کے دور میں جب پیپلز پارٹی تشکیل دی گئی تو پاکستانی عوام کے سمندر میں ایک ایسا جوار بھاٹا آیا کہ 20 سال سے پاکستان کی منجمد سیاست طوفان میں بدل گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب کی فوجی آمریت کی جڑیں ہلا دینے والا کوئی اور نہیں تھا بلکہ خود ایوب حکومت کا وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھا جو ایوب خان کو محبت اور عقیدت سے ڈیڈی کہتا تھا۔ ایوب خان بلاشبہ ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا، لیکن اس کے دور میں پاکستان صنعتی ترقی کے راستے پر چل نکلا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور سوشلسٹ ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی ابتداء ہوئی اور ایوب حکومت کے اس دور میں کراچی میں اس تیزی سے صنعتیں لگنے لگیں کہ ان پھلتی پھولتی صنعتوں میں لیبر فورس کی کمی محسوس ہونے لگی اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے دوسرے صوبوں خاص طور پر خیبر پختونخواہ سے لاکھوں بے روزگارکراچی کا رخ کرنے لگے۔

اس دور میں مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل کی بھی وہ شدت نہ تھی جو بعد میں آتی گئی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام کے منجمد سمندر میں یہ جوار بھاٹا کیوں آیا؟ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے جاگیردار خاندان کے فرد تھے ، ایوب خان کی حکومت کے وزیر خارجہ تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ بھٹو نے سوشلسٹ ملکوں سے تعلقات استوار کرکے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تاشقند معاہدے کی مخالفت کی وجہ سے بھٹو عوام میں مقبول ہوا۔ بلاشبہ تاشقند معاہدے کی مخالفت ہی سے بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز کیا، لیکن بھٹو کی مقبولیت کا اصل راز عوام کو ان کی اجتماعی قوت کا احساس دلانا تھا جس سے عوام اس وقت تک نابلد تھے۔

دوسرا وہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تھا جسے عوام اپنی اقتصادی محرومیوں کا مداوا سمجھ رہے تھے جس پر عوام کا یقین اس وقت اور زیادہ پختہ ہوتا گیا جب بھٹو نے مزدورکسان راج کی باتیں کرنا شروع کیں۔اس انقلاب نے مذہبی جماعتوں کو حیرت زدہ تو کر دیا، لیکن وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ جدید دنیا کی سیاست کا محور اقتصادیات ہے نہ کہ عقائد و نظریات، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقائد ونظریات محترم اور مقدس تو ہوتے ہیں، لیکن وہ عوام کو اقتصادی ناانصافیوں سے نجات نہیں دلاسکتے۔ 1970ء کے پہلے انتخابات کے نتائج سے بھی یہی حقیقت ثابت ہوئی کہ اقتصادی مفادات دوسرے سارے مفادات سے زیادہ پرکشش ہوتے ہیں اور 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے بھی اسی حقیقت کو واضح کیا کہ آج کی دنیا میں اقتصادی مفادات ہی رشتوں کو توڑنے اور جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


بھٹو نے اگرچہ عوام کی اقتصادی محکومی ختم کی نہ ملک کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی آئی، لیکن بھٹو کو عوام میں مقبولیت دلانے والا اصل محرک اس کا اقتصادی پروگرام اور عوام کو ان کی اجتماعی طاقت کا احساس دلانا تھا۔ بھٹو کی مقبولیت کو دوام بخشنے میں ضیاء الحق کی وہ اقتدار پرستی تھی جس کو مستحکم بنانے کے لیے اس نے بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچادیا اور بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی خواہش کو پورا کرنے کا شرمناک کام بھی انجام دیا۔ بھٹو کے قتل کے بعد اس کے خاندان کے ساتھ ضیاء الحق نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا، بھٹو کی بیوی اور بیٹی نے جس جرأت سے اس فوجی آمر کے مظالم کا مقابلہ کیا اور بھٹو کی سیاست کا راستہ اپنایا یہی بھٹو خاندان کی شناخت بن گیا۔

