اگر عبداللہ جمالدینی ملک اسحاق ہوتے

اس ملک میں جن کا فوج ، میڈیا، سیاست یا مذہب کے علاوہ کسی بھی شعبے سے تعلق ہے تسلی بخش بڑے آدمی نہیں ہو سکتے

میں چھ روز انتظار کرتا رہا کہ مین اسٹریم قومی میڈیا میں اس سے آگے بھی کچھ پڑھ سکوں کہ ممتاز بلوچ ادیب،شاعر اور محقق عبداللہ جان جمالدینی چورانوے برس کی عمر میں کوئٹہ میں انتقال کر گئے۔ صدرِ مملکت ممنون حسین اور وزیرِ اعلی ثنا اللہ زہری نے ان کی وفات کو بلوچی ادب کے لیے ایک نقصانِ عظیم قرار دیا ہے۔

مگر میں انتظار ہی کرتا رہا کہ اگر عبداللہ جمالدینی اتنے ہی بڑے آدمی تھے کہ ان کی وفات ایک ادبی نقصانِ عظیم ہے تو وہ یاان کا علمی کام یا ادبی خدمات اردو یا انگریزی میڈیا میں اجاگر کرنے کے لیے ان کی وفات کی بنیادی خبر کے علاوہ پچھلے چھ روز میں کوئی مضمون، کوئی اداریہ یا کوئی بڑی فیچر رپورٹ نہ سہی تو کوئی چھوٹی موٹی خصوصی ٹائپ تحریر ہی کسی اخبار یا چینل پر دیکھنا نصیب ہو جاتی۔

مگر مشکل یہ ہے کہ جن کے نام سے سرکاری تعزیت جاری ہوئی انھیں بھی شائد جمالدینی صاحب کے وجود کا اسی دن پتہ چلا ہو جس دن ان اعلی عہدیداروں کے کان میں ان کے پی اے نے ہلکے سے پھونکا ہو کہ سر مسٹر جمالدینی ایک بڑے آدمی تھے۔ ان کے لیے آپ کے نام سے تعزیت جاری ہونے سے بلوچستان پر خوشگوار اثر پڑے گا۔

قومی (یعنی اردو کرنٹ افئیرز) چینلوں کا معاملہ یوں ہے کہ بلوچستان سے آنے والی ہر خبر کو وہاں ایسے دیکھا جاتا ہے گویا گرم آلو ہو، پکڑ لیا تو ہتھیلی جل جائے گی۔ جن خبری لونڈوں کو یہی نہیں معلوم کہ مہمند ایجنسی میں خود کش حملے میں اٹھائیس افراد کی شہادت کی ہیڈ لائن زیادہ اہم ہے یا ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار کی معطلی کی خبر زیادہ اہم۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بتانے کے باوجود جمالدینی صاحب کی کم از کم پٹی ہی چلا دیتے ایسا ہی ہے جیسے بقول اسد محمد خان انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند۔

اس ملک میں ایسے تمام بڑے آدمی جن کا فوج ، میڈیا، سیاست یا مذہب کے علاوہ کسی بھی شعبے سے تعلق ہے تسلی بخش بڑے آدمی نہیں ہو سکتے۔ جن کا اردو یا انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں لکھنا، اٹھنا بیٹھنا ہے ہو سکتا ہے وہ بڑے آدمی ہوں مگر ہم جیسے مین اسٹریم وفاقی صحافیوں اور دانشوروں کے نزدیک وہ محض اعزازی و رسمی و مروتاً ہی بڑے آدمی ہوں گے۔ ذرا سوچیے اگر احمد فراز کا نام غنی خان ہوتا، انتظار حسین ابراہیم جویو ہوتے، پروین شاکر نسرین انجم بھٹی ہوتیں تو فراز، انتظار اور پروین کو کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں بسنے والے کتنے اوتھ کمشنر نقاد، دانش باز یا ادبئیے گھاس ڈالتے؟

عبداللہ جان جمالدینی سے اس وقت شائد ہر کس و ناکس واقف ہوتا اگر وہ رانا ثنا اللہ ہوتے، یا اسلام آباد کو پانچ گھنٹے تک ایک کلاشنکوف پر یرغمال بنانے والے ملک سکندر ہوتے، مبشر لقمان ہوتے، حسن نثار اوریا مقبول جان ہوتے، حمید گل ہوتے، ملک ریاض ہوتے، طاہر القادری ہوتے یا کم ازکم وہی ہوتے جس کے سر پے پانچ لاکھ روپے کا انعام ہوتا ہے۔


اب آپ جب ستائش و صلے کی دوڑ میں بھاگنے کے بجائے یا اپنے فن یا کام سے سماجی و سیاسی سطح پر تھرتھلیاں ڈال دینے کے بجائے خاموشی سے تصنیف و تالیف و تحقیق میں ہی پوری زندگی ضایع کر دیں گے اور وہ بھی کسی ایسی زبان میں جسے سرپرستانہ لہجے میں علاقائی زبان کہا جاتا ہے تو پھر آپ کو کون جانے گا، آپ عظیم کیسے کہلائیں گے۔

عبداللہ جان جمالدینی بابائے بلوچی کہلاتے ہیں (جیسے اردو زبان میں مولوی عبدالحق)۔ آپ آٹھ مئی انیس سو بائیس کو نوشکی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اسکولی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی۔ گریجویشن اسلامیہ کالج پشاور سے کیا۔ انیس سو تریپن میں نائب تحصیلداری پر لعنت بھیجی اور بلوچی لٹریچر کے بناؤ سنوار سنگھار میں دائمی جی لگا لیا ۔زندگی کا بیشتر حصہ کراچی، کوئٹہ اور نوشکی کی تکون میں گزارا۔ پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن میں بھی سرگرم رہے، نیشنل عوامی پارٹی سے بھی قربت رہی۔

کراچی سے متک کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ بعد ازاں نوائے وطن، بلوچی اور سنگت نام کے جو بلوچی ادبی رسالے نکلے ان کے پیچھے محرکانہ روح جمالدینی صاحب کی ہی تھی۔ اور یہ سب فیض ہے عبداللہ جان جمالدینی کے سب سے یادگار کام یعنی بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی زبان کے لسانیاتی شعبے کی بنیاد ڈالنا۔ یہ ایسا بیج تھا جو آج ایک درخت ہے۔ ویسا درخت جس کا پودا ایک بوڑھا لگارہا تھا تو پاس کھڑے بچے نے پوچھا بابا تمہیں یہ پودا لگا کے کیا فائدہ؟ جب تک یہ پھل دینے کے قابل ہوگا تم تو نہیں رہو گے۔ بوڑھے نے کہا تم تو رہو گے۔ تم کھانااور پھر ایسا ہی ایک اور درخت لگا کے جانا...

جمالدینی صاحب پیرانہ سالی کے باوجود پنیری لگانے سے باز نہ آئے۔ انیس سو ترانوے سے ارغون روڈ کوئٹہ کے ایک گھر میں بلوچستان فرائڈے پارٹی کے نام سے ہفتہ وار ادبی کچہری شروع ہو گئی۔ اس میں کوئٹہ، خاران، مکران، کراچی جانے کہاں کہاں سے لوگ سوغات سمجھ کے آتے۔ جس کو جو کہنا سنانا ہوتا بلا تکلف سناتا اور جمالدینی صاحب بلا تکلف سنتے۔ جب انیس سو اٹھانوے میں نواز شریف نے جمعے کی چھٹی اتوار میں کھسکا دی تو بلوچستان فرائیڈے پارٹی بھی بلوچستان سنڈے پارٹی بن گئی۔ (بلوچستان میں شائد یہ واحد پارٹی تھی جسے کبھی زیرِ زمین نہیں جانا پڑا اور جسے کسی نے کالعدم کرنے، توڑنے یا ضم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ اب آزمائش یہ ہے کہ جمالدینی صاحب کے بعد بلوچستان سنڈے پارٹی کے لات خانے کا کیا مستقبل ہے؟)۔

عبداللہ جان جمالدینی کے کام اور شخصیت کے بارے میں وفاقی سطح پر پذیرائی کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد نے ''پاکستانی ادب کے معمار'' کے نام سے ہر سرکردہ اردو یا علاقائی ادیب و شاعر پر ایک مختصر کتاب شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیاہے۔اس میں ایک کتاب جمالدینی صاحب پر بھی ہے۔

انیس ستمبر دو ہزار سولہ کو جمالدینی صاحب نے چوہتر برس چار ماہ کی عمر میں آنکھیں موند لیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
Load Next Story