کھجور میں اٹکا

ہمیں ملک میں سوئٹزر لینڈ جیسا سکون چاہیے تو اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے چائنا جیسی اکنامیکل گروتھ بھی چاہیے۔


Wajahat Ali Abbasi December 09, 2012
[email protected]

SWAT: آسمان سے گرا اس لیے نہیں کیونکہ ہم یہاں کسی محاورے کی نہیں صرف کھجور کی بات کر رہے ہیں۔ وہ کھجور جسے ایکسپورٹ کرنے کے پاکستان کے پاس بہت اچھے مواقعے ہیں۔

ہمیں اگر اپنے ملک میں سوئٹزر لینڈ جیسا سکون چاہیے تو اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے چائنا جیسی اکنامیکل گروتھ بھی چاہیے۔

چائنا ایک مثال ہے کہ ایک ملک اپنے برے حالات کیسے بہتر کرسکتا ہے جس میں بین الاقوامی برآمدات کا بڑا ہاتھ ہے،کچھ سال پہلے تک چین سے کوئی تجارت نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن بزنس کی اچھی بات یہ ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی ڈیلز کرکے اپنے لیے ایک اعتماد کی فضاء قائم کرسکتے ہیں اور یہی چائنا نے کیا۔

آج چائنا میں ایکسپورٹ مارکیٹ اتنی اچھی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی کمپنی جیسے ''ایپل'' اپنے آئی فونز چائنا میں بناکر ڈائریکٹ وہیں سے کسٹمر کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔

اگر آپ امریکا یا انگلینڈ میں ایپل ڈاٹ کام سے کمپیوٹر یا آئی فون خریدیں تو آپ کا آرڈر کیلی فورنیا یا انگلینڈ سے نہیں بلکہ چائنا سے شپ ہوگا اور بڑی بڑی کمپنیاں ہی کیوں، چائنا میں ہزاروں پانچ دس لوگوں پر مشتمل کمپنیاں بنی ہوئی ہیں جو اپنے گھروں میں ہی چیزیں بناکر ایکسپورٹ کرتے ہیں اور اس طرح ہزاروں ڈالر کماتے ہیں۔

اس وقت چائنا میں ہر سال 10% ایکسپورٹ گروتھ ہے اور یہی اگر پاکستان کی ایکسپورٹ میں آجائے تو ہماری گنتی بھی دنیا کے کامیاب ممالک میں ہونے لگے گی۔

ایک بڑی غلطی جو پاکستان نہیں کرسکتا وہ یہ ہے کہ چین کی کامیابی کا ماڈل اٹھا کر اسے پورا پورا کاپی کرنے کی کوشش کرے یعنی وہی چیزیں ایکسپورٹ کرنے کی صنعتیں لگائے جو چائنا کر رہا ہے، ویسے ہی ہمارے پاس اس وقت وسائل کم ہیں، اوپر سے ہاتھی اور چیونٹی کی اس جنگ میں جہاں ہاتھی نے اپنی سونڈ پوری طرح محفوظ کی ہوئی ہے چیونٹی کا جیتنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے پاکستان کا ایکسپورٹ میں اپنا خود کا موقع ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم کو دنیا کو اپنی کھجوروں میں اٹکانا ضروری ہے۔

ڈی جی سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی منڈی میں کھجور ایکسپورٹ کرنے کے بہت مواقعے ہیں۔ اگر ہماری اس انڈسٹری میں صحیح طرح سرمایہ لگایا جائے تو اس سلسلے میں کچھ دن پہلے ٹریڈ مشن پر سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ارکان یو اے ای کے علاقے العین کی کھجوروں کی کمپنی Al-Foah کے دورے پر گئے تھے، انھوں نے اس پلانٹ کا دورہ کیا جسے ایمرٹ حکومت نے چودہ سال پہلے بنوایا تھا اور اس وقت وہ دنیا کا سب سے بہترین پلانٹ ہے۔

سندھ میں آج 3 لاکھ ٹن کھجوریں سالانہ پیدا ہوتی ہیں اور پورے پاکستان میں چھ لاکھ ٹن، لیکن ہمارے پروسیسنگ پلانٹ پرانے اور اچھے نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کبھی بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ ہماری ایکسپورٹ کی ہوئی کھجوروں میں زیادہ کم تر درجے کی کھجوریں ہوتی ہیں جس سے زر مبادلہ کم حاصل ہوتا ہے، پاکستان اگر اس سیکٹر پر توجہ دے تو کھجوروں میں دنیا کا ''چائنا'' بن سکتا ہے۔ایک اور بڑی ایکسپورٹ جس میں پچھلے 5 سال میں بڑی گروتھ دیکھی گئی ہے اور جس میں پاکستان تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے وہ ہے حلال فوڈ انڈسٹری کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، ہم اس حلال فوڈ کی مارکیٹ پر چھا سکتے ہیں، اگر ہمارے یہاں صحیح طرح مناسب پلاننگ کی جائے۔

