کمانڈ کی موثر یکجہتی

بھارت پاکستان کے خلاف کارروائی کے ارادے باندھ رہا ہے


اکرام سہگل September 24, 2016

بھارت پاکستان کے خلاف کارروائی کے ارادے باندھ رہا ہے اس حوالے سے یہ مقولہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ ''مستقبل کی جنگ کے لیے یہ ضروری نہیں ہو گا کہ اس کا باقاعدہ طور پر اعلان کیا جائے بلکہ اسے جارحیت اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے پروان چڑھایا جائے گا۔

آج کی جنگی حکمت عملی میں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بے قاعدہ تزویری حربے بھی استعمال میں لائے جائیں گے جن کے ذریعے ملک کی نظریاتی اساس کو نشانہ بنا کر چانکیہ کوٹلیہ کی تاریخی کتاب ارتھ شاشتر سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مدمقابل مسلح افواج پر میڈیا میں پراکسی کے ذریعے کیچر اچھال کر عسکری قیادت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

اس مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ذرایع استعمال کیے جائیں گے جس میں جارح ملک اطلاعاتی جنگ کی ٹیکنیک سے کام لے گا۔ بھارت کی اس جنگی حکمت عملی میں شہروں میں تشدد پھیلانا اور سائبر جنگ کا استعمال کرنا شامل ہو گا جس کے لیے نہ صرف ریاستی بلکہ غیر ریاستی ''ایکٹرز'' کا بھی استعمال ہو گا۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً کھیلوں میں اور بزنس میں زک پہنچانے کی کارروائیاں بھی شامل ہونگی تاکہ ملک کے شہریوں میں سخت بے چینی پھیل جائے اور عقابی صفات رکھنے والوں کو عملی کارروائی پر ابھارا جائے گا اور ان کو شہ دی جائے گی کہ وہ اپنے حربی اصولوں کو بروئے کار لائیں۔

مودی کے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوول جو یقینی طور پر ''اسٹیٹ ایکٹر'' ہے' وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہے اور جعلی دہشتگردی کے ذریعے جس طرح کہ پٹھانکوٹ میں کیا گیا جب کہ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر جہاں کشمیر کی حفاظت کے لیے بھیجے گئے ڈوگرہ رجمنٹ کے سکھ فوجی موجود تھے جو واپسی کی تیاری کر رہے تھے اور زینب مارکیٹ پر حملے کا منصوبہ اس لیے ناکام ہوا کیونکہ رینجرز بروقت موقع پر نہ پہنچ سکے جس کی ''را'' نے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

اڑی میں کرائی جانیوالی قتل و غارت کا مقصد یہ تھا کہ عالمی رائے عامہ کو اشتعال دلایا جائے۔ بھارت سی پیک کے منصوبے سے بہت زیادہ حواس باختہ ہو چکا ہے اور عالمی سطح پر اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے، پاکستان پر سرحد پار سے کارروائیوں کا الزام لگاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک دہشتگرد ریاست قرار دلوایا جا سکے۔ گلگت اور سکردو میں ''کولڈ اسٹارٹ'' کی تبدیل شدہ شکل کو استعمال کر کیا جائے گا کیونکہ سی پیک نے ادھر ہی سے گزرنا ہے جب کہ وزیراعظم مودی کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کھلی کھلی جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ہماری فوجی قیادت ایک تضاد کی تصحیح کے بجائے آسودہ خاطری کا شکار محسوس ہوتی ہے۔ آرمی چیف مسلح افواج کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ یہ ذمے داری اصل میں چیئرمین جے سی ایس سی کی ہے۔ سابقہ چیئرمین جے سی ایس سی جنرل طارق مجید سے سوال کیا گیا کہ ان کی سرگرمیاں کیا ہیں جو کہ اس وجہ سے کبیدہ خاطر تھے کہ انھیں آرمی چیف نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے بجائے جنرل کیانی کو یہ منصب تفویض کر دیا گیا جو ان سے جونیئر تھے۔ اس ''اسٹیٹس کو'' کی دوستی ہونی چاہیے۔ جنگ کا دباؤ اسقدر شدید ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت کچھ تہ و بالا ہو جاتا ہے۔

میری تجویز ہے کہ جوہری جنگ کے لیے تمام فورسز کو مجتمع کر کے ایک نئی سروس کی تشکیل کی جائے جس کا نام ''اسٹرٹیجک فورسز'' ہو۔ اس کی کمان ایک چار ستاروں والے جنرل کو سونپی جائے ان فورسز کی تعداد پی اے ایف اور نیوی سے بھی زیادہ ہو اسی طرح اسپیشل پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کو اپ گریڈ کر کے ہتھیاروں اور دیگر آلات حرب کے معیار کا دقت نظر سے جائزہ لینے کے بعد کہ ان میں چھوٹے ہتھیار' گاڑیاں اور جنگ کے دوران استعمال کیے جانے والے لباس وغیرہ دیگر سروسز کے افسر کو مستقل بنیادوں پر اس نئی فورس میں ٹرانسفر کیا جائے۔

