اُڑی حملہ کشمیریوں پرڈھائے مظالم کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے وزیراعظم نوازشریف

ہندوستان کو کوئی بھی الزام لگانے سے پہلے اپنے کردار پر ضرور نظر ڈالنا چاہیے، وزیراعظم نوازشریف

ہندوستان کو کوئی بھی الزام لگانے سے پہلے اپنے کردار پر ضرور نظر ڈالنا چاہیے، وزیراعظم نوازشریف، فوٹو؛ فائل

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ اُڑی حملہ کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے جب کہ حملے کے فوراً بعد ہی ہندوستان نے پاکستان پرالزام لگادیا لہٰذا وہ کشمیر میں 108 شہادتوں کی تحقیقات کرائیں۔

وزیراعظم نوازشریف امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد لندن پہنچ گئے جہان لندن ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز نے نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھایا، 108 کشمیری شہید اور متعدد نابینا و زخمی ہوئے، یہ بات کیوں نہیں کی جاتی کہ اتنا ظلم ڈھایا گیا ہے اس کا منطقی نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی سیکٹر پر حملہ ہوا جس میں ہندوستانی فوجی مارے گئے، یہ حملہ کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اُڑی حملے کے 12 گھنٹوں بعد ہی ہندوستان نے پر الزام دھر دیا جو مناسب نہیں، ادھر واقعہ ہو ادھر الزام دھر دینا، سمجھدار ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتے، پہلے حملے کی تحقیقات کرائیں جب کہ کشمیر میں ہونے والی 108 شہادتوں کی بھی تحقیقات کرائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو بے گناہ شہید ہوئے اس سے کیا ان کے دل زخموں سے چور نہیں، کیا ان کے عزیزوں کےدلوں میں اس بات کا غم و غصہ نہیں، ہندوستان کو کوئی بھی الزام لگانے سے پہلے اپنے کردار پر ضرور نظر ڈالنا چاہیے۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کشمیر سے متعلق ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، ہم کشمیر کا ذکرپہلے بھی کرتے رہے ہیں اور اقوام متحدہ میں تقریر کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس میں جتنی باتیں کی جاسکتی تھیں کی گئی ہیں، وہاں دنیا بیٹھی ہوئی تھی سب نے ان باتوں کو سنا اور سب کے ذہنوں میں یہ بات رجسٹرڈ ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی طرف سے بلوچستان کا ایک دم شوشہ چھوڑا گیا جسے کوئی نہیں مانتا، امریکا نے بھی اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پر تواتر سے بات کرتے ہیں، جب بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بات ہوتی ہے تو پاکستان کی سب سے پہلے ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بات کریں گے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر خطے میں دائمی امن قائم کرنا مشکل ہے۔

وزیراعظم نے آزاد کشمیر کے حوالے سے کہا کہ وہاں کا ترقیاتی بجٹ بڑھا رہے ہیں وہاں ایسے منصوبے ہیں جس کے لیے وفاقی حکومت ان کی بھرپور مدد کرے گی، وہاں سب سے زیادہ توجہ کے لائق انفرااسٹرکچر ہے، وہاں جو سڑکیں ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ان کو بحال کرنا اور نئی سڑکیں بنانا ہیں، وہاں اسپتال بہت فاصلوں پر ہیں، لوگ مشکلات سے اپنے بیماروں کو اسپتالوں تک لاتے ہیں جس سے کئی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں، آزاد کشمیر میں چپے چپے پر طبی سہولیات ہونی چاہئیں، وہاں لڑکیوں کے اسکولوں کی طرف توجہ دیں گے، وہاں یونیورسٹیز بنائیں گے، یہ کام ہمارے ایجنڈے میں ہے، آئندہ کچھ ہفتوں میں مظفر آباد جاؤں گا جہاں سالانہ پروگرام کے اوپر بحث کرکے حتمی شکل دیں گے۔


تحریک انصاف کے رائے ونڈ مارچ سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے ملک کے لیے دوڑ بھاگ کررہے ہیں ہمیں ان چیزوں کی طرف توجہ دینے کے لیے فرصت نہیں، یہ وہ دن ہیں جب پوری قوم کو ایک ہوکر اس محاذ پر کھڑے ہوکر ملک و ملت کے لیے کام کرنا چاہیے، یہ وہ وقت نہیں جسے کسی اور کے لیے ضائع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کے تمام کارکنان کو پارٹی کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ کسی دھرنے کے راستے میں نہ آئیں اور کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کریں، ہمارے کارکن پارٹی قیادت کی ہدایت پر 100 فیصد عمل کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے سی پیک سے متعلق سوال پر کہا کہ اللہ سی پیک کو نظر بد سے بچائے، بلوچستان سی پیک منصوبوں کا ایک مرکز ہے جو ملک کے خلاف ناپاک عزائم رکھنے والوں کو کھٹکتا ہے، ایسے لوگوں کو بلوچستان کی ترقی بھی کھٹکتی ہے، وہاں سڑکوں کا جال بچھ رہاہے، گوادر فعال ایئرپورٹ بن رہا ہے، بجلی اور پینے کے پانی کے منصوبے بن رہے ہیں، یونیورسٹیز بن رہی ہیں، اس طرح کے ترقیاتی منصوبے ماضی میں کبھی بلوچستان میں نہیں لگے اور نہ کسی حکومت نے اس بارے میں سوچا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا گوادر کو خنجراب کے ساتھ ملانے کا ایجنڈا ہے اور بلوچستان کو سینٹرل ایشیا سے ملائیں گے، یہ منصوبے پاکستان کے خلاف عزائم رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہوتے۔

وزیراعظم نوازشریف نے آصف زرداری سے ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تبادلہ خیال ہوتے رہنا چاہیے، ہم اچھی جمہوری روایات کے علمبردار ہیں، آصف زرداری عزت کے ساتھ رخصت ہوئے، ان کی حکومت میں ہم نے کوئی ایسی کوشش نہیں کی کہ حکومت کو عدم استحکام پہنچائیں۔

وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

Load Next Story