کرسپر انسان جان دارانواع کی جینیات بدل دینے پرقادر

انقلابی ٹیکنالوجی کے استعمال پر سائنس داں مخمصے کا شکار


ندیم سبحان میو September 25, 2016
انقلابی ٹیکنالوجی کے استعمال پر سائنس داں مخمصے کا شکار ۔ فوٹو : فائل

انتھونی جیمز کے دفتر میں داخل ہوتے ہی اس کے ذریعۂ معاش کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ دیواروں پر جا بہ جا مچھروں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ انھی حشرات سے متعلق متعدد کتابیں بھی شیلفوں میں قرینے سے رکھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی میز سے ملحقہ دیوار پر ایک بینر موجود ہے جس پر ایک خاص نسل کے مچھر کی نشوونما کے تمام مراحل بڑے بڑے رنگین تصویری خاکوں کی صورت میں اس طرح نمایاں کیے گئے ہیں کہ انھیں دیکھ کر جراسک پارک کے پرستار بھی ایک لمحے کے لیے خوف زدہ ہوجائیں گے۔ مچھر کی یہ نسل Aedes aegypti کہلاتی ہے۔ انتھونی، کیلے فورنیا یونی ورسٹی سے بہ طور ماہر مالیکیولی جینیات وابستہ ہے۔ تیس برسوں سے وہ اس مخلوق کے عشق میں مبتلا ہے جسے دوسرے انسان خود سے دور رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔

یوں تو دنیا میں ان حشرات کی ساڑھے تین ہزار سے زاید اقسام پائی جاتی ہیں مگر جیمز کی توجہ کا مرکز صرف چند اقسام ہیں جنھیں کرۂ ارض کی خطرناک ترین مخلوقات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں Anopheles gambiae بھی شامل ہے جس سے تعلق رکھنے والے مچھر ملیریا پھیلاکر ہر سال لاکھوں انسانوں کو سفر آخرت پر روانہ کردیتے ہیں۔ تاہم اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ عرصہ جیمز کی توجہ ایڈیز پر مرکوز رہی ہے۔

تاریخ دانوں کے مطابق جدید دنیا (براعظم شمالی و جنوبی امریکا) میں مچھر کی اس نسل کی آمد سترھویں صدی عیسوی میں ہوئی جب افریقی غلاموں سے بھرے بحری جہاز اس خطے کی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے لگے تھے۔ یہ غلام اپنے ساتھ زرد بخار کی وبا بھی لے کر آئے جس نے آنے والے برسوں کے دوران لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ آج ایڈیز نسل کے مچھر ڈینگی بخار کے ساتھ ساتھ ، جس سے دنیا بھر میں سالانہ چالیس کروڑ انسان متأثر ہوتے ہیں، Chikungunya اورWest Nile virus جیسے انفیکشن اور زیکا کے جراثیم بھی پھیلا رہے ہیں۔ گذشتہ برس برازیل میں پُھوٹ پڑنے والی زیکا کی وبا مختلف دماغی امراض بشمول مائیکروسیفولی کے پھیلاؤ کا سبب بنتی نظر آرہی ہے جس سے متأثرہ حاملہ عورتیں چھوٹے سَر والے بچوں کو جنم دیتی ہیں جن کی دماغی نشوونما ادھوری رہ جاتی ہے۔

جیمز کی تجربہ گاہ اور اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا مقصد مچھروں کے جینز کے ساتھ 'چھیڑ چھاڑ' کا راستہ تلاش کرنا ہے، تاکہ انھیں مختلف امراض پھیلانے کی صلاحیت سے محروم کیا جاسکے۔ کچھ عرصہ پہلے تک مچھروں میں جینیاتی تبدیلی کے عمل کو نظریاتی حد تک ممکن تصور کیا جارہا تھا، مگر ایک نئی انقلابی ٹیکنالوجی (جسے CRISPR-Cas9 کا نام دیا گیا ہے) اور ایک قدرتی نظام جس کے لیے ' جین ڈرائیو' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، کے انضمام کے بعد 'جینیاتی چھیڑ چھاڑ' میں کام یابی کا تصور تیزی سے حقیقت بننے کی جانب گام زن ہے۔

کرسپر ( CRISPR ) نے ایک بالکل نئی قسم کی طاقت انسانی ہاتھوں میں تھمادی ہے۔ اس تیکنیک نے سائنس دانوں کو قریب قریب ہر ذی روح بشمول انسان، کے ڈی این اے کو کم وقت میں اور کامل درستی کے ساتھ تبدیل یا ختم کرنے اور ازسرنو ترتیب دینے کے قابل بنادیا ہے۔

پچھلے تین سال کے دوران اس ٹیکنالوجی نے حیاتیات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تجربہ گاہوں میں جانوروں کے نمونوں پر کام کرتے ہوئے محققین کرسپر کی مدد سے اہم جینیاتی غلطیوں جیسے muscular dystrophy ، cystic fibrosis اور ہیپاٹائٹس کی ایک قسم کا باعث بننے والے جینیاتی نقائص دور کرنے میں پہلے ہی کام یاب ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں متعدد تحقیقی ٹیموں نے انسانی خلیوں کے ڈی این اے کو ایچ آئی وی سے پاک کرنے کی کوششوں میں کرسپر کا ساتھ بھی حاصل کرلیا ہے۔ یہ ساتھ اب تک جزوی طور پر مفید ثابت ہوا ہے مگر کئی سائنس دانوں کو یقین ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ایڈز کا علاج تلاش کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔

دوران تجربات سائنس دانوں نے کرسپر کے استعمال سے سؤروں میں سے ان وائرسوں کا خاتمہ کردیا جو ان کے اعضا کی انسانی جسم میں پیوند کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ماہرین ماحولیات اس ٹیکنالوجی کو معدومیت کے خطرے سے دوچار حیاتیاتی انواع کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی راہیں بھی کھوج رہے ہیں۔ مزیدبرآں ماہرین نباتیات نے مختلف فصلوں کو ان جینز سے نجات دلانے کے لیے تجربات شروع کردیے ہیں جو حشرات کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اس طرح، یعنی کیمیکلز کے بجائے حیاتیات کا سہارا لینے سے، یہ ٹیکنالوجی حشرات کُش ادویات پر ہمارا انحصار محدود کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔

پچھلی صدی کی کوئی بھی سائنسی دریافت نہ تو اس ٹیکنالوجی سے زیادہ مفید ثابت ہونے کے امکانات رکھتی ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ پریشان کُن اخلاقی سوالات اُٹھاتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر کرسپر کو انسانی جنین کے خط جنس ( germ line)، وہ خلیات جو اگلی نسل کو منتقل ہونے والے جینیاتی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں، میں تغیروتبدل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے چاہے اس کا مقصد کسی جینیاتی نقص کو دُور کرنا ہو یا پھر کسی خاصیت کو قوی تر کرنا، تو یہ تغیر دائمی حیثیت اختیار کرلے گا اور اُس شخص سے نسل درنسل منتقل ہوتا چلا جائے گا۔ ان جینیاتی تغیرات کے مرتب ہونے والے مکمل اثرات کی پیش بینی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگی۔

بورڈ انسٹیٹیوٹ آف ہارورڈ اینڈ ایم آئی ٹی کے ڈائریکٹر اور ہیومن جینوم پروجیکٹ کے سابق سربراہ ایرک لینڈرکرسپر کے بارے میں کہتے ہیں،''یہ حیرت انگیز ٹیکنالوجی ہے جس کے متعدد زبردست استعمالات ہیں۔ تاہم اگر آپ اس کے ذریعے خط جنس کو ازسرنو ترتیب دینے جارہے ہیں تو آپ کے پاس اس کا مضبوط جواز بھی ہونا چاہیے۔ اس اقدام کو معاشرے کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہیے جوکہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔'' ایرک کے مطابق سائنس دانوں کے پاس اس ٹیکنالوجی سے جُڑے اخلاقی سوالات کا کوئی جواب نہیں ۔

CRISPR-Cas9 کے دو جزو ہیں۔ پہلا ایک خامرہ Cas9 ہے جو ڈی این اے کے ٹکڑے کرنے کے لیے ایک خلوی نشتر کا کام کرتا ہے۔ ( قدرتی طور پر بیکٹیریا اس خلوی نشتر کو حملہ آور وائرسوں کے جینیاتی کوڈ کو قطع اور بے دست و پا کرنے کے لیے کام میں لاتے ہیں۔) دوسرا حصہ ایک آر این اے گائیڈ پر مشتمل ہے جو اس نشتر کی نیوکلیوٹائیڈز تک رہنمائی کرتا ہے جن کی قطع و بُرید اس کا ہدف ہوتی ہے۔ آر این اے گائیڈ ناقابل یقین درستی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتا ہے؛ سائنس داں اس کی راہ نمائی میں اربوں کھربوں نیوکلیوٹائیڈز پر مشتمل جینوم میں کہیں بھی، اپنے مطلوبہ مقام پر مصنوعی متبادل بھیج سکتے ہیں۔ جب یہ متبادل اپنی منزل پر پہنچتا ہے تو Cas9خامرہ غیرمطلوب ڈی این اے سلسلے کو کاٹ کر باہر نکال دیتا ہے۔ بعدازاں اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے خلیہ '' کرسپر'' پیکیج کے ساتھ دیے گئے نیوکلیوٹائیڈز کی زنجیر وہاں داخل کردیتا ہے۔

زیکا سے تحفظ اور اس پر قابو پانے سے متعلق امریکی مرکز کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق پورٹو ریکو میں زیکا کی وبا قابو میں آنے تک جزیرے کی چوتھائی آبادی (نولاکھ افراد) اس سے متأثر ہوسکتی ہے۔ یعنی ہزاروں حاملہ عورتیں اس وائرس کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ اس وقت زیکا وائرس کے خلاف مضبوط ترین ردعمل یہ ہوگا کہ پورٹو ریکو کو حشرات کُش ادویہ سے نہلا دیا جائے۔ تاہم جیمز اور کئی دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرسپر کے ذریعے زیکا پھیلانے والے مچھروں کی 'تدوین' کرنا اور اس جینیاتی تبدیلی کو جین ڈرائیو کا استعمال کرتے ہوئے مستقل کردینا اس وائرس سے نمٹنے کے لیے مؤثر لائحہ عمل ہے۔

