پاکستان کی حفاظت کون کرے گا
ملک میں سیاسی درجہ حرات کافی گرم ہے
AMRITSAR:
یادش بخیر 1990کا ذکر ہے کہ جب ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری عروج پر تھی اور اسی برس ہدایت کارحسنین نے ایک فلم تخلیق کی تھی اس فلم کا نام تھا ''لیڈر'' ۔ ہدایت کار حسنین کی اس فلم میں مرکزی کردار اداکیا تھا اس وقت کے سپراسٹاراداکار نذیر بیگ المعروف ندیم نے جب کہ دیگر اداکاروں میں اظہارقاضی البیلا و پنجاب اسمبلی کی خاتون رکن محترمہ کنول شامل تھے۔ جیسے کہ نام سے ظاہر ہے کہ فلم کا موضوع سیاست تھا۔اس فلم کا ایک مرکزی کردار ندیم ایک مکالمہ بولتے ہیں، وہ مکالمہ ہم ذیل کی سطور میں قلم بندکریںگے۔
البتہ مناسب ہوگا کہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال پر تھوڑی گفتگوکرلیں توکیفیت یہ ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرات کافی گرم ہے اوراس کا باعث ہے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رائے ونڈ کی جانب مارچ اور وہاں ایک جلسہ عام کا انعقاد،اس رائے ونڈ کی جانب مارچ اوروہاں ایک جلسہ عام کا انعقاد کا تذکرہ ہم طویل عرصہ ہوا سنتے آرہے ہیں اور بالآخر اتوار 18 ستمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ اعلان کردیا کہ 30 ستمبرکو رائے ونڈ کی جانب مارچ کریںگے اورایک جلسہ عام کا انعقاد کریںگے۔
عام حالات میں یہ ایک نارمل سی کیفیت ہے کیونکہ جمہوری دور حکومت میں جلسے جلوس اوراحتجاج وغیرہ ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ عوام کا جمہوری حق ہے اوراس حق سے عوام کو محروم کرنا غیر جمہوری اقدام ہے مگر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رائے ونڈ کی جانب مارچ اور وہاں جلسہ عام منعقد کرنے کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ رائے ونڈ میں میاں محمد نواز شریف کا گھر ہے۔
البتہ وزیراعظم اپنے ذاتی محل یعنی جاتی امرا میں بہت کم قیام کرتے ہیں کیونکہ وزارت عظمیٰ کا بھاری بوجھ پاکستانی قوم نے ان کے نازک کاندھوں پر ڈال رکھا ہے، جس کے باعث وزیراعظم کو اپنا زیادہ وقت اسلام آباد، لندن ونیویارک وغیرہ میں گزارنا پڑتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ وزیراعظم نے وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے،اسی باعث ان کو بار بار بیرون ممالک کا سفراختیارکرنا پڑتا ہے۔
بہرکیف جب سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رائے ونڈکی جانب مارچ اوروہاں ایک جلسہ عام کا عندیہ دیا جارہا ہے تو چند مسلم لیگی رہنما اس خدشے کا اظہارکررہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف والے ضرور اپنے رہنما عمران خان کی قیادت میں وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ پر حملہ آور ہوںگے۔ اول تو ایسا ہونا ہی نا ممکن ہے کیوںکہ ان کے گھر کے چاروں جانب ایک مضبوط ترین حصار ایک فصیل کی شکل میں موجود ہے ۔ دوئم یہ کہ یہ سیاسی بیان بھی ہو سکتا ہے، چنانچہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے کارکن پرتشدد کارروائیوں سے دور رہیں۔
شاید ان لوگوں کو اندیشہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان حملہ آور ہوںگے۔ 17 جون 2016 کو پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری کے گھر ومدرسے پر حملے ہوئے۔ جب کہ 15 اگست 2016 کو گوجرانوالہ میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے کنٹینر پر حملہ ہوا جو بدنظمی کا باعث بنا ۔جب کہ کوئی دو ڈھائی ماہ قبل لندن میں مقیم مسلم لیگی کپتان کی سابقہ اہلیہ کے گھرکے باہر احتجاج کرنے جا پہنچے تھے جب کہ کوئی ہفتہ، عشرہ قبل کا ذکر ہے کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی پر حملہ ہوا اوراسمبلی میں مسلم لیگی پارٹی پرچم لہرا دیے گئے۔
بہرکیف کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگی کارکنان کے مسلح جتھے تیارکیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بھی میدان عمل میں آنے کو بے چین ہیں اور خود کو ''بلا'' فورس کا نام دے رہے ہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ دونوں جانب کی فورسز میں خواتین بھی شریک ہیں۔ اگر یہ مسلح تصادم ہوتا ہے تو اس خون ریزی کا ذمے دارکون ہوگا؟ موجودہ مسلم لیگی حکومت یا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران احمد خان ۔
اس تحریرکے آغاز میں، میں نے ایک پاکستانی فلم ''لیڈر''کا تذکرہ کیا تھا، چنانچہ فلم لیڈرکے ایک سین میں ہوتا یہ ہے کہ ایک کردار اظہار قاضی فلم کے مرکزی کردار ندیم پر حملہ آورہوتا ہے اورناکامی سے دوچارہوجاتا ہے۔ البتہ لوگوں کا جم غفیر اظہارقاضی پر یکایک حملہ آور ہوجاتا ہے۔
اس موقعے پر اداکار ندیم مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''اسے مت مارو، اگر اسی طرح ہمارے جوانوں کا خون سڑکوں وگلیوں میں بہتا رہا توکل وقت آنے پر پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا؟'' چنانچہ یہی سوال مسلم لیگی و پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے مسلح تصادم کے خطرات کے پیش نظر میرے ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگر ہمارے نوجوان ان نام نہاد سیاست دانوں کی حصول اقتدارکی خواہش کی خاطر اپنا اور اپنے ہم وطنوں کا لہو سڑکوں اورگلیوں میں بہاتے رہے توکل وقت آنے پر ہماری ملکی سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا؟ یوں بھی جب جب وقت پڑا ہے ان سیاست دانوں نے اپنا مسکن لندن، امریکا، پیرس، دبئی وسعودی عرب کو بنایا ہے۔ خراب سے خراب حالات کا سامنا تو پاکستان کے عوام نے کیا ہے۔ اب بھی اگر جمہوریت کوکوئی گزند پہنچی تو ان سیاست دانوں کی باہمی چپقلش کے باعث تو پھر بھی آمریت کی سختیاں تو عوام ہی جھیلیںگے نہ کہ راہ فرار اختیارکرنے والے سیاست دان۔