ایک اور ناقص عمل جے سی ایس سی کے چیئرمین کو باری باری تینوں سروسز سے لینے کا ہے۔ آخر نیٹو کا سی این سی یا امریکا کی سینٹرل اور افریقی کمانڈ کے لیے یا آرمی یا میرین کور کے جنرل اور بحرالکاہل کا کمانڈر ہمیشہ بحریہ کے ایڈمرل کو کیوں بنایا جاتا ہے؟ میدان جنگ میں زمینی حقائق کو بڑی احتیاط سے مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجموعی کمان ایسی شخصیت کے ماتحت ہونی چاہیے جس کو چاروں سروسز میں شامل فورسز قبول کریں۔ ڈپٹی چیئرمین جو خواہ ایئرفورس سے ہو یا نیوی سے جو کہ ادل بدل کر آتے ہیں وہ جے سی ایس سی کے سیکریٹریٹ میں ہونیوالے اجلاسوں کی صدارت کر سکتا ہے۔

متحدہ کمان کی سربراہی مکمل طور پر میرٹ پر سونپی جانی چاہیے جو کہ بے حد اہم ہے۔ اور اس مقصد کے لیے صرف ایسی شخصیت ہی موزوں قرار پا سکے گی جس کی بالغ نظری اور اخلاقی اتھارٹی کو بین الاقوامی توقیر حاصل ہو۔ زمینی حقائق کے مطابق حتمی فیصلہ کرنے کا وقت گزشتہ روز گزر گیا۔ جنرل راحیل شریف کسی صورت میں اپنے منصب کی مدت میں توسیع نہیں چاہتے اور وہ ایسا کہنے میں مکمل حق بجانب ہیں کیونکہ ان کے سامنے منصب کی توسیع لینے والے تین جرنیلوں کی مثال موجود ہے جن میں ضیاء' مشرف اور کیانی شامل ہیں۔آیا کیا یہ تینوں ناگزیر تھے؟

ان تینوں نے منصب میں توسیع لی اور انھوں نے ہی مسائل پیدا کیے۔ کیانی کے معاملے میں مال و دولت کے انبار لگائے گئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت بھی اصولی طور پر توسیع دینے کے حق میں نہیں لیکن آخر فیلڈ مارشل کی ''چھڑی'' جنرل راحیل پر ہی کیوں لہرائی جا رہی ہے؟ اگر موجودہ سی این سی کو توسیع دی گئی یا فیلڈ مارشل کا رینک دیا گیا تو اس سے آرمی اور پبلک دونوں میں منفی ردعمل پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے۔

چیئرمین جے سی ایس سی لازمی طور پر جی ایچ کیو میں بیٹھے جو اس کی اصل جگہ ہے اور بریگیڈ رینک کے فوجی افسروں اور انھی کے ہم منصب فضائیہ اور بحریہ کے افسروں کے تقرر و تبادلے کا اختیار استعمال کرے نیز کور کمانڈروں کے ساتھ چاروں سروسز کی کانفرنسیں منعقد کرے۔ وزارت دفاع میں پروسیجر کی تبدیلی کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

آخر نیٹو میں سی ایس سی اور کمانڈروں کا کیا حساب کتاب ہے اس سے ہی کوئی نکتہ سیکھ لینا چاہیے ویسے ایسی قومیں جو اپنی ٹیکنالوجی میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں جن کی صناعی مخیر العقول کرنے کو کافی ہے انھوں نے اپنا حساب کتاب کافی سیدھا رکھا ہوا ہے۔ بل پیچ تو تب دیے جاتے ہیں جب اصل مقصد کو چھپانا منظور ہو۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ''یونی فائیڈ کمانڈ'' کے لیے اس کے چیف کا تقرر خالصتاً میرٹ پر اور نہایت ہمواری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ راحیل شریف کا توسیع نہ چاہنا قابل فہم ہے اور بالکل درست ہے۔

سی او اے سی کے منصب فیصلہ کے لیے مدمقابل چاروں جرنیل بلاشبہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اشخاص ہیں۔ ایک سی او اے سی آرمی کی سربراہی کرے دوسرا اسٹرٹیجک فورسز کی رہنمائی کرے۔ اب شام' عراق' یمن اور لیبیا ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے مرحلے میں ہیں جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ داعش عروج پر آئیں گے۔ دوسری طرف بھارت جنگی موسیقی کے نتیجے میں جنگ کے بارودی بادل گھن گرج کے ساتھ افق پر چھائے دکھتے ہیں۔ موجودہ کارروائیاں جو کی جا رہی ہیں ان پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو بصیرت افروز بھی ہو۔ جنرل راحیل شریف ہی چیئرمین جے سی ایس سی کے منصب عالیہ کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں