ناکامیوں کی آندھی‘ دھونی کی کپتانی کا دیا ٹمٹمانے لگا

شکست کے بعد بھارتی قائد نے اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیارسلیکٹرز کو سونپ دیا


Sports Desk December 10, 2012
دھونی نے کہا کہ اس وقت میرے لیے سب سے آسان کام کپتانی چھوڑ کر ٹیم میں عام کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلنا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی / فائل

ناکامیوں کی آندھی میں دھونی کی کپتانی کا دیا ٹمٹمانے لگا، بھارتی قائد نے اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار سلیکٹرز کو سونپ دیا، ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے سب سے آسان قیادت سے مستعفی ہونا ہے مگر میں ذمہ داری سے نہیں بھاگوں گا۔

ہماری ناکامی میں ڈنکن فلیچر کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق انگلینڈ کے ہاتھوں اپنے ہی ہوم گرائونڈز پر پے درپے دو ناکامیوں کی وجہ سے مہندرا سنگھ دھونی کی کپتانی خطرے میں پڑگئی ہے، خود انھوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا مگر وہ ازخود قیادت سے الگ ہونے کو بزدلی تصور کرتے ہیں۔ تیسرے ٹیسٹ میں شکست کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک کپتان ہونے کے ناطے میرے لیے یہ صورتحال ایک چیلنج ہے، جب آپ اچھا پرفارم کررہے ہوتے ہیں اس وقت ٹیم کی کپتانی کرنا ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے مگر آپ کو حقیقی معنوں میں لیڈر کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب ٹیم اچھا پرفام نہ کررہی ہو، ٹیم کو متحد کرنا، نوجوانوں اور سینئرز کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کو درست سمت میں لے جانا ہی کسی قائد کا اصل کام ہوتا ہے۔

3

دھونی نے کہا کہ اس وقت میرے لیے سب سے آسان کام کپتانی چھوڑ کر ٹیم میں عام کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلنا ہے لیکن یہ ذمہ داری سے منہ موڑنے والی بات ہوگی، کپتانی کے فیصلے کا اختیار بی سی سی آئی اور دوسرے انتظامی آفیشلز کے ہاتھ میں ہے میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں ٹیم کو متحد کروں اور اگلے ٹیسٹ میچ کی تیاری کروں۔ کوچ ڈنکن فلیچر کے بارے میں پوچھے گئے سوالات پر دھونی نے کہا کہ انھیں ہماری بیٹنگ تکنیک کے بارے میں اچھا خاصا علم ہوچکا، وہ ہماری درست سمت میں رہنمائی کررہے ہیں ۔

کوچ کے بارے میں سوال اٹھانا درست نہیں، ہم نے ان کی رہنمائی میں ٹیسٹ سیریز بھی جیتیں اور ون ڈے میں بھی اچھا پرفارم کیا، ہم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار انھیں قرار نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوئی بہانہ بناسکتے ہیں کیونکہ آخر میں فیلڈ میں پرفارم گیارہ لڑکوں نے کرنا ہوتا ہے ہمیں بیٹنگ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ان ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں