وزیراعظم عمران خان

خان نے گاندھی‘ نہرو اور جناح کا حوالہ دیا جنہوں نے ولایت میں جا کر تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی قوم کی رہنمائی کی.

arifanees@gmail.com

''کیا عمران خان دو قاتلانہ حملوں اور دو الیکشنوں سے بچنے کے بعد جب وزیراعظم بنے گا تو اس کی عمر ستر برس کے قریب ہو گی؟''۔ میں نے ہیروڈز کے اندر واقع مشہور اطالوی کیفے میں بیٹھے ہوئے اس ہندو یوگی مستقبل بین سے پوچھا تو اس نے بے زاری سے سرجھٹکا اور شیشے سے باہر جھانکنے میں مشغول ہو گیا۔


مجھے رات کو ہی واشنگٹن کے نامی گرامی تھنک ٹینک میں کام کرنے والی اس عالمی شہرت یافتہ تجزیہ نگار امریکی خاتون کی طرف سے وہ ای میل لنک موصول ہو گیا تھا۔ تبصرہ کچھ یوں تھا۔ ''تمہارا خان اب ''ٹائم'' میگزین کے کور پر ہے۔ کیا یہ ایک اور کنسپائریسی تھیوری'' ہے؟ لیکن خان کا جادو ارائن بیکر پر نہیں چل سکا۔ وہ کہتی ہے'' اٹ ول بھی اے لانگ شاٹ'' میں نے بے چینی سے لنک کھولا تو دنیا کے مشہور ترین ہفت روزہ ''ٹائم'' کے سرورق پر عمران خان کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر موجود تھی۔ وہی تیکھے نقوش اور دل میں اترنے والی آنکھیں ۔ کونے میں ٹائٹل اسٹوری موجود تھی جس کا عنوان تھا''لانگ شارٹ'' اس عنوان کو سمجھنے میں آسانی رہے گی جب آپ شارجہ میں میاں داد کے مشہور زمانہ چھکے کو یاد کریں' بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جب آپ کو ایک گیند پر چھ نہیں' آٹھ رنز درکار ہوں اور آپ کو چھکے کی نہیں' اٹھے کی ضرورت ہو۔ ٹائم کی مشرق وسطی کی بیورو چیف ارائن بیکر عمران خان کے شاید اسی ''اٹھے'' کی بات کر رہی تھی۔میرا اس نسل سے تعلق ہے جو عمران خان کے میڈیا امیج کے سائے میں پلی' ضیاء الحق دور میں ٹی وی پر دو ہی اشیا' بکثرت دستیاب تھیں' ایک ملا اور دوسری کرکٹ عرف عمران خان۔ مجھے پرائمری کے دور میں پاکستان میں ہونے والے ورلڈ کپ میں لاہور میں سیمی فائنل کی شکست پر اپنے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر وہ اینٹ پھینکنا ابھی تک یاد ہے جو اپنے نشانے سے بال بال چوک گئی تھی۔ 1992ء میں ایف ایس سی کے پورے پرچے پاکستان کی ورلڈ کپ میں فتح پر صدقے واری کر دیئے تھے اور غالباً صرف ''اسلامیات'' میں پاس ہوا تھا۔ بعد میں شوکت خانم ٹرسٹ کے لیے عمران خان ''ٹائیگرز'' کلب میں شامل ہوا اور عمران خان کے ساتھ ''چندہ مہم'' کا ایک رضا کار بھی رہا۔ نفسیات اور ایم بی اے کے دوران 'لیڈرشپ'' پر ریسرچ کا خمار چھایا تو خان کے ساتھ عقیدت میں اور اضافہ ہو گیا۔ سی ایس ایس کرنے کے بعد ابھی والٹن کے زیر تربیت تھا کہ شوکت خانم انڈومنٹ فنڈ کی جانب سے ایک تقریب میں شرکت کی دعوت ملی' جہاں پر خان کو وردی میں ملبوس ''ڈکٹیٹر'' جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ''جپھیاں'' ڈالتے دیکھا تو آئینے میں کچھ خراش سی آ گئی تاہم یہ رومانس چیف جسٹس کی بحالی کی مہم کے دوران بھی جاری رہا۔ حتیٰ کہ خان کا قافلہ' اسلام آباد میں ''روپوش'' ہوگیا اور نواز شریف نے ''لنکا'' ڈھا دی۔ اکتوبر 2011ء میں لندن کے اس مشہور کلب میں بھی موجود تھا جب ابھی ''سونامی'' منظر نامے پر طلوع نہیں ہوا تھا' لیکن خان برطانیہ کے نامی گرامی سرمایہ کاروں کو ''مستقبل میں ''سرمایہ کاری'' کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ تاہم اس سارے تعلق کے باوجود ''ٹائم'' کے سرورق پر خان کی تصویر دیکھ کر دل سے بے ساختہ نکلا ''یا الٰہی خیر''۔ارائن بیکر' خان کی کرشماتی شخصیت' شرمیلی مسکراہٹ اور کیے جانے والے اعتماد کے باوجود کسی حد تک حقیقت پرمبنی تجزیہ کرنے میں کامیاب رہی۔ کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستانی اپنی ''مخصوص'' عادات' کلچر' کرپشن' نااہلی' مفاہمت پر مبنی این آر او اور جدہ زدہ سیاست' ہذا من فضل ربی' پولیس' پٹواری اور بیوروکریسی کی مار اور خاکی وردی کی بار بار اپنے ملک کو ''تاراج'' کرنے کی عادت کی وجہ سے ''نکونک'' ہو چکے ہیں اور ہمیں سفید براق پر اس اسمارٹ شاہسوار کی آمد کا انتظار ہے جو کشتوں کے پشتے لگا دے اور ہر طرف جھاڑو پھیر دے اور پھر اردو کے ایک معروف کالم نگار کے بقول ''خیرہ کن'' سورج طلوع ہو گا اور رب کی زمین نور سے بھر جائے گی۔ تاہم نسیم حجازی اور اسلم کے ناولوں کے برعکس زندگی امنگ اور ترنگ کے ساتھ ساتھ منصوبہ اور قاعدہ بھی مانگتی ہے جس کا ہمارے روزوشب میں دور دور کا گزر بھی نہیں ہے۔ ورنہ اگر کشتوں کے پشتے لگا دینے اور ہر چوک پر سولی گاڑ دینے سے مسائل حل ہوتے تو آج ایران عصر حاضر کی ایک عظیم طاقت ہوتا۔ارائن بیکر نے خان سے اس کے سیاسی سفر کے ارتقاء کے بارے میں پوچھا تو خان نے گاندھی' نہرو اور جناح کا حوالہ دیا جنہوں نے ولایت میں جا کر تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی قوم کی رہنمائی کی' پھر اس نے خان کی ''جوانی' دیوانی'' کی بات شروع کی تو خان کے چہرے پر وہی شرمیلی مسکراہٹ رونما ہوئی جو پہلے وقتوں میں معین اختر' انور مقصود کے اس کی شادی کے حوالے سے سوالات پر اس کے چہرے پر طلوع ہوتی تھی۔ اس بات پر مجھے بے ساختہ اپنی ایک دوست اور عمران خان کی پرانی پرستار ''کرسٹینا بیکر'' یاد آ گئی جو ہر تیسری ملاقات میں بے ساختہ کہتی ہے ''عارف'عمران خان وزیراعظم بن گیا' تو خاتون اول کے بغیر کیسا لگے گا؟ جب وہ بیرون ملک دورے پر جائے گا تو کیا ''اکلوتا'' ہی جہاز میں بیٹھے گا۔ تم اسے سمجھاتے کیوں نہیں ہو؟''۔ اس کے آخری جملے پر میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ''خان صاحب'' کو آج تک کوئی سمجھا نہیں سکا' اور دوسرا یہ کہ خان صاحب ''شادی'' کرنے والے 'کو بالکل ''چول '' مانتے ہیں۔ خان نے مجھے خود وسیم اکرم کی اپنی مرحومہ بیوی ہما کے ساتھ محبت بھری شادی اور پھر ایک سال کے اندر اندر محبت سے تائب ہونے والی باتیں یقین کامل کے ساتھ سنائی تھیں۔

تو اے خان کے پرستارو' مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم عمران خان نہیں تو اپوزیشن لیڈر عمران خان کے ساتھ بھی ستاروں کے سفر پر رواں ہونے والوں کی کمی نہیں ہو گی' مگر خان یہ ''غلطی'' دوبارہ نہیں کرے گا' اس لیے کہ وہ صرف سیاسی غلطیاں ''دہرانے'' میں یقین رکھتا ہے۔
Load Next Story