جین ڈرائیوز میں وراثت کے روایتی اصولوں کو منسوخ کرنے کی طاقت موجود ہے۔ عموماً جنسی تولید کرنے والے جانوروں کی اولادوں کو ماں اور باپ دونوں کی جانب سے ایک ایک جینیاتی نقل منتقل ہوتی ہے۔ نظریاتی طور پر سائنس داں کرسپر اور ایک جین ڈرائیو کے اشتراک سے ایک ترجیحی جین کے ساتھ مطلوبہ ڈی این اے سلسلہ منسلک کرکے کسی حیوانی نوع کا جینیاتی کوڈ تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں جانوروں کی آنے والے نسلوں میں بھی ہوبہو منتقل ہوں گی۔

گذشتہ برس ''پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق سے ظاہر ہوتا تھا کہ جیمز نے Anopheles مچھروں کو ملیریا کا طفیلیہ پھیلانے کی صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے کرسپر کا سہارا لیا تھا۔ اس تجربے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے جیمز نے کہا،''ہم نے ان مچھروں میں چند جینز داخل کیے تھے، اس کے نتیجے میں مہلک طفیلیے کی مچھروں کے ذریعے منتقلی کا عمل منقطع ہوگیا تھا جب کہ ان حشرات کے باقی افعال اسی طرح برقرار رہے تھے۔''

Anopheles کے مقابلے میں Ae. aegypti مچھروں سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو کئی قسم کے مرض آور جراثیم کو ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ جیمز کے مطابق اس کے لیے ایک ایسا طریقہ ( gene drive) وضع کرنا ہوگا جو ان حشرات کو تمام جراثیم سے پاک کردے کیوں کہ ایک ایسا مچھر 'تیار' کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو زیکا کے خلاف مزاحم ہو مگر ڈینگی اور دیگر امراض پھیلا سکتا ہو۔

ڈینگی سے جنگ لڑنے کے لیے جیمز اور اس کے ساتھیوں نے مختلف کرسپر پیکیج ڈیزائن کیے ہیں جو والدین کے ایک قدرتی جین کو ایک ایسے جین سے بدل سکتے ہیں جس کی بدولت ان کی اولاد بانجھ پیدا ہوگی۔ اگر اس نوع کے مچھر زیادہ تعداد میں تیار کرکے چھوڑ دیے جائیں تو دو تین نسلوں کے بعد (ہر نسل کی عمر دو تا تین ہفتے ہوتی ہے) مچھروں کی تمام اقسام جینیاتی طور پر تیارکردہ (انجنیئرڈ) اقسام میں بدل جائیں گی۔

جیمز اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر حیاتیاتی انواع میں اس جینیاتی تغیر کو پھیلنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کے غیرمتوقع اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جنھیں زائل کرنا ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔ ''جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حشرات کو کُھلا چھوڑنے میں یقیناً خطرات پوشیدہ ہیں'' جیمز کہتا ہے۔ ''مگر مجھے یقین ہے کہ ایسا نہ کرنے میں زیادہ خطرات ہیں۔''

کسی جان دار میں کوئی خاصیت پیدا کرنے کے لیے دوسرے جان دار کے جینز میں سے نیوکلیوٹائیڈز کاٹ کر پہلے جان دار کے جینز میں داخل کرنے کی تیکنیک دریافت ہوئے چار دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس تیکنیک کو سائنسی زبان میں recombinant DNA (ڈی این اے کا ازسرنوتشکیل پانا) کہا جاتا ہے۔ مالیکیولی حیاتیات کے ماہر تحقیقی میدان میں اس تیکنیک سے جُڑے امکانات دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ تاہم آغاز ہی میں انھوں نے یہ ادراک بھی کرلیا تھا کہ اگر وہ دو حیوانی انواع کے درمیان ڈی این اے کا انتقال کریں تو ممکنہ طور پر اس کے ساتھ وائرس اور دوسرے جراثیم بھی ایک سے دوسرے جانور میں منتقل ہوسکتے ہیں اور غیرمتوقع امراض کا باعث بن سکتے ہیں جن کا نہ تو کوئی قدرتی بچاؤ ہوگا اور نہ علاج۔

اس امکان نے سائنس دانوں کو سب سے زیادہ ڈرائے رکھا۔ 1975ء میں دنیا بھر سے مالیکیولی حیاتیات کے ماہرین کیلے فورنیا کے ساحل پر اس نئی ٹیکنالوجی سے جُڑے چیلنجز پر غور کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر سائنس دانوں نے تجربات کے دوران اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے منسلک خطرات کے پیش نظر مختلف نوعیت کے احتیاطی اقدامات بشمول تجربہ گاہوں کی حفاظت، کرنے پر اتفاق کیا۔

جلد ہی ان احتیاطی اقدامات کی افادیت ظاہر ہوگئی نیز ماہرین پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ ٹیکنالوجی لامحدود فوائد کی حامل ہے۔ کانفرنس کے بعد اس ٹیکنالوجی کا مفاد عامہ کے لیے استعمال شروع ہوا اور جینیاتی انجنیئرنگ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے لگی۔ مثال کے طور پر ذیابیطس کے علاج میں جینیاتی طور پر تیارکردہ انسولین پر انحصار بڑھتا جارہا ہے جو تجربہ گاہوں میں بیکٹیریا میں انسانی انسولین جینز داخل کرکے بنائی جاتی ہے۔

اسی طرح جینیاتی تغیرات کی حامل اور نباتات اور جراثیم کش ادویات کے خلاف قوی تر مزاحمت کی حامل فصلوں کی زیادہ پیداوار عالمی زراعت کا منظرنامہ تبدیل کرنے لگی ہے۔ مگر جینیاتی طور پر بنائی گئی ادویات کے برعکس اسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے تیار کی گئی فصلیں اور ان سے تیارکردہ اشیائے خورونوش ابھی تک بڑے پیمانے پر قبولیت حاصل نہیں کرپائیں، حالاں کہ متعدد تحقیقی مطالعات میں بتایا جاچکا ہے کہ یہ فصلیں اور ان سے حاصل ہونے والا اناج اور سبزیاں، روایتی غذائی فصلوں کے مانند انسان کے لیے بے ضرر اور صحت بخش ہیں۔

کرسپر جینیاتی طور پر تیاکردہ خوراک کے متعلق رائے عامّہ میں تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ جس زمانے میں ڈی این اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہوا، اسی زمانے سے لفظ transgenic ( جین یافتہ) اورGMO (جینیاتی طور پر تیارکردہ نامیاتی جسم) کی اصطلاح کی تعریف کی بنیاد تجربہ گاہ میں مختلف انواع کے ڈی این اے کے ادغام کے ذریعے ان میں وہ خصوصیات پیدا کرنے پر رہی ہے جو (ان میں) قدرتی طور پر ظہور پذیر نہ ہوسکتی ہوں۔ لیکن سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈی این اے میں تبدیلی کے لیے کرسپر کا استعمال صورت حال تبدیل کرسکتا ہے، کیوں کہ اس ٹیکنالوجی نے محققین کو اس قابل کردیا ہے کہ وہ ایک نوع کے مخصوص جینز کی ساختی ترکیب، اس میں دوسری انواع کا ڈی این اے داخل کیے بغیر تبدیل کرسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر چاول کی ایک قسم سنہرا چاول (گولڈن رائس) ہے۔ اس میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے وہ جینز داخل کیے گئے جو اس کے دانوں میں وٹامن اے پیدا کرتے ہیں۔ دھان کے پودوں کے خوردنی حصے (چاول کے دانوں) میں یہ وٹامن قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ترقی پذیر دنیا میں ہر سال لاکھوں بچوں کو وٹامن اے کی کمی بصارت سے محروم کردیتی ہے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود جینیاتی طور پر تیارکردہ اشیائے خوراک کے مخالفین نے شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولڈن رائس کی تجارتی پیمانے پر کاشت نہیں ہونے دی۔ کرسپر کی مدد سے سائنس داں دھان کے پودوں میں پہلے سے موجود جینز میں تبدیلی کرکے انھیں وٹامن اے سے بھرپور چاول پیدا کرنے کے قابل بناسکتے ہیں۔

جاپان میں سائنس داں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹماٹروں کا عرصۂ حیات بڑھانے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔ جاپانی محققین نے ٹماٹر کے بیجوں میں موجود جینز کو غیرفعال کردیا تھا جو ان میں پکنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ میں واقع چائنیز اکیڈمی آف سائنسز سے منسلک ایک محقق نے ایک جینز کی تینوں نقول ختم کرکے گندم ایسا بیج تیار کرلیا ہے جس میں سفوفی پھپھوندی کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ تو جینیاتی انجنیئرنگ کوئی نیا علم ہے اور نہ ہی اس کا استعمال۔ کاشت کار ہزاروں برس سے پیوندکاری، پارنسلیت ( crossbreeding) اور اسی نوع کے دیگر طریقوں کے ذریعے جینز کے ساتھ 'چھیڑ چھاڑ' کرتے چلے آرہے ہیں۔ کرسپر اسی عمل کو زیادہ درستی اور صحت مندی کے ساتھ کرنے کا محض ایک راستہ مہیا کرتا ہے۔ کچھ ممالک جیسے جرمنی، سویڈن، اور ارجنٹائن میں متعلقہ اداروں نے GMOs اور کرسپر جیسے تدوینی آلات یا ایڈیٹنگ ٹولز کے درمیان فرق کا تعین کرلیا ہے۔ یہ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن بھی انھی کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے ایسا ضابطہ تشکیل دے سکتی ہے جس کے تحت کرسپر کی مدد سے تیار شدہ مصنوعات کے لیے قوانین و ضوابط وضع کیے جاسکیں نیز یہ کہ یہ مصنوعات جینیاتی طریقوں سے بنائی گئی ادویہ اور اشیائے خوراک کے مقابلے میں بہ آسانی دست یاب ہوں۔

یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ کرسپر میں انسانی علاج میں استعمال ہونے والی ادویہ کو بہتر بنانے کی بے پناہ استعداد موجود ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے سرطان پر ہونے والی تحقیق میں بے حد آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ سرطان پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس کی مدد سے تجربہ گاہوں میں زیادہ سہولت کے ساتھ سرطانی خلیوں (ٹیومر سیلز) کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے ان پر مختلف ادویات کے تجربات کرسکتے ہیں کہ کون سی دوا ان کی نشوونما روکنے میں کام یاب ہوتی ہے۔ جلد ہی ڈاکٹر کرسپر کے ذریعے کچھ امراض کا براہ راست علاج کرنے کے قابل بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ہیموفیلیا کے مریضوں کے جسم سے حاصل کیے گئے اسٹیم سیلز کی، اس جینیاتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے 'تدوین' کی جاسکتی ہے جو اس مرض کا باعث بنتا ہے۔ بعدازاں تندرست خلیوں کو مریض کے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے جو بہ تدریج نظام دوران خون کی خرابی کو دور کردیں گے۔

اگلے دو برسوں میں ہم طب کے میدان میں مزید ڈرامائی پیش رفت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت ایک لاکھ بیس ہزار امریکی شہری مختلف اعضا کی پیوندکاری کے منتظر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سب کے لیے اعضا کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکتی۔ ہر سال ہزاروں لوگ باری آنے کے انتظار میں دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں دوسرے لوگ جنھیں اعضا کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مطلوبہ شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اس فہرست میں شامل نہیں ہوپاتے۔

سائنس داں اعضا کے عطیہ کنندگان کی کمی پوری کرنے کے لیے برسوں سے انسانوں میں جانوروں کے اعضا کی پیوندکاری کا راستہ کھوج رہے ہیں۔ اس ضمن میں سؤر ان کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں، کیوں کہ اس ممالیہ کے اعضا جسامت میں انسانی اعضا کے قریب قریب ہوتے ہیں۔ مگر سؤر کے جینوم میں ایک وائرس پایا جاتا ہے جو PERVs (porcine endogenous retroviruses) کہلاتا ہے۔

یہ وائرس ایڈز پھیلانے والے وائرس سے مشابہت رکھتا ہے اور اس میں انسانی خلیوں کو متأثر کرنے کی صلاحیت بھی پائی گئی ہے۔ اس تناظر میں کوئی بھی مجاز ادارہ وائرس زدہ اعضا کی پیوند کاری کی اجازت نہیں دے گا اور نہ ہی اب تک ماہرین سؤر کے جینوم سے اس وائرس کو علیٰحدہ کرنے میں کام یاب ہوپائے ہیں۔ تاہم اب سؤر کے اعضا کے جینوم کی تدوین میں کرسپر کا استعمال کرتے ہوئے وہ یہ مشکل حل کر لینے کے لیے پُرامید ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول اور ایم آئی ٹی سے وابستہ پروفیسر جارج چرچ کی سربراہی میں ایک ٹیم سؤر کے گردے کے جینوم میں سے باسٹھ مقامات سے PERV جینز کو باہر نکالنے میں کام یاب ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب جینوم میں بہ یک وقت اتنی بڑی تعداد میں خلوی تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہوں۔

بعدازاں جب سائنس دانوں نے ان مدوّن یا تبدیل شدہ خلیوں کو تجربہ گاہ میں انسانی خلیوں کے ساتھ ملایا تو کوئی بھی انسانی خلیہ ان سے متأثر نہیں ہوا۔ ٹیم نے سؤر کے خلیوں کے ایک دوسرے سیٹ میں ان بیس جینز میں بھی تبدیلیاں کیں جو انسان کے مناعتی نظام میں بگاڑ یا ری ایکشن پیدا کرتے ہیں۔ یہ اقدام بھی سؤر کے اعضا کی انسانوں میں پیوندکاری کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی ثابت ہوگا۔

جارج چرچ اب ان خلیوں کی نقول یا کلون تیار کرنے کے بعد ان کی سؤر کے جنین میں نشوونما کررہا ہے۔ اسے توقع ہے کہ ایک یا دو سال کے بعد وہ اعضا کی پیوند کاری کے آزمائشی تجربات شروع کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اگر یہ اعضا اپنے افعال صحیح طور پر انجام دیتے ہیں اور جانوروں کا مناعتی نظام انھیں قبول کرلیتا ہے تو پھر اگلا مرحلہ انسانوں میں ان کی پیوندکاری کے تجربات کا ہوگا۔ چرچ کے مطابق ان تجربات سے خطرات بھی منسلک ہیں مگر کام یابی کی صورت میں ان لوگوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے، یقینی موت جن کی منتظر ہے۔

