نواب نبی بخش خان بھٹو
پاکستان بننے سے پہلے بھی لاڑکانہ کی بھٹو فیملی میں بڑے نامور سیاستدان اور اچھے انسان گزرچکے ہیں
پاکستان بننے سے پہلے بھی لاڑکانہ کی بھٹو فیملی میں بڑے نامور سیاستدان اور اچھے انسان گزرچکے ہیں ، ان میں سر شاہنواز بھٹو اور نواب نبی بخش خان بھٹو شامل ہیں۔ بھٹو فیملی شروع ہی سے نواب رہی ہے اور ان کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی اور انسان دوست خدمات ہیں۔ بھٹو فیملی کے لیے یہ مشہور تھا کہ ان کے پاس جب کوئی مہمان آتا تھا تو وہ انھیں سونے کے برتن میں کھلاتے تھے اورمہمان کے ہاتھ خود دھلواتے تھے۔ لاڑکانہ شہر میں بزنس زیادہ ترہندو کرتے تھے اور ان کے لیے اپنے مذہبی تہواروں کے علاوہ ایک اور دن عید کا ہوتا تھا وہ تھا جب بھٹو خاندان کی عورتیں، بچے اور مرد لاڑکانہ شہر آکر خریداری کرتے تھے جو اس وقت بھی کئی لاکھ کی شاپنگ ہوتی تھی۔
بھٹو خاندان کا ایک بڑا گاؤں میرپور بھٹو تھا، جہاں پر پاکستان بننے سے پہلے بھی ایک ایسی شخصیت تھی جس کی سخاوت کی دھوم نہ صرف سندھ میں بلکہ پورے ہندوستان میں تھی۔ ان کا نام تھا نواب نبی بخش خان بھٹو جو ممتازعلی بھٹوکے والد ہیں۔ بھٹو فیملی جو شاید پنجاب سے آکر لاڑکانہ میں کئی صدیاں پہلے آباد ہوئے تھے، ان کے فیملی سربراہ محمد خان بھٹو تھے۔
نبی بخش بھٹوکے والد الٰہی بخش خان بھٹو تھے۔ نبی بخش خان بڑے دین دار تھے، نماز باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے، رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھتے اوردین اسلام کی خدمت کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہادیتے تھے۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ اسلامی لوگ اسلام کی خدمت کے جذبے سے ان سے ملنے آئے اورکچھ رقم کے لیے کہا جس سے وہ دینی مدرسہ بنانا چاہتے ہیں یا پھراسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ 1200 روپے بطورعطیہ میں دیے جو اس وقت کے حساب سے کئی لاکھ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ انھیں کہا کہ وہ ان سے ہر ماہ ایک سو لیا کریں۔انھوں نے میرپور بھٹو میں ایک بڑا مدرسہ بنوایا جہاں پر نہ صرف گاؤں کے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے تھے مگر دوردراز سے بھی لوگ آتے تھے جن کے رہنے اورکھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا، عالم علامہ قاسمی کو تنخواہ پر استاد رکھا جنھیں ہر سہولت فراہم کی ۔
نواب صاحب 1905 میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سخی، مہمان نواز اور باوقار آدمی تھے ،غریبوں کے ساتھ پیارکرتے تھے ، عوام کی ہر دل عزیز شخصیت تھے اور انھوں نے سیاست میں کبھی بھی شکست نہیں کھائی اورجب بھی کوئی الیکشن لڑا۔اس میں ہمیشہ جیت ان کی ہوئی اور انھوں نے کسی سیاسی پارٹی کا پلیٹ فارم نہیں استعمال کیا اور بطورآزاد امیدوار الیکشن لڑے اور جیتے۔ سیاسی کیریئرکی ابتدا ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ سے کی۔ جب سر شاہنواز بھٹو سینٹرل لوکل سیلف گورنمنٹ بمبئی میں وزیر بنے تو انھوں نے نبی بخش بھٹوکو اپنے صدارتی منصب کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے لیے منتخب کروایا جس منصب پر 1934 سے 1945 تک رہے ، بہترین منتظم تھے اور انھوں نے اپنے دور میں لوگوں کی بڑی خدمت کی۔ ان کی شخصیت جاذب نظر تھی،کوئی بھی ان سے اگر ایک بار ملتا تھا توگرویدہ ہوجاتا تھا۔
