رائے ونڈ کا سیاسی تماشا

عمران خان نے اپوزیشن کے مشورے کے بغیر رائے ونڈ میں اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا جو ذاتی فیصلہ کیا

رائے ونڈ میں ٹھیک ایک ہفتے بعد کیا ہونے والا ہے۔ اس سلسلے میں رائے ونڈ میں 30 ستمبر کو ہونے والے سیاسی تماشے کی تیاریاں نواز شریف کے متوالوں اور عمران خان کے کھلاڑیوں نے بھرپور طور پر شروع کر رکھی ہیں۔

عمران خان نے اپوزیشن کے مشورے کے بغیر رائے ونڈ میں اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا جو ذاتی فیصلہ کیا اور اپوزیشن رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود 30 ستمبر جمعے کے روز اس پر عمل کی تیاریاں شروع تو ہوچکی تھیں ۔ عمران خان نے واضح کہا ہے کہ رائے ونڈ کسی کی جاگیر نہیں کہ ہم وہاں پی ٹی آئی کا جلسہ نہ کریں۔ انھوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کا جلسہ شریف برادران کے گھروں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا اوردھرنا نہیں دیا جائے گا بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ملک بھر سے بلاکر پی ٹی آئی سب سے بڑا جلسہ کرے گی اور حکمرانوں کے احتساب کے لیے رائے ونڈ میں اپنے کارکن جمع کرکے دکھائے گی تاکہ قوم کو حکمرانوں کی مبینہ کرپشن کا بتا کر ان کا احتساب کرا سکے۔

عمران خان نے حسب سابق تنہا سیاسی پروازکا فیصلہ اپوزیشن سے مشاورت سے نہیں کیا ہے اور اپنے رہنماؤں کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دینے والی اپوزیشن کے اعتراضات کی فکر نہ کریں اور قوم کو پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت دکھانے کی تیاریاں شروع کردیں۔

اس کالم کی اشاعت کے ایک ہفتے کے بعد رائے ونڈ میں کیا ہوگا؟ اس پر ملک کے تمام سیاسی حلقے تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور شیخ رشید احمد کے سوا کوئی بھی پارٹی یا سیاسی رہنما عمران خان کے فیصلے کی حمایت نہیں کر رہا، بلکہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اور رہنما وزیراعظم کے گھر کے قریب جلسے کی مخالفت کررہے ہیں۔ رائے ونڈ جلسے کی تیاریاں، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں نے اپنے طور پر شروع کردی ہیں۔ رائے ونڈ میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو روکنے کے لیے مسلم لیگ ن کے حامیوں نے کہیں ڈنڈا فورس بنالی ہے تو کہیں کارکنوں پر پھینکنے کے لیے گندے انڈے اور ٹماٹر جمع کرنا شروع کردیے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحب زادے کے نام پر حمزہ فورس بن گئی تو عمران خان کے کھلاڑیوں نے کرکٹ کے بلوں کو ڈنڈوں کے جواب میں پی ٹی آئی کے رنگوں سے سجادیا ہے۔کہیں متوالوں کے لیے ٹھنڈا شربت تیارکیا جا رہاہے تو کراچی میں پی ٹی آئی کی خواتین پر مشتمل کفن پوش دستے بھی لاہور لے جانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں گویا لاہور میں کفر واسلام کی جنگ ہونی ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ عمران خان نے نعرہ حق بلند کردیا ہے اور اس حق کے لیے رائے ونڈ ہر حال میں جانا ہے۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں نے رائے ونڈ آنے والوں کو کرپانیں بھی دکھا دی ہیں اور مزید ایک ہفتے میں دونوں طرف سے جوکچھ بھی منظرعام پر لایا جائے گا اس کے لیے ملک کے سنجیدہ حلقے تشویش میں مبتلا ہیں اور خیرکی دعائیں کررہے ہیں۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف شر انگیز الزام تراشی شروع کر رکھی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ایک سو سے زائد بے گناہ کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں اور بھارت اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی جاری رکھنے کے بعد جنگ چھیڑسکتا ہے مگر عمران خان کو کے پی کے میں ہونے والی کرپشن سے زیادہ وفاق اور پنجاب میں ہونے والی کرپشن کی فکر ہے اور باقی تین صوبوں میں ہونے والی کرپشن پر عمران خان نے خاموشی اختیارکر رکھی ہے اور ان کے نزدیک شریف برادران کا احتساب ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔


رائے ونڈ میں پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ جمعہ 30 ستمبر کوکرنا ہے جس میں شرکت کی تیاری پی ٹی آئی نے شروع کر رکھی ہے اور ان کی اس سلسلے میں 24 ستمبر سے ریلیاں بھی شروع ہونی ہیں مگر کراچی میں 21 ستمبر کو ہی ریلی نکالنا کیوں ضروری سمجھا گیا جب کہ کراچی کی صورت حال پہلے ہی اطمینان بخش نہیں ہے۔

پی ٹی آئی تیس ستمبر کو رائے ونڈ میں اپنی سیاسی طاقت دکھائے گی جو وہ پہلے بھی کرتی رہی ہے اور ملک بھر میں تیاریوں سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا جلسہ سیاسی تماشا ہوگا اور لوگوں کو تفریح میسر آئے گی۔ رائے ونڈ میں نومبر میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے اور تیس ستمبر کو پی ٹی آئی کے سیاسی تماشے میں میوزیکل شو بھی ہوگا، اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے حامیوں نے ڈنڈے اور مخالفوں نے بلے اٹھاکر ملک بھر میں رقص شروع کر رکھا ہے اور ٹی وی چینلوں پر آنے کے لیے دونوں پارٹیوں کے منفرد کھیل تماشے شروع ہوچکے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی طرف سے ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے عمران خان اپنے کارکنوں کو شریف برادران کے گھروں پر حملے کے لیے رائے ونڈ بلارہے ہیں ،جنھیں روکنے کے لیے مسلم لیگ ن کے متوالوں نے جو ڈنڈا فورس بنائیہے وہ پچیس ستمبر سے لاہور پہنچنا شروع ہوجائے گی۔ اسلام آباد میں اپنے طویل دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان کو رائے ونڈ کا رخ نہیں کرنا چاہیے تھا مگر انھوں نے بردباری اور بہتر سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اکیلے ہی رائے ونڈ فتح کرنے نکل رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے بعض رہنما بھی غیر ضروری طور پر جذباتی ہوکر سیاسی کشیدگی بڑھا رہے ہیں۔

عمران خان کے رائے ونڈ جلسے سے نہ قیامت آجائے گی اور نہ شریف برادران کا اقتدار ختم ہوگا۔ ن لیگ کی قیادت کو بھی اس وقت عقل مندی دکھانی چاہیے تھی مگر بعض لیگی جذباتی رہنما اپنے نمبر بڑھانے کے لیے سیاسی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور دھمکی آمیز بیانات دے کر ن لیگی کارکنوں کو ملک بھر میں جوش دکھانے کا موقع دے دیا ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے اور وفاق اور پنجاب میں اپنے حکمرانی کے باعث 30 ستمبر کو امن برقرار رکھنے کی ذمے داری بھی ن لیگ کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پہلے ہی پنجاب حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے اور رائے ونڈ کو دو پارٹیوں کی جنگ سمجھ لیا گیا ہے ، پی ٹی آئی کے کارکن تو جلسے کی رونق بڑھانے کے لیے بلائے گئے ہیں مگر مسلم لیگ ن کے متوالوں کو لاہور لے جائے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رائے ونڈ میں جلسہ پی ٹی آئی کا ہے ن لیگ کا جلسہ نہیں ہورہا۔

اپنی سیاسی طاقت دکھانے کے لیے اپنے کارکنوں کو ملک بھر سے بلانے کی ضرورت پی ٹی آئی کی ہے مسلم لیگ ن کی نہیں۔ لیگی کارکنوں کے آنے سے اگر کہیں بھی ان کا کھلاڑیوں سے جھگڑا ہوگیا تو بات بڑھ جائے گی اور شاید عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال ملک کے لیے نہایت نقصان دہ ہوگی۔ میڈیا میں کہا جارہا ہے کہ تیس ستمبر کی سیاسی کشیدگی ملک کو مارشل لا کی طرف بھی لے جاسکتی ہے، رائے ونڈ کا سیاسی تماشا جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے فریقین کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہے تو تحمل مزاج وزیراعظم کو ضد سے گریزکرکے اپنے کارکنوں کو روکنا ہوگا۔ جلسہ جاتی عمرہ سے دور ہوگا جس کی حفاظت ن لیگی کارکنوں کی ذمے داری نہیں ہے، اس لیے سیاسی تماشے کو سیاسی جنگ نہ بنایاجائے۔
Load Next Story