امن کی تلاش
دہشت گردی کی کئی اقسام ہیں، تاہم اس میں تشدد یا تشدد کا خطرہ مشترکہ عنصر کے طور پر پایا جاتا ہے
KARACHI:
دہشت گردی کی کئی اقسام ہیں، تاہم اس میں تشدد یا تشدد کا خطرہ مشترکہ عنصر کے طور پر پایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی کے اسباب اس کے متعلق نظریات اور دہشت پسندانہ تحریکوں کے اغراض و مقاصد کی نوعیت یکساں نہیں ہوتے۔ جے پی تھارٹن کے مطابق دہشت گردی کی تعریف کچھ یوں ہے کہ''برسر اقتدار سیاسی گروہ کو اس کے تمام یا بعض سیاسی، سماجی یا معاشی نظریات تبدیل کرنے کے لیے دہشت کو بطور دباؤ استعمال کرنے کا نام دہشت گردی ہے ۔
اس میں تشدد کے استعمال کرنے کی دھمکی بھی شامل ہے اور تشدد کا واقعی استعمال بھی۔'' اسی سلسلے میں آئی بی ولف کہتا ہے کہ''دہشت گردی کا خاص مقصد غیر قانونی سرگرمیوں اورکارروائیوں کے ذریعے ایک خاص علاقے یا ملک میں رہنے والی اقلیتوں کے اعتماد کو متزلزل کرنا ہوتا ہے تاکہ زیادہ تر لوگ اپنے آقاؤں یا اپنی حکومتوں سے متنفر ہو جائیں حتیٰ کہ ان کی علیحدگی کا عمل مکمل اورناقابل تغیر ہوجائے ان کے مقاصد میں جمہوری حکومتوں کو ناقابل برداشت حد تک تنگ کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہاں تک کے ان کے مطالبات من و عن قبول کر لیے جائیں۔''
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے دہشت گردی پرگفتگو کرتے ہوئے 1977 میں کہا تھا کہ''تشدد وتباہی کا خوف پیدا کرنا ہی دہشت گردی ہے جس کا مقصد سیاسی عزائم میں کامیابی ہے خصوصاً ان حالات میں جب کہ دہشت گردی کی کارروائیاں ارباب اختیار پر اثر انداز ہونے کے لیے کی جائیں تاکہ ان کے رویے تبدیل ہوجائیں یا ارباب حکومت کی بے چینی عام افراد کی پریشانی و خوف نیز دہشت گرد تنظیم کی کامیابیاں اس مخصوص علاقے میں یا ریاست کی سرحد پارکرنے کے عالمی سطح پر ہلچل مچاسکیں۔''
عالمی سطح پر ہلچل مچانے والی بات 9/11 کے واقعے سے سمجھ میں آتی ہے۔اس واقعے نے دنیا کی سپرپاور کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ۔اس کے جواب میں پہلے امریکا نے ہزاروں میل دور آکر افغانستان میں دہشت گردی کی (7 اکتوبر 2001) اور پھر عراق پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر 20 مارچ 2003 میں حملہ کرکے اسے یک گونہ فتح کیا۔
ماہر نفسیات پروفیسر کلارک آرمیکالے نے اپنے مقالے (آن لائن) میں لکھا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی سطح پر جنگ کے پس منظر میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟
اس کی عمومی تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ''تشدد کا واقعی استعمال یا اس کی دھمکی جو ایک چھوٹا سا گروہ ایسے بڑے گروہوں کے لیے استعمال کرتا ہے جو اس سے متحارب نہیں ہوتے اس کا مقصد مخصوص سیاسی مقاصد کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔''
درج بالا تعریف جامع و بہتر نظر آتی ہے کیونکہ یہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دہشت گردی متحارب گروہوں کی کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ اس میں ایک دوسرے متحارب گروہ سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ نیز دہشت گرد گروہ ہمیشہ مختصر ہوتا ہے جو بڑے غیر متحارب گروہ یا گروہوں کے خلاف اور انھیں نقصان پہنچانے کی کارروائیاں کرتا ہے۔دہشت گردی دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ دوسری طرف دور حاضر میں دہشت گردی بہت سی نئی تبدیلیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہے یعنی اس کے مقاصد نوعیت و دائرہ عمل میں تبدیلیاں آئی ہیں۔
مواصلات کی حیرت انگیز ترقی موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے یہ پیغام رسانی اور عالمگیریت کی نئی جہتوں کے باعث بیشتر مسائل کی جڑیں قومی سرحدیں پار کرگئی ہیں۔ قدیم زمانے میں دہشت گردی کا اقدام محدود پیمانے پر انسانی ہلاکتوں رسل و رسائل یا املاک کی تباہی کا باعث بنتا تھا توآج اس کی اثر پذیری اور ہولناکی میں بے پناہ وسعت آگئی ہے۔