جب سندھ بمبئی پریزیڈنسی سے الگ ہوا اور اسے صوبے کا درجہ واپس مل گیا تو سندھ کے پہلے گورنر سر لانسلیٹ گرہم نے 1936 میں لاڑکانہ کا وزٹ کیا تو نواب صاحب نے بحیثیت صدر ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ تقریرکرتے ہوئے لوکل بورڈ اور ضلع لاڑکانہ کے مسائل کے بارے میں بتایا۔ نواب صاحب کو انگریزی بولنے اورلکھنے پر عبور حاصل تھا۔اس کے علاوہ جب قائداعظم محمد علی جناح 18-10-1938 میں لاڑکانہ کے دورے پر آئے تو نواب صاحب انھیں کھلی موٹر کار میں بٹھا کر ایک بڑے جلوس کی صورت میں اپنے بنگلے پر لے آئے۔ قائداعظم نے وہاں پر قیام کیا جس کے لیے نواب صاحب نے ایک بڑی ضیافت کا انتظام کیا ، اس میں لاڑکانہ کی اہم ترین شخصیات نے شرکت کی۔ اس وقت نواب صاحب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔
پاکستان بنانے کے لیے سندھ میں بڑا اہم کردار ادا کیا لیکن وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سیاسی طور پر Neutral رہے۔ وہ بمبئی لیجسلیٹوکونسل ممبربھی رہے یہ عرصہ 1929 سے 1932 تک تھا۔اس کے علاوہ سینٹر لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کے ممبر 1933 سے 1943 تک رہے۔ جب پاکستان بنا تو سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور باقی زندگی انسانیت، دین اسلام اورغریبوں کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔
جب تک وہ سیاست میں تھے اس کی سچائی، کردار کی اچھائی اور مضبوطی عوام سے محبت کی وجہ سے کئی سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں ان کی حمایت کی۔ وہ جب بھی کسی اجلاس میں جاتے تو انھوں نے نہ کبھی تنخواہ لی اور نہ کبھی ٹی اے ڈی اے لیا، وہ اپنا خرچہ خود کرتے تھے ۔ اپنے کاموں میں وہ کسی بھی سرکاری دباؤ کو برداشت نہیں کرتے تھے، انصاف کرنا ان کی عادت میں شمار تھا کسی بھی شخص کے لیے کوئی ناجائز سفارش نہیں لی۔ اپنی وفاداریاں کبھی بھی نہیں بدلیں اور اپنے عہدے کا ذاتی اور ناجائز کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان کا عمل یہ تھا کہ لوگوں کے لیے بھلائی کے کام کرنا علاقوں میں بلا امتیاز ترقیاتی کام کروانا ۔
جب وہ ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کا الیکشن لڑ رہے تھے توان کے مقابلے میں محمد ایوب کھوڑو تھے جنھیں نواب صاحب نے شکست دے کر یہ منصب حاصل کرلیا۔اس کے علاوہ 1933 میں سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کے الیکشن میں انھوں نے حصہ لیا تو وہ پورے سندھ کے لیے constitutionaryکے طور پر استعمال ہوتی تھی اور اس میں صرف وہ لوگ ووٹ دے سکتے تھے جو سالانہ 75 روپے ٹیکس ادا کرتے ہوں یا پھر جو سالانہ ڈھل یعنیrevenue tax ادا کرنے والا ہو۔ جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو یا پھر ووٹر ہو اسے یہ رسید دکھانی ہوتی تھی۔
اب اس سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کی سندھ کے لیے دو سیٹیں تھیں جس میں ایک پر نواب صاحب کامیاب ہوگئے اور دوسرے سر عبداللہ ہارون جب کہ سندھ کی اہم شخصیت عبدالمجید سندھی ہارگئے جو اس وقت کی اہم سندھی اخبار الوحیدکے ایڈیٹر بھی تھے۔ یہ اخبار اکیلا مسلمانوں کی سندھ میں آواز تھا۔اب ان دو نشستوں پر جو سندھ میں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں ، دونوں کامیاب ہوگئے جس کی وجہ سے نواب صاحب کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ اس انتخاب کی campaign پورے چار مہینے چلتی رہی جس میں سرشاہنواز بھٹو کی سندھ پیپلزپارٹی نے بڑی سپورٹ کی۔ 1946 میں سندھ لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخاب میں بھی انھوں نے رتودیرو، میروخان constitutionaryسے کامیابی حاصل کی اوران کے مخالف جیسے قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو حمایت کے باوجود بھی جیت نہ سکے۔ اس کامیابی نے نواب صاحب کو ہندوستان کے اخبارات نے اپنی سرخیوں کی زینت بنایا اور پورا ہندوستان ان کی شخصیت اور سیاسی بصیرت اور شعور سے باخبر ہوگیا۔