چرچ ہمیشہ سے ان لوگوں کو اعضا کی پیوندکاری کا موقع فراہم کرنا چاہتا تھا جنھیں مستحق ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا۔ مجاز اہل کار متعدی امراض لاحق ہونے اور کئی دیگر وجوہ کی بنا پر ضرورت مندوں کا نام پیوندکاری کی فہرست میں درج کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اگر یہ تجربات کام یاب ہوجاتے ہیں تو پھر پیوند کاری کے لیے اعضا بہ افراط دستیاب ہوں گے اور کوئی بھی ضرورت مند محروم نہیں رہے گا۔

شمالی امریکا میں سیاہ پاؤں والا نیولا معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار ممالیہ میں شامل ہے۔ نصف صدی کے دوران دو بار ماہرین ماحولیات نے فرض کرلیا تھا کہ اس جانور کی نسل، جو کبھی ' عظیم میدانوں '(امریکا اور کینیڈا میں سلسلہ کوہ راکی کے مشرق میں واقع گھاس کا وسیع و عریض میدان) میں بہ افراط موجود تھے، ناپید ہوچکی ہے۔ ایک بار واقعی ان کی نسل ختم ہونے کے قریب تھی جب 1981ء میں ایک مویشی خانے سے اتفاقاً سات نیولے دریافت ہوگئے۔ آج پائے جانے والے تمام نیولے انھی کی نسل سے ہیں۔ نیولے کی اس نسل میں جینیاتی تنوع نہیں پایا جاتا۔ اس خاصیت یا خامی کی عدم موجودگی میں کسی بھی حیوانی انواع کی بقا مشکل ہوجاتی ہے۔

جینوم ٹیکنالوجی کو حیوانی تحفظ کے لیے بھی استعمال میں لایا جارہا ہے۔ Revive & Restore نامی تنظیم اسی میدان میں مصروف عمل ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ سائنس داں ریان فیلان اور ان کے ساتھی سیاہ پاؤں والے نیولوں میں جینیاتی تنوع کو وسعت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ تیس برس قبل محفوظ کیے گئے دو نمونوں میں سے زیادہ متنوع ڈی این اے نکال کر ان کے جینوم میں منتقل کرنے کی سعی کررہے ہیں۔

فیلان کی یہ کوشش دو فوری اور ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے خطرات سے نجات دلا سکتی ہے۔ پہلا خطرہ ہے خوراک کی قلت: جنگلی چوہے ، سیاہ نیولے کی سب سے اہم خوراک ہیں، ایک وبائی مرض کے نتیجے میں ان کی نسل تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ اس وبائی مرض کا باعث وہی بیکٹیریا ہے جو انسانوں میں گلٹی دار یا غدودی طاعون پھیلاتا ہے۔

یہ وبائی مرض خود سیاہ پاؤں والے نیولوں کے لیے بھی مہلک ہے۔ متأثرہ مُردہ چوہے کھانے کے بعد وہ بھی اس وبائی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ 1990ء کے عشرے میں غدودی طاعون سے انسانوں کے بچاؤ کے لیے تیار کی گئی ویکسین نیولوں کی اس نسل کو بھی وبائی مرض سے زندگی بھر کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ فش اینڈ وائلڈ لائف سروس نامی ادارے کے اہل کاروں نے نیولوں کی اس نسل کے تحفظ کے لیے یہ اقدام کرتے ہوئے بیشتر نیولوں کو (واضح رہے ان کی تعداد چند سو زیادہ نہیں) پکڑ کر ویکسین لگائی اور پھر واپس جنگل میں چھوڑ دیا۔ تاہم یہ حکمت عملی اس نسل کو معدومیت سے بچانے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔

اس مسئلے کا جامع حل ایم آئی ٹی کی میڈیا لیب سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر کیون ایسویلٹ نے تجویز کیا ہے۔ کیون جارج، چرچ کے ساتھ کرسپر اور جین ڈرائیو ٹیکنالوجی پر کام کرچکا ہے۔ کیون کے مطابق ان حیوانوں کے تحفظ کے لیے ان میں وبائی مرض کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ویکسینیشن کے عمل کے ذریعے تیار کی گئی اینٹی باڈیز نیولوں کے ڈی این اے میں داخل کرنی ہوں گی۔ کیون کا کہنا ہے اس تیکنیک سے نہ صرف نیولوں میں وبا کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگی بل کہ Lyme disease کو بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی جو سفید چوہوں کے جسم پر پلنے والی چچڑی سے منتقل ہونے والے بیکٹیریا سے پھیلتی ہے۔

اگر کرسپر کی مدد سے چوہے کے ڈی این اے میں Lyme disease کے خلاف مزاحمت پیدا کی جاسکتی ہے اور پھر اس خوبی کو جنگلی چوہوں تک وسیع دی جاسکتی ہے تو اس مرض کو محدود یا ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ایسویلٹ اور چرچ، دونوں کا مضبوط موقف ہے کہ یہ تجربہ عوامی حمایت سے اور اس وقت ہونا چاہیے جب سائنس داں اس تجربے کے نتائج کو واپس پلٹانے کی اہلیت، بہ الفاظ دیگر زہر کا تریاق حاصل کرلیں تاکہ غیرمتوقع نتائج کی صورت میں تجربے کے اثرات کا توڑ کیا جاسکے۔