آج کے دہشت گرد جدید ترقی سے استفادہ کرتے ہوئے پوری تکنیکی مہارت سے اپنی مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوتے ہیں بالعموم وہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور نہایت منظم ہوتے ہیں۔ اپنی استعدادکارکو بڑھانے کے لیے وہ باقاعدہ فنی مہارت کو فروغ دیتے ہیں بروقت واردات کرنا اور پھر سرعت سے موقعے سے غائب ہوجانا ان کے لیے مشکل نہیں اپنی شناخت کو مخفی رکھنا جعلی دستاویزات مہارت سے تیارکروا لینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دوسری طرف دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی ہولناکی اور ایسے اقدام سے ہونے والی ہلاکتوں املاک کی تباہی وبربادی میں زبردست وسعت آتی ہے حتیٰ کہ بعض منظم دہشت گرد گروہوں کی پہنچ حیاتیاتی،کیمیائی اور نیوکلیائی آلات (NBC) تک ممکن ہوگئی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کے واقعات سے زندگی کے مختلف شعبے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
اس تمام صورتحال کا نہایت گہرائی و باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں دنیا کا اہم ترین مسئلہ دہشت گردی ہی ہے اور دنیا کی امن و سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ ہی دہشت گردی سے ہے۔
اس وقت کی دنیا کی امن و سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے ہے لہٰذا اس کے سدباب کے لیے سب کو مل جل کر اقدامات اٹھانے ہوں گے اور اس کی روک تھام کے لیے منظم و سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ بصورت دیگر دہشت گردی فروغ پائے گی اور ایک دن وہ آسکتا ہے جب ساری دنیا شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتی ہے اور یہ دنیا کی امن و سلامتی کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔
دہشت گردی کو نہایت احتیاط سے چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی لوگوں کو اگر کسی تخریبی کارروائی میں ملوث پائے تو انھیں ملک چھوڑنے کا فوری حکم دے اگر وہ ایسا نہ کریں تو طاقت کے ذریعے انھیں ایسا کرنے پر مجبورکیا جائے۔حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک میں آئے ہوئے مہاجرین کو ان کے کیمپوں میں محصور رکھے اور انھیں ہر طرح کی مکمل آزادی نہ دے تاکہ وہ ملک میں آرام سے رہیں اور کسی طرح کی گڑبڑ پیدا نہ کریں۔
حکومت کا ایک اہم فرض یہ بھی ہے کہ وہ غیرقانونی وناجائز ہتھیار، اسلحہ، پیسہ دوسرے ملکوں سے اپنے ملک میں نہ آنے دے کیونکہ اس قسم کے عناصر بھی ملک میں گڑ بڑ پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں اور دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے اقدامات کی روک تھام کرے اور غیرقانونی درآمد کو روکنے کے لیے سخت واعلیٰ اقدامات کرے۔
حکومت کے پاس پوشیدہ سروس ہو تاکہ وہ ہر قسم کے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتی رہے اور اس سلسلے میں حکومت کو آگاہ کرتی رہے تاکہ حکومت ان کے خلاف کوئی موثر اور ٹھوس قدم اٹھا سکے۔
حکومت کو پولیس فوج رینجرز اور دیگر رضاکارانہ تنظیموں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بھی اعلیٰ عمدہ سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم کا بروقت قلع قمع کیا جاسکے۔
ذرایع ابلاغ کے ذریعے بھی دہشت گردی کی موثر انداز میں بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت سے تعاون کریں اور اس کی سرکوبی کے لیے حکومت کو مفید و کارآمد مشورے دیں تاکہ وہ بہتر انداز میں دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے اقدامات کرسکے۔
اس طرح عوامی و حکومتی سطح پر تعاون کے ذریعے ہی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