انھوں نے جب انڈین ایڈوائزری کمیٹی اورسینٹرل ایڈوائزری کونسل کی ممبر شپ کے لیے انتخاب میں حصہ لیا تو اسے مختلف سیاسی جماعتوں نے مدد کی جس میں حکومتی پارٹی کے علاوہ، مسلم لیگ، کانگریس جس کے مشہور لیڈران میں مولانا شوکت علی جوہر، سرعبداللہ ہارون، سر غلام حسین ہدایت اللہ، سر شاہنواز بھٹو، لال چند نول رائے وغیرہ شامل تھے۔ ان انتخابات میں کل آٹھ نشستیں تھیں جن میں نواب صاحب نے دوسرا نمبرحاصل کیا تھا جو ایک بہت بڑی بات تھی۔
ان کے پاس اس وقت ہزاروں ایکڑ زمین تھی، ان کی آمدنی دس لاکھ سے اوپر تھی۔ اس کے علاوہ دوسری جائیداد میں بڑی حویلیاں، مدرسے، اوطاقیں، شہر لاڑکانہ میں بنگلہ ، باغات، دفاتر، مسافر خانے، جانوروں اور پرندوں کے لیے بڑے بڑے چڑیا گھر۔ انھیں اچھی نسل کے گھوڑے، کتے اور پرندے پالنے کا بڑا شوق تھا اور زیادہ تر جانور اور پرندے وہ یورپ سے لاتے تھے یا پھر منگواتے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر روزصبح سے شام تک آنے والے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے فقیروں کو خیرات کے ساتھ کھانا دیتے تھے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ایک دن کے لیے بند نہیں ہوا۔ بہت سارے غریب مفلس اور نادار خاندان تو ہمیشہ وہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہوتے تھے لیکن انھیں کبھی بھی منع نہیں کیا گیا۔
نواب صاحب نے تین شادیاں کی تھیں، ان شادیوں کے نتیجے میں اور بچوں کے علاوہ ممتاز علی بھٹو بھی پیدا ہوئے جنھوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں سیاست کی شروعات کی اورایک اہم سیاستدان کے طور پرخود کو منوایا۔ وہ بڑے پڑھے لکھے اور باشعور سیاستدان ہیں اور ان کے فیصلے بڑے مدبرانہ رہے ہیں۔
نواب صاحب 12 جنوری 2002 کو اس جہان فانی سے چلے گئے اور اپنے پیچھے اپنے اچھے سیاسی، سماجی، علمی اور دینی کارنامے چھوڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہمارے پاکستان کو اورخاص طور پر سندھ کو ایسے انسانوں کی سخت ضرورت ہے۔
بھٹو خاندان کا ایک بڑا گاؤں میرپور بھٹو تھا، جہاں پر پاکستان بننے سے پہلے بھی ایک ایسی شخصیت تھی جس کی سخاوت کی دھوم نہ صرف سندھ میں بلکہ پورے ہندوستان میں تھی۔ ان کا نام تھا نواب نبی بخش خان بھٹو جو ممتازعلی بھٹوکے والد ہیں۔ بھٹو فیملی جو شاید پنجاب سے آکر لاڑکانہ میں کئی صدیاں پہلے آباد ہوئے تھے، ان کے فیملی سربراہ محمد خان بھٹو تھے۔
نبی بخش بھٹوکے والد الٰہی بخش خان بھٹو تھے۔ نبی بخش خان بڑے دین دار تھے، نماز باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے، رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھتے اوردین اسلام کی خدمت کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہادیتے تھے۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ اسلامی لوگ اسلام کی خدمت کے جذبے سے ان سے ملنے آئے اورکچھ رقم کے لیے کہا جس سے وہ دینی مدرسہ بنانا چاہتے ہیں یا پھراسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ 1200 روپے بطورعطیہ میں دیے جو اس وقت کے حساب سے کئی لاکھ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ انھیں کہا کہ وہ ان سے ہر ماہ ایک سو لیا کریں۔انھوں نے میرپور بھٹو میں ایک بڑا مدرسہ بنوایا جہاں پر نہ صرف گاؤں کے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے تھے مگر دوردراز سے بھی لوگ آتے تھے جن کے رہنے اورکھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا، عالم علامہ قاسمی کو تنخواہ پر استاد رکھا جنھیں ہر سہولت فراہم کی ۔
