عُمراں چ کیہہ رکھیا

اس بار لندن میں بروئے کار جناب الطاف حسین اور دہلی کے حکمران، نریندر مودی، کے جنم دن ساتھ ساتھ منائے گئے ہیں

tanveer.qaisar@express.com.pk

SYDNEY:
اس بار لندن میں بروئے کار جناب الطاف حسین اور دہلی کے حکمران، نریندر مودی، کے جنم دن ساتھ ساتھ منائے گئے ہیں۔ عجب اتفاق ہے۔ اول الذکر بوجوہ تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ ثانی الذکر کا ابھی ڈنکا بج رہا ہے۔ جناب الطاف حسین 63 اور نریندر مودی 66 برس کے ہو گئے ہیں۔ تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے جناب محمد نواز شریف کی عمر بھی 66 سال ہو گئی۔

نریندر مودی اور نواز شریف کا بالکل ہم عمر ہونا بھی جنوبی ایشیائی تاریخ کا عجوبہ بن گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی عمریں تو ایک جیسی ہیں، کاش ان کے دل و دماغ بھی یکساں ہوتے تو برِصغیر پاک و ہند کامل امن کا گہوارہ بن سکتا تھا۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے تو قیامِ امن کے لیے اپنے تئیں ہر ممکنہ کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔ انھوں نے چند روز قبل نیویارک میں بھی بھارت سے پُرامن تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے بھارتی ہم منصب نے محبت کا جواب محبت سے اور امن کی خواہش کا جواب امن سے نہیں دیا۔

شاباش دینی چاہیے نواز شریف کو کہ 21 ستمبر 2016ء کو انھوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جہاں نہایت شائستگی کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے مصائب بیان کیے، وہاں بھارتی چیف ایگزیکٹو کے بارے میں کوئی ناشائستہ لفظ ادا نہ کیا۔ میاں صاحب کے اس مستحسن رویے کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی نے ظلم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اور اب شمالی کشمیر کے علاقے اُڑی میں شرارت کر کے جو نیا فساد برپا کیا ہے، اس نے تو امن کی تمناؤں کا خون ہی کر دیا ہے۔ بھارتی عناد نے امن کی فاختہ کو ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔

بھارتی وزیرِاعظم کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیرِدفاع منوہر پاریکر، وزیرِمملکت برائے امورِ خارجہ جنرل (ر) وِکرم سنگھ، وزیرِداخلہ راجناتھ سنگھ اور مودی کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت ڈوول نے، پُراسرار اُڑی حملے کے بعد، پاکستان کے خلاف جو اشتعال انگیز زبان استعمال کی ہے اور ابھی تک استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ قابلِ مذمت بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی۔ بھارت، پاکستان کے خلاف براہموس میزائل چلانے اور سرجیکل اسٹرائیک کی باتیں کر رہا ہے۔ تو کیا پاکستان نے اپنے غوری، شاہین، ابدالی گُلی ڈنڈا کھیلنے کے لیے بنا رکھے ہیں؟ بھارت اگر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرتا ہے تو کیا پاکستان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے آپشن کو آزمانے سے باز رہے گا؟ بھارت کا ہاٹ یا کولڈ ڈاکٹرین پاکستان کو ڈرانے دھمکانے سے تو رہا۔ پاکستان کا جواب ہر وقت تیار ہے، جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے۔

بات عمروں کی ہو رہی تھی اور نکل گئی جنگ و جدال کے ناپسندیدہ موضوع کی طرف۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی عمر بھی 63 سال ہے اور لندن میں بیٹھے ''بھائی'' کی بھی یہی عمر ہے۔ اُدھر مُودی اور نواز شریف اگر ہم عمر ہیں تو اِدھر الطاف حسین اور عمران خان ''ہانی'' ہیں۔ دونوں کی سیاست اور خیالات میں اگرچہ بُعد المشرقین ہے۔ عمران خان کا ذکر سامنے آیا تو مَیں نے ویسے ہی ان کی پہلی اور دوسری اہلیہ کی عمریں بھی نکالیں۔ یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جب نوے کے عشرے کے عین وسط میں کپتان نے انگلستان کے اشرافیہ خاندان کی ایک ممتاز خاتون سے شادی کی تو دونوں کی عمروں میں پورے بیس سال کا فرق تھا۔


مگر پھر بھی خوب بنتی اور نبھتی رہی۔ پھر کسی کی نظر لگ گئی اور یہ جوڑا، دو بچوں کو جنم دے کر، محض 9 سال بعد ایک دوسرے سے جُدا ہو گیا۔ شہزادی ڈیانا کی موت اور عمران و جمائما کی طلاق نے یکساں طور پر چاہنے والوں کو اداس اور افسردہ کیا۔ تقدیر کا لکھا مگر کون ٹال سکتا ہے؟ تقریباً گیارہ برس بعد عمران نے اسلام آباد میں نکاحِ ثانی کیا تو بھی دونوں میں بیس برس کی عمروں کا فرق تھا۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے۔ اب ہمارے کپتان صاحب، شنید ہے، تیسری شادی کے خواہاں ہیں۔ دیکھتے ہیں تیسری بار عمروں کا تفاوت کیا رنگ دکھاتا ہے!!