سیاہ پاؤں والے جنگلی نیولے ہی 'کرسپر جین ڈرائیو' کی مدد سے معدومیت کے خطرے کو شکست دینے کے منتظر نہیں ہیں۔ جزائر ہوائی میں پائے جانے والے پرندوں کی تعداد میں بھی تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کا اہم سبب ملیریا کی ایک قسم ہے جو پرندوں کو متأثر کرتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ہوائی کے ساحلوں سے لگنے والے بحری جہازوں کے ساتھ ملیریا کے مچھر بھی یہاں پہنچے تھے۔ اس سے قبل یہ مرض یہاں نہیں پایا جاتا تھا، چناں چہ اس کے خلاف پرندوں میں مزاحمت بھی موجود نہیں تھی۔

نتیجتاً یہ بیماری یہاں پھیلتی چلی گئی۔ ایک زمانے میں ہوائی میں طیور کی سو سے زاید اقسام پائی جاتی تھیں۔ آج یہاں محض بیالیس اقسام باقی رہ گئی ہیں ان میں سے بھی تین چوتھائی کو تاریخ کا حصہ بن جانے کا خطرہ درپیش ہے۔ اسی لیے امریکن برڈ کنزروینسی ہوائی کو ' پرندوں کی معدومیت کا عالمی دارالخلافہ ' قرار دیتی ہے۔ ملیریا، ہوائی کے مقامی پرندوں کو درپیش واحد خطرہ نہیں ہے، لیکن اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو پھر طیور کی باقی ماندہ انواع بھی ناپید ہوجائیں گی، اور جینز کی تدوین اس کا بہترین حل نظر آتی ہے۔

انسانوں میں ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی واحد مؤثر دوا ( artemisinin کی مصنوعی شکل ) کی تیاری کا سہرا جیک نیومین کے سَر ہے۔ اب جیک نے پرندوں میں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے امراض کے خاتمے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ پرندوں کو ملیریا سے بچانے کا واحد مستعمل طریقہ مچھر مار کیمیکلز کا چھڑکاؤ ہے مگر یہ بھی جزوی طور پر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ وسیع علاقے میں مچھر کش کیمیکلز چھڑکاؤ کرنے پر بھی ان کا کُلی طور پر خاتمہ نہیں ہوپاتا۔

نیومین کہتے ہیں،''مچھر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حشرات کُش دوا اُسے چُھوئے، مگر بہت سے مچھر درخت کے تنوں یا پھر چٹانوں میں پڑنے والی گہری دراڑوں میں رہتے اور افزائش نسل کرتے ہیں، جہاں تک حشرات کُش دوا پہنچانے کا مطلب ہوائی کے بارانی جنگلات میں پنپنے والی قدرتی حیات کو زہر دینا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں جینز کی تدوین کرنے سے جراثیم سے پاک مچھر تیار کیے جاسکیں گے۔ یوں قدرتی مسکن اور دوسری جان دار انواع کی تباہی کے بغیر پرندوں کو ملیریا سے تحفظ دیا جاسکے گا۔ ان حیاتیاتی انواع کے بچاؤ کے لیے جینیات کا استعمال ایک زبردست اہدافی طریقہ ہے۔ ملیریا ہوائی کی جنگلی حیات کو تباہی کے کنارے دھکیل رہا ہے، جس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ایک مؤثر راستہ بھی موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض تماشا دیکھتے رہیں گے؟''

رواں برس فروری میں امریکا کے ڈائریکٹر برائے نیشنل انٹیلی جنس جیمز کلیپر نے اپنی سالانہ رپورٹ میں سینیٹ کو خبردار کیا تھا کہ کرسپر جیسی ٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے طور پر استعمال عین ممکن ہے۔ تاہم کئی سائنس داں اس بیان کو بے بنیاد یا مبالغہ آمیز سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے نت نئے زرعی امراض اور مہلک وائرسوں کی تیاری میں سَر کھپانے کے بجائے دہشت گردوں کے پاس اور بھی کئی راستے موجود ہیں۔

بہرحال یہ سمجھنا کوتاہ نظری ہوگی کہ ان نئے مالیکیولی ہتھیاروں (کرسپر، جین ڈرائیو) سے کوئی خطرہ (خاص طور پر حادثاتی خطرہ) جُڑا ہوا نہیں ہے۔ کرسپر جیسی پیش رفتیں کرنے والے سائنس داں اس بات پر متفق ہیں کہ ہم جب بھی کسی دوسری انواع (ان میں خود انسان بھی شامل ہے) کے جینیاتی اثاثے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگتے ہیں تو ممکن ہے کہ معاملات کو چھیڑ چھاڑ سے پہلے والی سطح پر واپس لانا آسان یا ممکن نہ ہو۔