بے نظیر کے بہیمانہ قتل نے بھٹو خاندان کے ساتھ عوام کی حمایت اور ہمدردیوں میں اضافہ کیا، لیکن دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو اور بے نظیر کے سیاسی وارثوں نے بھٹو کے نامکمل اقتصادی ایجنڈے کو مکمل کرنے کی طرف توجہ دینے کے بجائے شہیدوں کے نام پر سیاست کا راستہ اپنایا اور اس غیر منطقی فلسفے کی وجہ سے پیپلز پارٹی عوام سے دور ہوتی چلی گئی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بے نظیر کے شوہر اور ملک کے صدر محترم نے بھی بھٹو کے نامکمل اقتصادی اور سیاسی پروگرام کی سیاست کرنے کے بجائے بی بی شہید اور شہیدوں کی سیاست میں الجھ گئے اور یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آج کی سیاست کا محور و مرکز اقتصادی مفادات ہیں اور اقتصادی ناانصافیوں کے شکار عوام کی پہلی ترجیح اقتصادی انصاف ہے۔

کئی عشروں سے پاکستان کی سیاست کرپشن، ذاتی، جماعتی اور خاندانی مفادات کے محور پر گھوم رہی ہے اس کلچر کے فروغ کی وجہ سے عوامی اور قومی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ اپنے ''کرموں'' کو چھپانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہمارے سیاسی بادشاہوں نے داد و دہشت کا ایک ایسا آسان طریقہ ایجاد کرلیا ہے جسے ہم ''سیاں کا سر میاں کا جوتا'' کہہ سکتے ہیں اس سخاوت میں جو رقوم استعمال کی جارہی ہیں وہ کسی سیاستدان، کسی حکمران کا ذاتی سرمایہ نہیں بلکہ عوام ہی کی کمائی ہے اور اس سخاوتی ڈراموں سے جو لوگ مستفید ہورہے ہیں ان کی تعداد عوام کے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ عوام اب ان ڈراموں کو سمجھ بھی رہے ہیں اور ان سے بیزاری کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اب ان کاسمیٹک سخاوتوں سے کام نہیں چلے گا، اب عوام کے مسائل غربت، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور علاج سے محرومی، دہشت گردی وغیرہ کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات واضح منشور کے ساتھ آگے آنا پڑے گا۔

ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اس حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس کی قیادت جدید دور کے تقاضوں کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ ان سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ بے نظیر کی جان ان ہی کوششوں کے نتیجے میں گئی۔ مسئلہ اب نہ داد و دہشت کا ہے نہ سخاوتوں کا بلکہ اس پورے کرپٹ سسٹم میں تبدیلی کا ہے۔ بھٹو مرحوم نے زرعی اصلاحات کے ذریعے اس سسٹم میں تبدیلی کی کوشش کی تھی جسے سیاسی شاطروں نے ناکام بنادیا۔ آنے والے انتخابات کی تیاریاں روایت کے مطابق جھوٹے وعدوں اور عیارانہ باتوں سے شروع ہوگئی ہیں۔ اب سبز باغوں کی سیاست بھی نہیں چل سکتی، اب زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے سیاسی اتحادوں کے اسرار سے بھی عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ پیپلز پارٹی اگر شہیدوں کی سیاست سے نکل کر شہیدوں کے مشن کی سیاست کی طرف آتی ہے تو اسے عوام کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جس کا آغاز زرعی اصلاحات اور زرعی اصلاحات کی حامی جماعتوں سے اتحاد انتخابی نظام میں ایسی تبدیلیوں کے منشور سے کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے سیاست اور اقتدار سے خاندانی حکومتوں کا خاتمہ ہو اور درمیانے طبقے مزدور، کسان اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو آگے آنے کا موقع ملے۔
Load Next Story