پھرضایع ہوئی اوجھڑیوں کی دولت
گلی گلی، محلے محلے اوجھڑیوں کے ڈھیر کے ڈھیر چھوڑ کر کر بقر عید چلی گئی
KARACHI:
گلی گلی، محلے محلے، گائے بکرے لے کر بقر عید آئی اور گلی گلی، محلے محلے اوجھڑیوں کے ڈھیر کے ڈھیر چھوڑ کر کر بقر عید چلی گئی۔ لے دے کے لشتم پشتم ہم نے بالاخر اوجھڑیوں کے یہ پہاڑ کے پہاڑ ٹھکانے لگاہی دیے۔ ہم اپنے اس کارنامے پہ جتنا نازکریں کم ہے۔ بلکہ سچ پوچھیے تو قطعاً کوئی مضائقہ نہیں گر ہم دعویٰ کر بیٹھیں کہ ایشیا میں اوجھڑیاں ٹھکانے لگانے والا ہم سے بڑا کوئی نہیں۔ مگر جناب حقیقت تو یہ ہے کہ ایک بار پھر ہم نے ہاتھ آئی اوجھڑیوں کی دولت ضایع ہی کردی۔
اس جدید دنیا میں کچھ بھی تو بیکار نہیں یہاں تک کہ کوڑا کرکٹ تک۔ ذرا سوئیڈن والوں سے پوچھیے کہ جنھیں کوڑا آس پاس کے ملکوں سے خریدنا پڑتا ہے لیکن ہم سوئیڈن سے پہلے روانڈا کی بات کرلیتے ہیں۔ روانڈا افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں 1994 کے نسلی فسادات کے دوران 7 اپریل سے 15جولائی تک تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیاگیا، جن میں زیادہ پرتتسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ ہوتو قبیلے کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل عام کی وسعت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ ملک کی تقریباً 20 فیصد آبادی قتل کردی گئی۔
قصہ مختصر یہ کہ پرتتسی قبیلے کی مسلح ملیشیا RPF یعنیRWANDAN PATRIOTIC FRONT نے ہوتو قبیلے کے فسادیوں کے خلاف جنگ میں فتح پائی اور 18 جولائی 1994 تک تقریباً پورے ملک پہ قبضہ کرلیا جس کے بعد قومی یکجہتی کی وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ سن 1996 کے آخر سے قتل عام میں ملوث لوگوں کے عدالتی ٹرائل کا آغاز ہوا جس کے ساتھ ہی روانڈا کی حکومت کو ایک عجیب مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ قتل عام میں ہزاروں لوگ ملوث تھے لہٰذا روانڈا کے جیلوں میں نہ صرف گنجائش سے کہیں زیادہ مکین آگئے بلکہ سیوریج کا شدید مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان عمارتوں میں پیدا ہونے والے اس قدر زیادہ انسانی فضلے کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔
روانڈا کے حکام نے اس مسئلے کا ایک تخلیقی و فائدہ مند حل نکالا اور اس بے تحاشا انسانی فضلے کو توانائی کی پیداوار میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ 2013ء تک روانڈا کی 13میں سے 10 جیلوں میں پیدا ہونے والے انسانی فضلے سے بائیو گیس پیدا کی جانا شروع ہوگئی تھی۔ یہ ایک ایسی کامیاب اسٹرٹیجی تھی کہ جس نے نہ صرف اتنے زیادہ فضلے کو ٹھکانے لگانے کا بہترین اور مستقل حل نکالا بلکہ توانائی کی پیداوار سے جنگل کی لکڑی کے استعمال میں کمی کے ساتھ ساتھ مالی اخراجات میں بھی کمی اور قدرتی ماحول کے تحفظ میں اضافہ ہوا۔انسانی فضلے سے نہ صرف چین اور بھارت میں بھی توانائی پیدا کی جارہی ہے بلکہ امریکا کے بوسٹن جیسے شہر میں بھی یہ عمل کامیابی سے جاری ہے۔
پاکستان خصوصاً شہروں میں نہ صرف انسانی وحیوانی ویسٹ بلکہ روز پیدا ہونے والے کوڑے کو ٹھکانے لگانا ایک بظاہر ناممکن کام بن گیا ہے۔ پاکستان میں ہر روزکوئی 50 ہزار میٹرک ٹن میونسپل سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے جس میں سے کچھ ہی ری سائیکل ہوپاتا ہے اور وہ بھی اکثر غیر محفوظ اور غیر معیاری طریقوں سے مثلاً اسپتالوں اور E-EASTE سے بھی عام روزمرہ استعمال کی چیزیں مثلاً دودھ، دہی اور کھانے پینے کی چیزوں کے لیے پلاسٹک کی تھیلیاں جنھیں ہم جہالت بھری محبت سے ''شاپر'' کہتے ہیں بن جاتی ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ ہمارے شہروں میں نت نئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
ادھر صنعتی فضلہ بھی زیادہ تر ٹریٹ نہیں ہوتا۔ یہ میونسپل اور صنعتی ویسٹ ہماری زمینوں، نہروں، دریاؤں، جھیلوں اور سمندر کے ساتھ ساتھ ہماری فضا کو بھی زہر آلود کررہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم، ہمارا حکمراں طبقہ، ہمارا میڈیا سب ہی سیاست کے رسیا ہیں۔ اس سیاست نے اس ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ باقی ماندہ ملک کو مسائل، کرپشن اور لسانی تعصبات کا جہنم بنادیا مگر ہمارا دل سیاست سے بھرتا ہی نہیں۔ ہم کسی مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں ہیں۔
یہ بڑھتا کوڑا، انسانی وحیوانی فضلہ ہمارے ماحول، صحت، معیشت اور انفرا اسٹرکچر کا خطرناک ترین دشمن ہے مگر نہ حکمرانوں نہ اس قوم کو کوئی پرواہ ہے۔ سب سیاست و کرپشن میں مگن ہیں۔ پوری دنیا میں Wte یعنی WASTE TO ENERGY کے توانائی پلانٹ بڑی تعداد میں لگائے جارہے ہیں۔ 2013ء تک صرف یورپ میں ہی 420 پلانٹس کوڑے سے توانائی پیدا کرکے 2کروڑ صارفین کو فراہم کررہے تھے۔ پاکستان میں کچرے بشمول انسانی وحیوانی فضلے کی حقیقتاً بے حساب پیداوار ہے جس سے توانائی یعنی بجلی اورگیس کی بڑی مقدار پیدا ہوسکتی ہے۔
بہت سی دوسری خوبیوں کے علاوہ یہ قوم کوڑا پیدا کرنے میں بھی ماہر ہے چنانچہ ضرورت ہے کہ پورے ملک میں جنگی بنیادوں پر Wteپلانٹس لگائے جائیں۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کوئی خاص خرچہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ صرف ملک میں ایک انقلابی Wte پالیسی کا اعلان کریں جس میں ملک بھر میں موجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی زمین کرائے، لیز یا فروخت کے ذریعے Wte سرمایہ داروں کو فراہم کی جائے۔ Wte کی متعلقہ مشینری وغیرہ کی درآمد پر کم سے کم ڈیوٹیز وغیرہ عائد کی جائیں۔
Wteپلانٹس کے لیے ایک مناسب ٹیرف طے کیا جائے اور ہر پلانٹ سے اس کی متعلقہ بجلی کی کمپنی کو بجلی خریدنی لازمی ہو جب کہ Wte پلانٹس سے مین ٹرانسمیشن لائنز تک بجلی پہنچانے کے لیے اخراجات متعلقہ حکومت، Wte پلانٹس اور متعلقہ (مقامی) بجلی کی کمپنیاں شراکت داری میں برداشت کریں۔ Wte پلانٹس مقامی میونسپل اداروں کے ساتھ مل کر اپنے متعلقہ شہروں سے کچرا جمع کرنے کا ایک جامع اور بہترین نظام بناسکتے ہیں۔ ملک بھر میں قائم کنٹونمنٹس اور ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے سیوریج نظام کے ذریعے سے روزانہ کی بنیاد پر Wte پلانٹس کو بڑی مقدار میں انسانی فضلہ فراہم کرسکتی ہیں جس سے کمرشل، صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے گیس پیدا کی جاسکتی ہے۔
اس وقت ملک میں Wte کے پراجیکٹس میں پاکستان کے واحد اہم شہر لاہور میں لاہور ویسٹ منجمنٹ کمپنی (LWMC) کے 1500سے 2000یومیہ کے پراجیکٹس اور کے الیکٹرک کا تباہ حال کراچی کی بھینس کالونی میں تقریباً 30 میگا واٹ کا Wte بائیو گیس پاور پراجیکٹ قابل ذکر ہیں۔ Wte پالیسی کے ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ صرف جدید ترین اور ماحول دوست مشینری اور ٹیکنالوجی کی اجازت دی جائے تاکہ Wte کا صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔
کچرے اور انسانی و حیوانی فضلے سے توانائی کے ملک بھر میں نیٹ ورک سے شہروں میں صفائی اور لوگوں کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ بلکہ قدرتی ماحول بھی بہتر ہوگا اور توانائی کے مسائل بھی کم ہوسکیں گے تو کیا ملک میں Wte انقلاب آسکے گا؟ مشکل ہے یہ کالم بھی نہ تو حکمراں پڑھیں گے کہ نہ اس میں حکمرانوں کی خوشامد یا برائی ہے نہ سیاست۔ کھانے پینے اوڑھے پہننے والے عوام۔ ہمیں گندگی سے پیار ہے اور اس کی صفائی سے نہیں۔