نواب صاحب 1905 میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سخی، مہمان نواز اور باوقار آدمی تھے ،غریبوں کے ساتھ پیارکرتے تھے ، عوام کی ہر دل عزیز شخصیت تھے اور انھوں نے سیاست میں کبھی بھی شکست نہیں کھائی اورجب بھی کوئی الیکشن لڑا۔اس میں ہمیشہ جیت ان کی ہوئی اور انھوں نے کسی سیاسی پارٹی کا پلیٹ فارم نہیں استعمال کیا اور بطورآزاد امیدوار الیکشن لڑے اور جیتے۔ سیاسی کیریئرکی ابتدا ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ سے کی۔ جب سر شاہنواز بھٹو سینٹرل لوکل سیلف گورنمنٹ بمبئی میں وزیر بنے تو انھوں نے نبی بخش بھٹوکو اپنے صدارتی منصب کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے لیے منتخب کروایا جس منصب پر 1934 سے 1945 تک رہے ، بہترین منتظم تھے اور انھوں نے اپنے دور میں لوگوں کی بڑی خدمت کی۔ ان کی شخصیت جاذب نظر تھی،کوئی بھی ان سے اگر ایک بار ملتا تھا توگرویدہ ہوجاتا تھا۔
جب سندھ بمبئی پریزیڈنسی سے الگ ہوا اور اسے صوبے کا درجہ واپس مل گیا تو سندھ کے پہلے گورنر سر لانسلیٹ گرہم نے 1936 میں لاڑکانہ کا وزٹ کیا تو نواب صاحب نے بحیثیت صدر ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ تقریرکرتے ہوئے لوکل بورڈ اور ضلع لاڑکانہ کے مسائل کے بارے میں بتایا۔ نواب صاحب کو انگریزی بولنے اورلکھنے پر عبور حاصل تھا۔اس کے علاوہ جب قائداعظم محمد علی جناح 18-10-1938 میں لاڑکانہ کے دورے پر آئے تو نواب صاحب انھیں کھلی موٹر کار میں بٹھا کر ایک بڑے جلوس کی صورت میں اپنے بنگلے پر لے آئے۔ قائداعظم نے وہاں پر قیام کیا جس کے لیے نواب صاحب نے ایک بڑی ضیافت کا انتظام کیا ، اس میں لاڑکانہ کی اہم ترین شخصیات نے شرکت کی۔ اس وقت نواب صاحب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔
پاکستان بنانے کے لیے سندھ میں بڑا اہم کردار ادا کیا لیکن وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سیاسی طور پر Neutral رہے۔ وہ بمبئی لیجسلیٹوکونسل ممبربھی رہے یہ عرصہ 1929 سے 1932 تک تھا۔اس کے علاوہ سینٹر لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کے ممبر 1933 سے 1943 تک رہے۔ جب پاکستان بنا تو سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور باقی زندگی انسانیت، دین اسلام اورغریبوں کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔
جب تک وہ سیاست میں تھے اس کی سچائی، کردار کی اچھائی اور مضبوطی عوام سے محبت کی وجہ سے کئی سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں ان کی حمایت کی۔ وہ جب بھی کسی اجلاس میں جاتے تو انھوں نے نہ کبھی تنخواہ لی اور نہ کبھی ٹی اے ڈی اے لیا، وہ اپنا خرچہ خود کرتے تھے ۔ اپنے کاموں میں وہ کسی بھی سرکاری دباؤ کو برداشت نہیں کرتے تھے، انصاف کرنا ان کی عادت میں شمار تھا کسی بھی شخص کے لیے کوئی ناجائز سفارش نہیں لی۔ اپنی وفاداریاں کبھی بھی نہیں بدلیں اور اپنے عہدے کا ذاتی اور ناجائز کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان کا عمل یہ تھا کہ لوگوں کے لیے بھلائی کے کام کرنا علاقوں میں بلا امتیاز ترقیاتی کام کروانا ۔
