کچھ علاج اس کا بھی …
وطن عزیزکے اطراف آج جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی سیاست کا حصہ ہے
KARACHI:
کوئی اگر خود کو عزت دار، شریف اوراعلیٰ اخلاقی اقدارکا حامل سمجھتا ہو یا واقعی وہ ایسا ہی ہو بھی تو اس کو سیاست پر تین حرف بھیج کر گوشۂ گمنامی بلکہ گوشۂ عافیت میں زندگی بھر کے لیے پناہ لینے کی فکر بلکہ عمل کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ اب تک جو صاف شفاف سیاست وہ کرچکے ہیں ایک دن ان کے گلے پڑ جائے اور جرم بن کر سامنے آئے کہ اب سے پانچ دس برس قبل آپ میدان سیاست کے شہسوار تھے پھر بھی آپ نے نہ کسی کو گالی دی نہ کسی کی سات پشتوں کے عیب گنوائے، کسی کو چور، ڈاکو، لٹیرا نہیں کہا آپ کا یہ جرم ناقابل معافی ہے، حد یہ کہ آپ اپنے مخالفین کی عزت بھی کرتے رہے اور ان سے اختلاف کو ''جمہوریت کا حسن'' قرار دیتے تھے ۔ لہٰذا آپ پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے گرفتارکیا جاتا ہے، قبل ازگرفتاری ضمانت کی سہولت بھی آپ کو نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ آپ کا جرم ناقابل ضمانت ہے۔
وطن عزیزکے اطراف آج جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی سیاست کا حصہ ہے، ہر ملک اپنے مخالف کو در پردہ یا کھلم کھلا کمزورکرنے کی کوشش کرتا ہے،اگر ان کا ایجنڈا یہی ہو تو وہ اپنی تمام سازشوں کو جائز اوربرحق سمجھتے ہیں کیوںکہ اس طرح وہ اپنے ملک کو ترقی وخوشحالی سے ہم کنارکرنا قرار دیتے ہیں۔ یعنی مخالفین کوکمزور اور غیر مستحکم کرکے خود کو طاقت ور اور اپنے مفادات کو مستحکم کرنا۔ شاید بھری دنیا میں ہم واحد قوم ہیں جو اپنی طاقت، صلاحیت، وسائل، آزادی اور خود مختاری پر ضرب لگانے پر تلے رہتے ہیں۔
اول تو شروع ہی سے ہماری سیاست کا اونٹ کسی کروٹ صحیح طرح بیٹھا ہی نہیں، جو آیا اس نے ملکی سلامتی، اتحاد اور قومی مفاد کو نہ صرف اہمیت نہ دی بلکہ نقصان ہی پہنچایا، ایک صاحب سودا کرکے ملک کو تین دریاؤں سے محروم کر گئے، دوسرے صاحب مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کی فصلیں اُگا گئے۔کسی نے صوبائی بالادستی کی خاطر دوسرے صوبوں کو احساس محرومی میں مبتلا کرکے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نظام تعلیم پر وہ ضرب کاری لگائی گئی کہ قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں جو طلبہ سیاسی، ادبی، اخلاقی اقتدار اور ملکی مفاد کا شعور رکھتے تھے۔
ان کے بعد ''اب انھیں ڈھونڈو چراغ حکمت عمل لے کر'' آج کا طالب علم سب کچھ ہے مگر پاکستانی نہیں، وہ ملک کے لیے نہیں صرف اپنے لیے سوچتا ہے، جذبۂ حب الوطنی، خدمت خلق کے تو وہ معنی و مفہوم سے بھی آگاہ نہیں (صاحبان اقتدار چاہتے بھی یہی ہیں کہ کوئی با شعور قیادت سامنے نہ آسکے) جس کے نتیجے میں آج سیاست کے معنی ڈنڈا، گنڈاسا، بلے اور انڈے (گندے) گھیراؤ، جلاؤ، چادر اور چہار دیواری کے تقدس کو پامال کرنا رہ گیا ہے۔
ایک طرف احتجاجی مظاہرے، دھرنے، بدکلامی، الزام تراشی اور دوسری جانب خود پرستی، خوش گمانی، بے حسی اور ڈھٹائی، سیاست میں صرف ایک نظریہ تو پورے ملک کا ہو نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ مخالفین بھی ہوتے ہیں۔ مگر اپنے اپنے نظریات کو عوام میں مقبول کرنے کی شائستہ کوشش کی جاتی ہے اس شائستگی کو آج دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ آج تو سر عام مخالفین کی ڈنڈوں، گھونسوں اورلاتوں سے مدارات کی جاتی ہے، گئے دنوں اسلحے کی کھلے عام نمائش معیوب سمجھی جاتی تھی آج تمام چینلز پر یہ مناظر نظر آتے ہیں کہ آمنے سامنے آکر اپنی اپنی طاقت اور اسلحے کا مظاہرہ کیا جاناہی ''سیاسی تہذیب'' قرار پایا ہے۔
اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مصدق یوں بھی عزت دار از خود جلاوطنی اختیار کرچکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ''چند ہزاروں میں زیب داستاں کے لیے وہ بھی رخت سفر باندھے چلنے پر تیار بیٹھے ہیں اس وقت تک تو ملک کا مستقبل جہلاء، ڈنڈا، گنڈاسا برداروں کے ہاتھوں میں بے حد پر تشدد نظر آرہاہے۔ ظاہر ہے جب علم کے بجائے تعصب، نفرت، حق تلفی اور تذلیل انسانیت کے درس ملیںگے تو اس کا مظاہرہ بھی اسی نوعیت کا ہوگا، وہ ممالک جن کو اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے پر فخر ہے جن کے وزیراعظم محض اس بات پر از خود مستعفی ہوجاتے ہیں کہ ان کی رائے عوام کی رائے سے مختلف ہے۔
ہم ایسے ممالک کو پسماندہ اور ایسیحکمران کو جاہل، احمق، نالائق اور بزدل سمجھتے ہیں کیوںکہ سمجھ دار، لائق اور بہادر صاحب اقتدار تو وہ ہے جو ہر طرف سے مخالفت کو برداشت کرجائے اور بڑے سے بڑے سانحے پر ٹس سے مس نہ ہو، کسی بھی بڑے سے بڑے جانی نقصان کی ذمے داری قبول نہ کرے۔ عوام کی جان ومال بلکہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھے، ان کا کسی کے مطالبے پر مستعفی ہونا تو خیر پکی پکی بزدلی ہے وہ از خود بھی ایسا کرنا اپنے لیے نہیں بلکہ بصد خلوص ملک وقوم کے حق میں انتہائی غیر مناسب سمجھتے ہیں، بلکہ ملک و قوم بالخصوص عوام کی ہمدردی میں آیندہ بھی بے حد عاجزی سے اپنی خدمات پیش کرنے پر آمادہ ہیں۔ اب ایسے حکمرانوں کے خلاف بھی عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جائے تو اس کا کوئی علاج ہے؟