ای سی سی کے فیصلے پرعمل نہ ہوا تو عدالت جائینگے پاما
وزارت تجارت فیصلے کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کر رہی ہے،کاروباری ماحول تباہ ہوجائیگا
پاکستان آٹوموبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی وزارت تجارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کو نیا رخ دیتے ہوئے تمام مینوفیکچررز کے لیے یکساں ٹیرف کی منظوری کو آٹو سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری کی پالیسی سے تعبیر کررہی ہے۔
وزارت تجارت نے مفاد پرستوں کی سرپرستی میں کھیلے جانے والے اس کھیل کو ختم نہ کیا تو صنعت اپنا ایک بھی دن ضائع کیے بغیر یہ معاملہ عدالتوں میں لے جائے گی۔ پاکستان آٹو موبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے ڈائریکٹر جنرل نے وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ای سی سی کے فیصلے کے بارے میں الجھن پیدا کرنے کی کوششوں سے ملک کا کاروباری ماحول تباہ ہو جائے گا۔ ای سی سی ایک قابل احترام فورم ہے اور اس کے فیصلوں کو متاثر کرنے کی کوئی بھی کوشش کاروباری کمیونٹی اور سرکاری حکام کے درمیان اعتماد کی فضا میں کمی کا باعث ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے ای سی سی کے فیصلے کا اس کی روح کے مطابق نوٹیفکیشن کرنے کے فیصلے نے صنعت کو بڑی ہمت دی ہے کہ اب وہ پاکستان میں آٹو صنعت کی ترقی میں بڑی دور تک جا سکیں گے۔ تاہم، کچھ عناصر ای سی سی کے 23اکتوبر کے ایک واضح فیصلے کے بارے میں الجھن پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیںجس کا ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ SROsکی شکل میں اعلان کیا جا چکا ہے۔ای سی سی نے اپنے 23اکتوبر کے اجلاس میں واضح طور پر یہ فیصلہ کیا تھا اور ایف بی آر کو ہدایت کی تھی کہ موٹر سائیکل کے تمام مینوفیکچررز سمیت ٹیرف کے ڈھانچے میں ترمیم کے لیے SROsجاری کرے، جس کا مطلب ہے کہ نئے یا موجودہ تمام کھلاڑیوں کو ای سی سی کی جانب سے منظورکردہ تازہ ترین ٹیرف ڈھانچے کے تحت چلایا جائے گا۔ ای سی سی نے واضح طور پر یہ بیان کیا تھا کہ ترمیم شدہ ڈھانچے کا ایک سال کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔
تاہم وزارت تجارت اب ای سی سی کے فیصلے کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزارت تجارت کی جانب سے30نومبر، 2012کی تاریخ سے ایک خط ایف بی آر کو بھیجا گیا ہے جس کی کاپی وزارت صنعت کو بھی بھیجی گئی ہے۔ اس خط میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ای سی سی اپنے 23اکتوبر، 2012کے اجلاس میں موٹر سائیکلوں کے لئے ''نئی انٹرنٹ پالیسی'' منظور کر چکی ہے۔ اس خط کے ذریعے، وزارت تجارت نے یہ مطلب پہنچایا ہے کہ ای سی سی اپنے 2-10-2012کے فیصلے میں موٹر سائیکل کی صنعت کے لئے ''نئی انٹرنٹ پالیسی''منظور کر چکی ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سیریل نمبر IIپر موجود 2-10-2012کے ای سی سی کے فیصلے میں محض یہ کہا گیا ہے کہ ''مجوزہ ڈیوٹی ڈھانچے کانئے داخل کاروں اور موجودہ مینوفیکچررز پر یکساں اطلاق ہوگا تاکہ تمام مینوفیکچررز کو ایک جیسا ہموار میدان فراہم کیا جائے''۔انہوں نے کہا کہ اگر وزارت تجارت نے مفاد پرستوں کی سرپرستی میں کھیلے جانے والے اس کھیل کو ختم نہ کیا تو صنعت اپنا ایک بھی دن ضائع کئے بغیر یہ معاملہ عدالتوں میں لے جائے گی۔دوسری جانب ایف بی آر میں اس معاملے میں بہتر احساس اجاگر ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں جیسا کہ انہوں نے متعلقہ SROs خصوصاً SRO 693 (I)/2006کوکیس نمبر ECC-168/13/2007بتاریخ 13.11.2007میں دیے گئے ای سی سی کے فیصلے کے ذریعے منظور کردہ نیو انٹرنٹ پالیسی کے ساتھ اپ لوڈ کر دیا ہے۔ ایف بی آر کی سائیٹ پر اپ لوڈ کی گئی SRO 693/2006 میںدی گئی یہ پالیسی صرف کاروں، ٹرکوں اور بسوں وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے لیکن دو یا تین پیہوں والی ٹرانسپورٹ کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہ SROsایف بی آر کی سائیٹ پر 30نومبر، 2012کو اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔
وزارت تجارت نے مفاد پرستوں کی سرپرستی میں کھیلے جانے والے اس کھیل کو ختم نہ کیا تو صنعت اپنا ایک بھی دن ضائع کیے بغیر یہ معاملہ عدالتوں میں لے جائے گی۔ پاکستان آٹو موبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے ڈائریکٹر جنرل نے وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ای سی سی کے فیصلے کے بارے میں الجھن پیدا کرنے کی کوششوں سے ملک کا کاروباری ماحول تباہ ہو جائے گا۔ ای سی سی ایک قابل احترام فورم ہے اور اس کے فیصلوں کو متاثر کرنے کی کوئی بھی کوشش کاروباری کمیونٹی اور سرکاری حکام کے درمیان اعتماد کی فضا میں کمی کا باعث ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے ای سی سی کے فیصلے کا اس کی روح کے مطابق نوٹیفکیشن کرنے کے فیصلے نے صنعت کو بڑی ہمت دی ہے کہ اب وہ پاکستان میں آٹو صنعت کی ترقی میں بڑی دور تک جا سکیں گے۔ تاہم، کچھ عناصر ای سی سی کے 23اکتوبر کے ایک واضح فیصلے کے بارے میں الجھن پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیںجس کا ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ SROsکی شکل میں اعلان کیا جا چکا ہے۔ای سی سی نے اپنے 23اکتوبر کے اجلاس میں واضح طور پر یہ فیصلہ کیا تھا اور ایف بی آر کو ہدایت کی تھی کہ موٹر سائیکل کے تمام مینوفیکچررز سمیت ٹیرف کے ڈھانچے میں ترمیم کے لیے SROsجاری کرے، جس کا مطلب ہے کہ نئے یا موجودہ تمام کھلاڑیوں کو ای سی سی کی جانب سے منظورکردہ تازہ ترین ٹیرف ڈھانچے کے تحت چلایا جائے گا۔ ای سی سی نے واضح طور پر یہ بیان کیا تھا کہ ترمیم شدہ ڈھانچے کا ایک سال کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔
تاہم وزارت تجارت اب ای سی سی کے فیصلے کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزارت تجارت کی جانب سے30نومبر، 2012کی تاریخ سے ایک خط ایف بی آر کو بھیجا گیا ہے جس کی کاپی وزارت صنعت کو بھی بھیجی گئی ہے۔ اس خط میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ای سی سی اپنے 23اکتوبر، 2012کے اجلاس میں موٹر سائیکلوں کے لئے ''نئی انٹرنٹ پالیسی'' منظور کر چکی ہے۔ اس خط کے ذریعے، وزارت تجارت نے یہ مطلب پہنچایا ہے کہ ای سی سی اپنے 2-10-2012کے فیصلے میں موٹر سائیکل کی صنعت کے لئے ''نئی انٹرنٹ پالیسی''منظور کر چکی ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سیریل نمبر IIپر موجود 2-10-2012کے ای سی سی کے فیصلے میں محض یہ کہا گیا ہے کہ ''مجوزہ ڈیوٹی ڈھانچے کانئے داخل کاروں اور موجودہ مینوفیکچررز پر یکساں اطلاق ہوگا تاکہ تمام مینوفیکچررز کو ایک جیسا ہموار میدان فراہم کیا جائے''۔انہوں نے کہا کہ اگر وزارت تجارت نے مفاد پرستوں کی سرپرستی میں کھیلے جانے والے اس کھیل کو ختم نہ کیا تو صنعت اپنا ایک بھی دن ضائع کئے بغیر یہ معاملہ عدالتوں میں لے جائے گی۔دوسری جانب ایف بی آر میں اس معاملے میں بہتر احساس اجاگر ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں جیسا کہ انہوں نے متعلقہ SROs خصوصاً SRO 693 (I)/2006کوکیس نمبر ECC-168/13/2007بتاریخ 13.11.2007میں دیے گئے ای سی سی کے فیصلے کے ذریعے منظور کردہ نیو انٹرنٹ پالیسی کے ساتھ اپ لوڈ کر دیا ہے۔ ایف بی آر کی سائیٹ پر اپ لوڈ کی گئی SRO 693/2006 میںدی گئی یہ پالیسی صرف کاروں، ٹرکوں اور بسوں وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے لیکن دو یا تین پیہوں والی ٹرانسپورٹ کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہ SROsایف بی آر کی سائیٹ پر 30نومبر، 2012کو اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