جب وہ ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کا الیکشن لڑ رہے تھے توان کے مقابلے میں محمد ایوب کھوڑو تھے جنھیں نواب صاحب نے شکست دے کر یہ منصب حاصل کرلیا۔اس کے علاوہ 1933 میں سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کے الیکشن میں انھوں نے حصہ لیا تو وہ پورے سندھ کے لیے constitutionaryکے طور پر استعمال ہوتی تھی اور اس میں صرف وہ لوگ ووٹ دے سکتے تھے جو سالانہ 75 روپے ٹیکس ادا کرتے ہوں یا پھر جو سالانہ ڈھل یعنیrevenue tax ادا کرنے والا ہو۔ جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو یا پھر ووٹر ہو اسے یہ رسید دکھانی ہوتی تھی۔
اب اس سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی آف انڈیا کی سندھ کے لیے دو سیٹیں تھیں جس میں ایک پر نواب صاحب کامیاب ہوگئے اور دوسرے سر عبداللہ ہارون جب کہ سندھ کی اہم شخصیت عبدالمجید سندھی ہارگئے جو اس وقت کی اہم سندھی اخبار الوحیدکے ایڈیٹر بھی تھے۔ یہ اخبار اکیلا مسلمانوں کی سندھ میں آواز تھا۔اب ان دو نشستوں پر جو سندھ میں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں ، دونوں کامیاب ہوگئے جس کی وجہ سے نواب صاحب کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ اس انتخاب کی campaign پورے چار مہینے چلتی رہی جس میں سرشاہنواز بھٹو کی سندھ پیپلزپارٹی نے بڑی سپورٹ کی۔ 1946 میں سندھ لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخاب میں بھی انھوں نے رتودیرو، میروخان constitutionaryسے کامیابی حاصل کی اوران کے مخالف جیسے قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو حمایت کے باوجود بھی جیت نہ سکے۔ اس کامیابی نے نواب صاحب کو ہندوستان کے اخبارات نے اپنی سرخیوں کی زینت بنایا اور پورا ہندوستان ان کی شخصیت اور سیاسی بصیرت اور شعور سے باخبر ہوگیا۔
انھوں نے جب انڈین ایڈوائزری کمیٹی اورسینٹرل ایڈوائزری کونسل کی ممبر شپ کے لیے انتخاب میں حصہ لیا تو اسے مختلف سیاسی جماعتوں نے مدد کی جس میں حکومتی پارٹی کے علاوہ، مسلم لیگ، کانگریس جس کے مشہور لیڈران میں مولانا شوکت علی جوہر، سرعبداللہ ہارون، سر غلام حسین ہدایت اللہ، سر شاہنواز بھٹو، لال چند نول رائے وغیرہ شامل تھے۔ ان انتخابات میں کل آٹھ نشستیں تھیں جن میں نواب صاحب نے دوسرا نمبرحاصل کیا تھا جو ایک بہت بڑی بات تھی۔
ان کے پاس اس وقت ہزاروں ایکڑ زمین تھی، ان کی آمدنی دس لاکھ سے اوپر تھی۔ اس کے علاوہ دوسری جائیداد میں بڑی حویلیاں، مدرسے، اوطاقیں، شہر لاڑکانہ میں بنگلہ ، باغات، دفاتر، مسافر خانے، جانوروں اور پرندوں کے لیے بڑے بڑے چڑیا گھر۔ انھیں اچھی نسل کے گھوڑے، کتے اور پرندے پالنے کا بڑا شوق تھا اور زیادہ تر جانور اور پرندے وہ یورپ سے لاتے تھے یا پھر منگواتے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر روزصبح سے شام تک آنے والے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے فقیروں کو خیرات کے ساتھ کھانا دیتے تھے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ایک دن کے لیے بند نہیں ہوا۔ بہت سارے غریب مفلس اور نادار خاندان تو ہمیشہ وہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہوتے تھے لیکن انھیں کبھی بھی منع نہیں کیا گیا۔
نواب صاحب نے تین شادیاں کی تھیں، ان شادیوں کے نتیجے میں اور بچوں کے علاوہ ممتاز علی بھٹو بھی پیدا ہوئے جنھوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں سیاست کی شروعات کی اورایک اہم سیاستدان کے طور پرخود کو منوایا۔ وہ بڑے پڑھے لکھے اور باشعور سیاستدان ہیں اور ان کے فیصلے بڑے مدبرانہ رہے ہیں۔
نواب صاحب 12 جنوری 2002 کو اس جہان فانی سے چلے گئے اور اپنے پیچھے اپنے اچھے سیاسی، سماجی، علمی اور دینی کارنامے چھوڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہمارے پاکستان کو اورخاص طور پر سندھ کو ایسے انسانوں کی سخت ضرورت ہے۔