''PEW فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف'' کے حساب سے دنیا میں اس وقت 1.8 بلین مسلمان آباد ہیں، یعنی دنیا میں اس وقت 28% آبادی مسلمانوں کی ہے جس میں سے 60% ایشیا میں ہیں، بیس فیصد مشرق وسطیٰ اور نارتھ افریقہ میں ہیں، 4 سو سے 6 سو ملین مسلمان دوسرے ممالک میں اقلیت بن کر رہ رہے ہیں جس میں سے 38 ملین یورپ میں، کینیڈا میں دو ملین اور امریکا میں تقریباً نو ملین مسلمان رہتے ہیں۔

پاکستان کے موسمی حالات کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں مویشیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو صحت مند ہیں، ساتھ ہمارے یہاں سستی مزدوری اور زمین کی وجہ سے وہ مسئلے نہیں جو امریکا اور یورپ میں ہیں۔ اس وقت آسٹریلیا، برازیل اور یہاں تک کہ انڈیا سے ہم سے زیادہ حلال فوڈ کی ایکسپورٹ ہورہی ہے، مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہے کہ دوسرے ممالک ہمارے فوڈ کے حلال ہونے پر زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔

پاکستان دنیا بھر میں آٹھواں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ گائیں ہیں اور تیسرے نمبر کا ملک جہاں سب سے زیادہ بکرے پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دنیا کے ٹاپ ٹین حلال فوڈ مہیا کرنیوالے ممالک کی فہرست سے بہت دور ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے یہاں لائیو اسٹاک کی کمی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور ڈیمانڈز ہیں جنھیں ہم پورا نہیں کرپاتے۔ میٹ ایکسپورٹنگ کمپنیوں میں بہت سخت صحت کے قوانین ہیں جہاں ہر امپورٹ کیے ہوئے پیکٹوں کو اس حد تک مانیٹر کیا جاتا ہے کہ کون سا گوشت کس فارم کے کس جانور کا ہے۔

یہ پتہ ہوتا ہے تاکہ امپورٹ کے وقت پیکٹ کا گوشت خراب ہو تو اس جگہ کے سارے گوشت کو ہٹا دیا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ حکومت نے کوئی بھی ایسا ٹریکنگ سسٹم نہیں رکھا ہے جس میں جانور باقاعدہ کیٹگریز میں ٹریک کیے جاتے ہوں، جہاں ہم اپنے جانوروں کو ابھی ٹریک بھی نہیں کر پارہے وہیں انڈیا کے کئی پرائیوٹ ادارے اور گورنمنٹ کے ادارے ٹیکنالوجی کی مدد سے باقاعدہ میٹ کو پروسس اسٹور اور مارکیٹ کر رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جہاں لائیواسٹاک فارمرز کو مستقل ٹریننگ اور مواقعے دیے جارہے ہیں وہیں ہمارے یہاں فارمرز کے لیے مہنگائی کی وجہ سے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے۔

پاکستان میں کچھ حد تک حلال فوڈ مارکیٹ کی طرف کام شروع ہوا ہے، جیسے پاکستان حلال ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں پہلا حلال سرٹیفکیشن اینڈ انشورنس پروگرام شروع کیا ہے جس میں پاکستان بھر کے ایکسپورٹرز کو حلال سرٹیفکیشن کی ایڈوائس دی جائے گی شاید یہی وہ پہلا قدم ہے جس کے بعد ہم آگے بڑھ کر گلوبل حلال فوڈ لیڈر بن سکیں۔

دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کامیابی کا انتظار نہیں کرسکتے، جو دوسرے ملکوں سے سیکھ سکتے ہیں، سیکھ کر خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کھجور ہو یا حلال فوڈ یا پھر کوئی اور ایکسپورٹ پاکستان کو اپنا Potention صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے امکان ہیں جو ہماری بے چاری قوم کو ہر چیز میں ''آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا'' والی سوچ کو بدلنے میں مدد دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں