کشمیرطبقاتی جدوجہد کی ماں ہے
ریشم بنانے والے مزدوروں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کی اورکسانوں نے بھی ہڑتالیں کیں
NAIROBI:
انسانی سماجی تاریخ طبقاتی تضادات سے بھری پڑی ہے۔شاید دنیا کی معلوم تاریخ کی پہلی ہڑتال اہرام مصر بنانے والے غلام مزدوروں کی تھی، جن کا واحد مطالبہ تھا کہ''روٹی کے ساتھ پیازبھی چاہیے''جب کہ دورجدید کی قابل ذکر ہڑتال اوراحتجاج اٹھارہ سوچھیاسی میں شکاگوکے مزدوروں کی ہے۔احتجاج کرنے والوں میں چھ مزدور رہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی، مگر ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔آج دنیا بھرمیںآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی قانونی شکل اختیارکرگئی ہے ، مگرکشمیر کے مزدوروں اورکسانوں نے اٹھارہ سوبتیس اوراٹھارہ سو پینتیس میں ہڑتالیں کیں۔
ریشم بنانے والے مزدوروں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کی اورکسانوں نے بھی ہڑتالیں کیں۔کشمیری کسانوں جیسی ہڑتال کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔سات کسان رہنما جن میں ملی خان، سبزعلی خان اور مسافرخان بھی شامل تھے،انھیں ہڑتال کر نے کے جرم میں منگ،کشمیر میں ایک زیتون کے درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کران کی کھال اتاری گئی مگر ان عظیم بہادرسپوتوں نے حکمران گلاب سنگھ سے معافی نہیں مانگی۔
ان کا مطالبہ زمین کا ٹیکس نہ دینے کا تھا ۔ذرا غور توکریں کہ گولی سے مرنا یا پھانسی پہ لٹکنا چند لمحوں کا واقعہ ہوتا ہے لیکن جسم کی کھال اتارنا ،کتنا درد ناک اوربھیانک ہوتا ہے۔ان کسان رہنماؤں سے حکمرانوں نے کہا تھا کہ معافی مانگ لو تو تمھیں چھوڑدینگے مگرکسان رہنماؤں نے معافی نہیں مانگی اوراپنی جان ،سچائی،حق اوراصولوں پر قربان کردی ۔ یہ ہے کشمیرکی تاریخ ۔ اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں اور بھی مزدوروں،کسانوں کی قابل ذکر اور تاریخی جدوجہد ہوئی ہیں ، جن میں جرمنی، برطانیہ، چین، آندھرا پردیش، بنگال، پنجاب اورامریکا کے محنت کش پیش پیش تھے لیکن کشمیرکے مزدوروں اورکسانوں کی عظیم ہڑتالیں دور جدید میں جتنی قدیم ہیں اتنی ہی بے باک، منظم اوربہادری سے لبریز۔کشمیری نوجوان، مزدور،کسان اورطلبہ پتھروں اورغلیلوں سے چھروں اورگولیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔
یہ لڑائی فلسطینیوں، ویتنامیوں اور بھارتی ماؤ نوازکمیونسٹوں ( نکشال باڑی) کی طرح مظلوموں کی ظالموں کے خلاف لڑائی ہے۔یہ جدوجہد رنگ ونسل، مذہب، فرقہ اورلسانیات سے بالاتر ہے ۔ جس طرح فلسطینیوں کے عظیم رہنما کامریڈ جارج حبش کا تعلق ایک عیسائی خاندان سے تھا ۔ جنوبی افریقہ میں کالی اکثریت پر مسلط قلیل اقلیت گوروں کے راج کے خلاف کمیونسٹ پارٹی آف ساؤتھ افریقہ کے جنرل سیکریٹری کرائس ہنی گورے تھے ، جنھیں ختم کرنے کے لیے امریکی سی آ ئی اے نے اپنے ایک ایجنٹ کو ہالینڈ سے جنوبی افریقہ بھیجا اورانھیں گولی ماری گئی۔
ہندوستان کے سترہ صوبوں کے دوسو اضلاع میں ماؤنوازکمیونسٹ ،مسلح جدوجہد میں برسر پیکار ہیں ۔ان میں ہندو،عیسائی، مسلمان، سکھ، جین اور یہودی سب شامل ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح کشمیرمیں بھی کشمیری پنڈت ( ہندو) بھی کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔کمیونسٹ پارٹی آٖف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما یوسف تارا گرامی جوکہ کشمیر سے ایم ایل اے ہیں نے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف دھرنا دیا،ہزاروں کارکنوں نے ان کا خیر مقدم کیا ۔ ادھرکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما انڈین اسمبلی میں کشمیریوں پر ظلم ڈھائے جانے کے خلاف اور ان پر چھرے برسانے جس میں سیکڑوں کشمیری عوام کی آنکھیں جزوی یا مکمل طور پر ضایع ہوئیں پر شدید احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر سے خصوصی فوج کو واپس بلایا جائے اوران کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔
اقوام متحدہ میں قرارداد منظورہوئی تھی،جسے جواہر لال نہرو نے پیش کیا تھا ۔ اس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ جس میں کشمیریوں کی رائے لی جائے گی کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا خود مختار ملک کے طور پرآزاد حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں ۔آخری نکتہ یہ تھا کہ کشمیر سے پاکستان کی فوج نکل جائے گی اور ہندوستان کی فوج کا بڑا حصہ کشمیر میں رہے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''کشمیر میں ہندوستانی فوج کا بڑا حصہ رہے گا'' یہ بات پاکستانی نمایندے نے کیوں مان لی؟ اس کے پیچھے کوئی راز ہے یا غلطی ہے یا دباؤ میں آکرایسا کیا ۔پا کستانی حکمرانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو اس بات کی وضاحت کریں اور بتائیں کہ ریفرنڈم کے تین نکات کیا ہیں اوران کے مقاصدکیا ہیں ۔ درحقیقت ہندوستان وہی کام کررہا ہے بلکہ زیادہ بڑھ کے کررہا ہے جوکام پاکستان بننے کے فوراً بعد پا کستانی حکام نے کیا تھا ۔ یعنی سینٹو، سیاٹو، پی ایل چارسو اسی، آرسی ڈی اور بغداد پیکٹ وغیرہ ۔ ہندوستان نے تو امریکا کو فوجی اڈوں اورجنگی نقل وحمل کی سہولت فراہم کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے ۔جس طرح پاکستان نے جنرل پرویزمشرف کے دور میں افغانستان میںامریکا کو مداخلت کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔
فلپائن سے امریکی فوجی اڈے ختم ہوگئے۔ جنوبی کوریا اور جاپانی جزیرہ ' اوکی ناوا ' میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جس کے خلاف کوریائی اورجاپانی کمیونسٹ پارٹیاں، ورکرز پارٹیاں اور جنگ مخالف قوتیں مسلسل احتجاج کررہی ہیں،اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکا کو اپنے فوجی اڈوں سے دست بردارہونا پڑے اس لیے آ سٹریلیا میں اپنا متبادل فوجی اڈہ قائم کرلیا ہے۔ ادھر بحرہند میں ڈیگوگارشیا کے فوجی اڈے پر برطانیہ نے امریکا کو سہولت دینے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ اب ہندوستان،امریکا کو جنگی جہازوں کے لیے ایندھن کی فراہمی، جنگی بیس پر لینڈنگ اورساحلوں پہ لنگراندازی اوراسلحے کی ترسیلات کا معاہدہ کرلیا ہے۔ جس پرکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے احتجاج کیا ہے ۔کمیونسٹ پارٹیوں اور دیگربائیں بازوکی جماعتوں نے دو ستمبرکو ہندوستان میں تاریخی ہڑتال کی جس میں عوام کی شرکت غیر معمولی تھی ۔
بائیں بازوکے اتحاد نے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ امریکی انڈین دفاعی معاہدے کی مذمت کی ہے اوراس سے دستبرداری کا مطالبہ کیا ہے ۔کشمیری عوام کے مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی کشمیر ہے جو آئی ایم ایف اورورلڈ بینک کے بندھنوں سے آزاد ہو،ایک ایساکشمیر جہاں کے عوام ملکیت، جائیداد،غیروں کا تسلط، فوج اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار سے آزاد ہوں۔ ساری دولت سارے عوام کی ہوکوئی ارب پتی ہو اورنہ کوئی گدا گر اور یہ تمام آزادیاں صرف اورصرف ایک کمیونسٹ نظام ہی کشمیری عوام کو مہیا کرسکتا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کا ایک تہائی رقبہ کمیونسٹوں کے قبضے میں ہے۔ بھارتی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق بانوے ہزار مربع میل جنگلات پر ماؤنوازکمیونسٹوں ( نکشلا ڈ) کا قبضہ ہے جس کا ٹیکس کمیونسٹ خود وصول کرتے ہیں اوران خطوں میں طبقات کا خاتمہ کردیا گیا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیر سمیت یہ ساراخطہ سامراجی تسلط اورطبقاتی نظام سے پاک ہوگا۔