چین سے خریدے گئے پاور فل ریلوے انجن لا علمی سے ناکارہ ہو گئے
میکینکل ڈپارٹمنٹ کے اہل افراد کے بجائےمنظور نظر افراد کوتربیت کیلیے چین بھیجا گیا جو 4 لاکھ سفری الائونس کما کر آگئے.
محکمہ ریلوے کے لیے2002 میں چائنا سے خریدے جانے والے لوکو موٹیو (انجن ) انتہائی پاور فل ہیں اس کی تکنیک کے بارے میں لاعلمی کے باعث50 فیصد انجن ناکارہ ہو چکے ہیں ۔
پاکستان سے تربیت کے لیے جن لوگوں کو چین جانا چاہیے تھا ان کی جگہ منظور نظر افسران کو بھیج دیا گیا جو مفت میں گھوم پھر کر3 سے4 لاکھ روپے سفری الاؤنس کما کر واپس آگئے، محکمہ ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 570 لوکو موٹیو ( انجن ) ہیں جس میں سے80 فیصد ناکارہ ہوچکے ہیں جبکہ20 فیصد انجنوں کو بھی مرمت کر کے چلایا جا رہا ہے،ریلوے ٹیکنیکل ادارہ ہے اس میں چیئر مین کے عہدے پر بیورو کریٹ کے بجائے پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے، ریلوے کی ایک لاکھ 54 ہزار ایکڑ اراضی کو قابضین سے خالی کراکر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت پلازہ اور ہوٹل بنائے جائیں تو ریلوے اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا، ان خیالات کا اظہار ورکرز یونین کے رہنما اور ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ کے افسر راؤ نسیم نے ایکسپریس سے گفتگو میں کیا۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ ریلوے نے2002 میں چائنا سے70 لوکو موٹیو ( انجن ) خریدے تھے جس میں سے آدھے انجن خراب ہو چکے اور 35 سے36 انجن چل رہے اور انہی انجنوں کی وجہ سے ریلوے بھی چل رہی ہے ، چائنا سے خریدے جانے والے انجن انتہائی طاقتور ہیں یہ بات ریلوے ورکرز یونین کے رہنما اور میکینکل ڈپارٹمنٹ کے افسر راؤ نسیم نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی انھوں نے بتایا کہ جب چین سے انجن خریدے جارہے تھے تو اس وقت تربیت کیلیے منظور نظر ریلوے کے افسران کو بھیجا گیا۔
جنھوں نے ٹریولنگ الاؤنس کی مد میں 3 سے4 لاکھ روپے کما ئے،ریلوے کے راشی اور نااہل افسران نے انجنوں کی خرابی کا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ چین سے خریدے جانے والے انجن پاور فل نہیں ہیں،اس بات کو لیکر مختلف ٹی وی چینلز نے خوب شور مچایا لیکن کسی نے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی،جبکہ حقیقت یہ ہے اس وقت ریلوے چین کے ان ہی انجنوں سے چل رہی ہے،اگر مکینکل ڈپارٹمنٹ کے اہل انجینئرز اور ڈرائیوروں کو تربیت کے لیے بھیج دیا گیا ہوتا تو وہ 70 انجن آج بھی رواں دواں ہوتے،اب بھی چین سے ان انجنوں کے مکینک اور پارٹس منگوا لیے جائیں تو ناکارہ انجن کار آمد بنائے جا سکتے ہیں،کراچی ڈویژن میں مکینکل ڈپارٹمنٹ میں فرحان اعوان ، ابراہیم میمن اور ذوالفقار شیخ سمیت5 انجنیئر موجود ہیں،ذوالفقار شیخ کا تو دفتر بھی کینٹ اسٹیشن کے قریب لوکو شیڈ میں ہے تاہم ان انجنیئروں نے آج تک نہ کسی انجن کو دیکھا اور نہ ہی کسی انجن کو ہاتھ لگایا۔
پاکستان سے تربیت کے لیے جن لوگوں کو چین جانا چاہیے تھا ان کی جگہ منظور نظر افسران کو بھیج دیا گیا جو مفت میں گھوم پھر کر3 سے4 لاکھ روپے سفری الاؤنس کما کر واپس آگئے، محکمہ ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 570 لوکو موٹیو ( انجن ) ہیں جس میں سے80 فیصد ناکارہ ہوچکے ہیں جبکہ20 فیصد انجنوں کو بھی مرمت کر کے چلایا جا رہا ہے،ریلوے ٹیکنیکل ادارہ ہے اس میں چیئر مین کے عہدے پر بیورو کریٹ کے بجائے پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے، ریلوے کی ایک لاکھ 54 ہزار ایکڑ اراضی کو قابضین سے خالی کراکر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت پلازہ اور ہوٹل بنائے جائیں تو ریلوے اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا، ان خیالات کا اظہار ورکرز یونین کے رہنما اور ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ کے افسر راؤ نسیم نے ایکسپریس سے گفتگو میں کیا۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ ریلوے نے2002 میں چائنا سے70 لوکو موٹیو ( انجن ) خریدے تھے جس میں سے آدھے انجن خراب ہو چکے اور 35 سے36 انجن چل رہے اور انہی انجنوں کی وجہ سے ریلوے بھی چل رہی ہے ، چائنا سے خریدے جانے والے انجن انتہائی طاقتور ہیں یہ بات ریلوے ورکرز یونین کے رہنما اور میکینکل ڈپارٹمنٹ کے افسر راؤ نسیم نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی انھوں نے بتایا کہ جب چین سے انجن خریدے جارہے تھے تو اس وقت تربیت کیلیے منظور نظر ریلوے کے افسران کو بھیجا گیا۔
جنھوں نے ٹریولنگ الاؤنس کی مد میں 3 سے4 لاکھ روپے کما ئے،ریلوے کے راشی اور نااہل افسران نے انجنوں کی خرابی کا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ چین سے خریدے جانے والے انجن پاور فل نہیں ہیں،اس بات کو لیکر مختلف ٹی وی چینلز نے خوب شور مچایا لیکن کسی نے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی،جبکہ حقیقت یہ ہے اس وقت ریلوے چین کے ان ہی انجنوں سے چل رہی ہے،اگر مکینکل ڈپارٹمنٹ کے اہل انجینئرز اور ڈرائیوروں کو تربیت کے لیے بھیج دیا گیا ہوتا تو وہ 70 انجن آج بھی رواں دواں ہوتے،اب بھی چین سے ان انجنوں کے مکینک اور پارٹس منگوا لیے جائیں تو ناکارہ انجن کار آمد بنائے جا سکتے ہیں،کراچی ڈویژن میں مکینکل ڈپارٹمنٹ میں فرحان اعوان ، ابراہیم میمن اور ذوالفقار شیخ سمیت5 انجنیئر موجود ہیں،ذوالفقار شیخ کا تو دفتر بھی کینٹ اسٹیشن کے قریب لوکو شیڈ میں ہے تاہم ان انجنیئروں نے آج تک نہ کسی انجن کو دیکھا اور نہ ہی کسی انجن کو ہاتھ لگایا۔