ہماری قومی سیاست کے تیسرے اہم کھلاڑی ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری ہیں۔ ان کی عمر 65 برس ہے۔ علامہ قادری صاحب پچھلے سال مبینہ طور پر دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے تھے مگر ان کی سیاسی سرگرمیاں، توانائی سے بھرپور ان کے جگہ جگہ خطابات اور ہر بڑے شہر میں پریس کانفرنس سے انھیں مکالمہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں تو لگتا نہیں کہ وہ کبھی دل کے عارضے میں بھی مبتلا رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم صاحب تو باقاعدہ دل کی سرجری کے عذاب سے گزرے ہیں۔ لیکن اب جب وہ پوری طاقت سے جلسوں سے خطاب فرماتے ہیں اور شیر کی طرح مخالفین پر گرجتے ہیں تو قطعی محسوس نہیں ہوتا کہ دل کے بڑے آپریشن سے گزرے ہیں۔

جنرل راحیل شریف سیاستدان تو نہیں ہیں لیکن ان کے ذکر کے بغیر سیاست کا ذکر پھیکا پھیکا اور بے رنگ سا لگتا ہے۔ وہ عمر کے لحاظ سے نواز شریف، الطاف حسین، طاہر القادری اور عمران خان سے چھوٹے ہیں۔ صرف ساٹھ سال کے۔ جس روز وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے تھے، زیادہ صحت مند تھے۔ گزشتہ تین برس کی بے پناہ مصروفیات اور ٹینشنوں نے ان کے چہرے کی طراوت کم کر دی ہے۔ اقتدار میں رہنے اور ذمے داریاں ادا کرنے میں شاید یہی فرق ہے۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تھے تو کمزور سے تھے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کے چند برس کے اندر ہی ان کا رنگ بھی بے پناہ نکھر گیا تھا اور جسم بھی بھر گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی صحت میں بھی اسی طرح رفتہ رفتہ بڑھوتری ہوئی تھی۔ جنرل راحیل شریف نے مگر اقتدار کی عنانیں نہیں سنبھال رکھی ہیں۔ بس ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہیں؛ چنانچہ بوجھ اور تناؤ نے ان کے چہرے کی بشاشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کا دل یقینا مضبوط اور جوان ہے۔

ہماری مغربی سرحد کے پار جناب اشرف غنی رہتے ہیں لیکن وہ ''غنی'' کم اور بھارت کے زیادہ محتاج بن گئے ہیں۔ عمر کے اعتبار سے نواز شریف اور نریندر مودی سے زیادہ بزرگ۔ 67 سال کے۔ سالخوردگی نے ان کے فرنچ کٹ ڈاڑھی والے چہرے پر گہرے منفی اثرات ڈال رکھے ہیں۔ یہ 67 سالہ افغان ''بزرگ'' صدر بس دن پورے کر رہے ہیں۔ افغان طالبان نے ان کی مَت مار رکھی ہے۔

پاکستان نے ہر قسم کی اعانت سے بزرگ اشرف غنی کو نوازا۔ اُنہیں اپنے ہاں دعوت دے کر ان کا مان بڑھایا۔ پھر جناب نواز شریف بھی ان کے پاس گئے اور اپنے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف کو بھی لے گئے۔ پاکستان نے افغان فوجی جوانوں اور افسروں کی تربیت بھی کی۔ افغانستان میں سڑکیں بھی بنائیں لیکن 67 سالہ اشرف غنی کو شاید عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہضم نہ ہو سکا۔ وہ بھی اپنے پیشرو، حامد کرزئی، کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ اور یہ نقش قدم افغان قوم کے لیے بربادی کا سندیسہ ہیں۔ اشرف غنی صاحب کی عمر، بزرگی اور مبینہ مالیاتی تجربہ ان کی قوم کے کسی کام نہیں آ سکا۔ فی الحال تو نہیں۔ آیندہ شاید ان کی عقل داڑھ نکل آئے تو حالات بدل جائیں۔
Load Next Story