جینیفر ڈوڈنا بارکلے میں واقع کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں کیمیا اور مالیکیولی حیاتیات کی پروفیسر ہیں۔ 2012ء میں ڈوڈنا اور ان کی فرانسیسی شریک کار ایمانوئل نے پہلی بار عملی مظاہرے کے ذریعے ثابت کیا تھا کہ تجربہ گاہ میں کرسپر کی مدد سے ڈی این اے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ جینوم کی تدوین کے کیا غیرمتوقع نتائج ہوسکتے ہیں؟ جینیفر نے کوئی حتمی رائے دینے کے بجائے کہا،''مجھے نہیں معلوم کہ ہم انسانی یا کسی اور جینوم کے بارے میں اس حد تک جان چکے ہیں کہ اس سوال کا یقینی جواب دے سکیں۔ لیکن یہ میں یقیناً کہہ سکتی ہوں کہ جینوم کے بارے میں شافی علم ہو یا نہ ہو، لوگ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔''

سائنس جس تیزی سے انسانیت کو آگے دھکیل رہی ہے، یہ اس کے لیے اتنی ہی خوف ناک ہوتی جارہی ہے۔ یقیناً جلد ہی کرسپر کِٹ کی مدد سے اسی طرح تجربات کرنا ممکن ہوجائے گا جیسے پچھلی نسلیں کاٹھ کباڑ سے بھرے ہوئے کمروں میں بیٹھ کر ریڈیو اور کمپیوٹر کی ابتدائی اشکال پر کرتی رہی ہیں۔ تاہم ریڈیو اور کمپیوٹر کے مقابلے میں ان آلات کے استعمال کے بارے میں پُرتشویش ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے جو پودوں اور جانوروں کی بنیادی جینیات کو تبدیل کرسکتے ہوں۔

لیکن جہاں ان اوزاروں کو نظرانداز کردینے کے نقصانات و خطرات واضح ہیں وہیں ان کے فوائد بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ مچھر ہر سال دنیا بھر میں تھرتھلّی مچادیتے ہیں۔ اس تناظر میں ملیریا اور ان کے ذریعے پھیلنے والے دوسرے وبائی امراض کا خاتمہ یقیناً طب کی تاریخ کا عظیم ترین کارنامہ ہوگا۔ اگرچہ کرسپر کو انسانی جنین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے لیے استعمال کرنے کی بات قبل ازوقت ہے مگر دیگر ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے انسان کی جینیات کو تبدیل کیے بغیر انھیں مختلف امراض سے مامون کیا جاسکے۔

مثال کے طور پر Tay-Sachs نامی جینیاتی مرض ساتھ لے کر پیدا ہونے والے بچوں میں ایک خامرے کی کمی ہوتی ہے جو جسم کو دماغ میں موجود روغنی فضلے کو تحلیل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ بہت ہی نادر مرض ہے اور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بچے کو ماں اور باپ دونوں کی جانب سے ناقص جین منتقل ہوتے ہیں۔ کرسپر کے ذریعے یہ ممکن ہوگا کہ ماں یا باپ میں کسی ایک کا جینیاتی نقص دور کردیا جائے۔ یوں جنین کو دونوں طرف سے ناقص جین نہیں ملیں گے اور نومولود کو یہ مرض لاحق نہیں ہوگا۔ اس صورت میں کرسپر سے زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں اور اس مرض کے دوبارہ لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں رہے گا۔ بالکل یہی نتیجہ in vitro fertilization کی تیکنیک سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

انسان جب کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے وابستہ خطرات کی سنگینی کا اندازہ نہ کرپائے تو پھر عموماً وہ مؤخرالذکر عمل یعنی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن جہاں معاملہ لاکھوں کروڑوں جانوں کا ہو، وہاں اس طرح جامد و ساکت ہوجانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ گذشتہ برس دسمبر میں دنیا بھر سے چیدہ چیدہ سائنس داں ان دو آپشنز یا راستوں کے پیچیدہ اخلاقی پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے واشنگٹن میں جمع ہوئے تھے۔ اجتماع کے اختتام پر کسی نتیجے پر نہ پہنچتے ہوئے اس موضوع پر گفت و شنید جاری رکھنے اتفاق رائے کیا گیا تھا۔ ایک بات واضح ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے جُڑے سوالوں کے جواب آسان نہیں ہوں گے مگر کسی منظم رہنمائی کے بغیر اس انقلاب سے انسانیت کو پہنچنے والے زبردست ممکنہ فوائد خوف کی نذر بھی ہوسکتے ہیں۔

سائنس دانوں کے اس مخمصے کو اسٹنفرڈ سینٹر فار لا اینڈ بایوسائنس کے ڈائریکٹر ہینک گریلی یوں بیان کرتے ہیں،''کرسپر اور جین ڈرائیوز کی صورت میں ہمارے ہاتھ تمام حیاتیاتی انواع کی جینیات بدل دینے کی طاقت آگئی ہے جس کا ہم نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ اس انقلابی ہتھیار سے ہم بے پناہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ ایک نیا ہتھیار ہے جس کے مکینزم سے پوری طرح آگاہی نہیں، اس لیے اس کا استعمال سمجھ داری کا متقاضی ہے۔ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ اسے استعمال کرسکیں، دوسری طرف وقت ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں