پڑوس میں نئی گریٹ گیم کا آغازافغانستان میں بھارت پنجے گاڑنے لگا

چین اور پاکستان کی بڑھتی قربت سے ٖخوفزدہ اکلوتی سپرپاور نے خطے میں پراکسی وار چھیڑ دی


سید عاصم محمود September 25, 2016
چین اور پاکستان کی بڑھتی قربت سے ٖخوفزدہ اکلوتی سپرپاور نے خطے میں پراکسی وار چھیڑ دی ۔ فوٹو : فائل

پچھلے ماہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے نئی دہلی بھارت کا اچانک دورہ کیا۔ وہ وہاں بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دووال، سیکرٹری دفاع موہن کمار اور خارجہ سیکرٹری جے شنکر سے ملا۔ امریکی جنرل نے بھارتی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ افغان فوج کو عسکری امداد فراہم کی جائے۔ مودی حکومت نے فی الفور یہ درخواست قبول کرلی۔

2002ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے بھارت سرزمین افغاناں میں بتدریج اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے وہاں سڑکیں، ڈیم اور ہسپتال تعمیر کرائے۔ نیز افغان فوجیوں کو عسکری تربیت دی۔ اس دوران پاکستانی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را نے افغانستان اور ایران میں تربیتی مراکز کھول رکھے ہیں ۔وہ وہاںخصوصاً بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردی کرانے کے لیے کارندوں کو تربیت دیتی ہے۔

حال ہی میں را ایجنٹ، کلبھوشن یادو بلوچستان سے گرفتار ہوا، تو پاکستانی خدشات کی تصدیق ہوگئی۔پچھلے چند ماہ تک امریکی حکومت پاکستان کی ہمنوا بن کر بھارت پر زور ڈالتی رہی تھی کہ وہ پاکستانی سرزمین میں خفیہ کارروائیاں انجام دینا بند کر دے۔ لیکن اب امریکا پاکستان کے خلاف جاری بھارتی خفیہ جنگ کا حصہ بن چکا ہے اور افغانستان اس امریکی و بھارتی خفیہ (پراکسی) جنگ کا اہم اڈا بن رہا ہے۔ گویا جنوبی ایشیا میں ایک اور ''گریٹ گیم'' شروع ہوچکی ہے۔جب سے امریکی حکومت نے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' شروع کی ہے، امریکا اور پاکستان کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے۔

ان تعلقات میں بنیادی تبدیلی پچھلے سال آئی جب چین نے گوادر بندرگاہ کو اپنا تجارتی مرکز بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ تب تک امریکی دانشور گوادر کو معمولی اور بے حیثیت بندرگاہ سمجھتے تھے۔ مگر جب چینی وہاں پہنچے، تو انہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔گوادر کے ذریعے چین دو زبردست فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ اول وہ اس قابل ہوجائے گا کہ براہ راست مشرق وسطیٰ، افریقا اور یورپ کے ممالک تک پہنچ سکے۔ ابھی سمندری راستے سے طویل چکر کاٹ کر وہ باہمی تجارت انجام دیتا ہے۔ دوم فائدہ یہ کہ مستقبل میں کوئی بھی فوجی طاقت بحیرہ جنوبی چین کی ناکہ بندی کرلے، تب بھی بذریعہ گوادر چین کی تجارتی و معاشی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔



جب امریکی حکمران طبقے پر گوادر کی خوبیاں آشکارا ہوئیں، تو اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہیں احساس ہوا کہ گوادر بندرگاہ فعال ہونے سے خصوصاً مشرق وسطیٰ اور افریقا میں چین کا اثرو رسوخ بڑھے گا۔ یوں ان اہم خطوں میں امریکی مفادات بلکہ اجارہ داری کو زک پہنچے گی۔ امریکی اثرونفوذ ماند پڑ جائے گا۔اپنے مفادات خطرے میں دیکھ کر ہی امریکا پاکستانی حکومت پر زور ڈالنے لگا کہ وہ ''پاک چین اقتصادی راہداری'' کا منصوبہ ترک کردے۔ تاہم پاکستان نے بجا طور پر منصوبہ ختم کرنے سے انکار کردیا۔ یہ انکار امریکی حکمرانوں کو پسند نہ آیا جو پاکستان کو اپنا زر خرید سمجھتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے مختلف چالوں سے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔گو امریکی حکمران ظاہری طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف کرتے رہے۔یہ دوغلی روش اب تک جاری ہے۔

پاکستان کے خلاف امریکی خفیہ سرگرمیوں کا آغاز مئی 2016ء سے ہوا جب ایک امریکی ڈرون نے اچانک افغان طالبان کے امیر، ملا منصور اختر کو مار ڈالا۔ اس کے بعد امریکا اور افغانستان، دونوں یہ راگ الاپنے لگے کہ افغان طالبان نے پاکستان میں اپنی پناہ گاہیں بنارکھی ہیں اور یہ کہ پاکستان افغان طالبان کو اسلحہ و دیگر سامان فراہم کرتا ہے۔حکومت پاکستان نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ افغان طالبان پر بہت کم اثرورسوخ رکھتا ہے اور یہ کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ مگر امریکی اور افغان حکومتوں نے پاکستان کا دعویٰ قبول نہیںکیا۔ دراصل انہیں تو پاکستان سے تعلقات کشیدہ کرنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ چناں چہ طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگا کر امریکا نے پاکستان کو دی جانے والی بیشتر امداد بند کردی۔ ایف سولہ طیارے دینے پر بھی پابندی لگادی گئی۔

افغان حکومت تو سرتاپا امریکیوں کی کٹھ پتلی ہے۔ افغان حکمران طبقہ امریکی عسکری و مالی امداد کے سہارے ہی حکومت کر رہا ہے۔ چناں چہ وہ اپنے آقا سے بڑھ کر پاکستان پر حملے کرنے لگا۔ کبھی طورخم میں مسائل کھڑے کیے گئے، تو کبھی چمن میں۔حال ہی میں واہگہ بارڈر کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ افغانستان میں اب پٹاخہ بھی پھوٹے تو اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے۔غرض ایک طرف تو پاکستان پر نت نئے الزامات کی بھر مار کردی گئی، دوسری طرف امریکا بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔ امریکیوں کا یہ منافقت بھرا کردار دیکھ کر قدرتاً ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دے کر پاکستان کو کیا ملا؟...خودکش حملے، بم دھماکے، افراتفری، بے سکونی، لاقانونیت، اربوں ڈالر کا نقصان اور پچاس ہزار پاکستانیوں کی شہادت!

پاکستان کو زک پہنچانے اور دوبارہ اپنا مطیع بنانے کی خاطر امریکا نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں بھارت کا اثرو رسوخ بڑھایا جائے۔ چناں چہ امریکیوں کی آشیرباد سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین پے در پے ملاقاتیں ہوئیں۔ سابق صدر حامد کرزئی اور افغان فوج کے سربراہ بھی بھارت کے دورے پر گئے اور پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔ یوں پچھلے چند ماہ میں بھارت اور افغانستان کے مابین زبردست سفارتی سرگرمیاں دیکھنے کوملیں۔ حتیٰ کہ ماہ اگست میں امریکا نے افغان طالبان کے خلاف سہ ملکی مذاکرات کرانے کا اعلان کردیا جس میں پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا۔

امریکا بھارت اور افغانستان کے مابین یہ مذاکرات جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر منعقد ہوئے۔افغانستان میں بھارت کے بڑھتے اثرورسوخ پر پاکستان کو شدید تشویش ہے۔ تمام تر دوستانہ بات چیت کے باوجود پاکستان میں بھارت کو دشمن ہی سمجھا جاتا ہے۔ پہلے یہ دشمن ہماری مشرقی سرحدوں پر بیٹھا تھا، اب وہ مغرب میں بھی اپنے پر پھیلا رہا ہے۔بھارت نے دسمبر 2015ء میں افغان فوج کوچار روسی ساختہ ایم آئی 25 ہیلی کاپٹر فراہم کیے تھے۔ اب افغان حکومت نے بھارت سے فرمائش کی ہے کہ اسے مزید ہیلی کاپٹر اور توپیں فراہم کی جائیں۔

مودی حکومت نے افغان فوج کوجدید اسلحہ فراہم کرنے کی ہامی بھرلی ہے۔ ادھر افغان طالبان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغان حکومت کو اسلحہ فراہم کرنے سے باز رہے ورنہ نتیجہ اچھا نہیںنکلے گا۔ گویا بھارت اگر لولی لنگڑی افغان حکومت کا سرپرست بن گیا تو خاص طور پر افغانستان میں قیام پذیر سبھی بھارتیوں کو افغان طالبان کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنگوں سے تباہ حال افغانستان کی تعمیر و ترقی میں چین بھی خاصا سرگرم ہے۔ 2007ء سے چینی مس عنیک کی کانوں سے تانبا نکال رہے ہیں۔ چین افغانستان سے دیگر معدنیات اور قدرتی وسائل خریدنے کا بھی خواہش مند ہے۔ مگر اب امریکا اور بھارت افغانستان سے چینیوں کا انخلاء چاہتے ہیں۔ ان کی یہ چال اس بڑی حکمت عملی کا حصّہ ہے جس کے مطابق امریکا ایشیا میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے۔

اگر چین افغانستان سے رخصت ہوا، تو بھارتی اس ملک میں جابجا اڈے تعمیر کرسکتے ہیں۔ پھر وہ بھر پور کرشش کریں گے کہ بھارتی و غدار پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں زیادہ سے زیادہ شورش پیدا کی جائے۔تب بھارت کا خاص نشانہ پاک چین اقتصادی راہداری ہوگا۔ چین بھارت و امریکا کی اس پراکسی جنگ سے خوب واقف ہے۔ تاہم چینی حکمران بڑے سرد مہر اور دانشمند ہیں۔ وہ علی الاعلان کسی سے تصادم مول نہیں لینا چاہتے۔ اسی لیے چینی اور پاکستانی چپکے چپکے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے مکمل کرتے جارہے ہیں۔ جب بھی یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل ہوا، چین کی بھر پور حمایت سے پاکستان عسکری اور معاشی طور پر اتنا مضبوط ملک بن جائے گا کہ دشمنوں کو منہ توڑ جواب دے سکے۔

بھارتی کیڈٹ کالجوں میں افغان

اعدادو شمار کی رو سے صرف امریکا نے پچھلے پندرہ سال میں تعمیر نو کے نام پر افغانستان میں 113 ارب ڈالر (ایک کھرب تیرہ ارب روپے سے زائد ) خرچ کیے۔ اس میں سے 60 فیصد رقم افغان فوج کھڑی کرنے پر لگی۔ امریکیوں اور یورپیوں نے اس فوج کے جوانوں کو تربیت دی اور جدید ترین اسلحہ فراہم کیا۔ افغان بری فوج کی تعداد پونے دو لاکھ سے زیادہ ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر لحاظ سے طاقتور ہونے کے باوجود افغان فوج طالبان کو شکست نہیں دے پائی۔ آئے دن طالبان افغانستان کے کسی نہ کسی ضلع پر قبضہ کرلیتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ افغان فوج میں فوجی صرف تنخواہ کی خاطر لڑتے ہیں لہٰذا جب کسی محاذ پر وہ زندگی کا چراغ گل ہونے کا خطرہ محسوس کریں، تو ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔افغانستان میں اب بھی تقریباً نو ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ مزید براں امریکی ڈرون اور طیارے طالبان کے ٹھکانوں پر میزائل پھینکتے اور بم باری کرتے ہیں۔



حقیقتاً جدید ترین اسلحے سے لیس اسی امریکی فوج نے طالبان کی پیش قدمی روک رکھی ہے۔ جیسے ہی یہ بچی کھچی امریکی فوج افغانستان سے رخصت ہوئی، طالبان پوری طاقت سے کابل کی کمزور حکومت پر حملہ کردیں گے۔ماہ اگست کے آخری ہفتے افغان فوج کے چیف جنرل قدم شاہ نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس نے بھارتی فوج سے مزید جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی فرمائش کر ڈالی۔ نیز بھارتی حکمرانوں سے استدعا کی کہ اپنے کیڈٹ کالجوں میں مزید افغانوں کو داخلہ دیا جائے۔ یاد رہے، پچھلے چند برس میں 800 افغان فوجی بھارتی کیڈٹ کالجوں سے تربیت پاکر نکل چکے جبکہ مزید 151 کیڈٹ بھارتی عسکری کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔

افغان طالبان کا پھیلتا اثرورسوخ
اکتوبر 2001ء میں جب امریکی افغانستان پر حملہ آور ہوئے، تو وہاں طالبان حکومت ختم ہوگئی۔ تب امریکی حکمران طبقے کو یقین تھا کہ طالبان قصہ پارینہ بن چکے۔ مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ طالبان نے حملہ آوروں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کردی جو اب تک جاری و ساری ہے۔افغان طالبان پشتون ہونے کے ناتے پاکستانی صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آباد پشتونوں سے مدد کے خواہاں ہوئے۔ انہیں پاکستان میں رہتے بستے افغان مہاجرین سے بھی ہمدرد مل گئے۔ یوں افغانستان میں طالبان کی چھاپہ مار جنگ جاری رہی۔

تب امریکا نے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان میں افغان طالبان کے ہمدردوں کا خاتمہ کرے۔ چناں چہ خصوصاً وزیرستان میں افغان طالبان کے حامی پشتون قبائل پر پاکستانی سکیورٹی فورسز نے یلغار کردی۔ تاہم اس حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے پشتون حکومت پاکستان کے بھی مخالف بن گئے۔ ان کی صفوں میں القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں کے ارکان بھی شامل تھے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کے خلاف بھی گوریلا جنگ کا آغاز کردیا۔



اس خانہ جنگی سے بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ اس نے پاکستانی طالبان کی تنظیموں میں اپنے ایجنٹ داخل کردیئے جو گوریلوں کو اسلحہ و سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ یوں پاکستان دشمن تنظیموں کی طاقت بڑھتی چلی گئی اور وہ بڑھ چڑھ کر پاکستانی حکومت و قوم پر حملے کرنے لگے۔آخر جون 2014ء سے پاک فوج کی عسکری مہم، ضرب عضب کا آغاز ہوا۔ اس نے وزیرستان سے سبھی پاکستان مخالف تنظیموں کو مار بھگایا۔ یوں پاکستان میں ان تنظیموں کے دہشت گردانہ حملے بہت کم ہوگئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان وقتاً فوقتاً یہ بیان جاری کرتے رہے کہ وہ پاکستان مخالف تنظیموں کے طرف دار نہیں ۔

دریں اثناء افغان طالبان نے امریکی و یورپی قابض افواج اور کٹھ پتلی افغان حکومت کے خلاف اپنا جہاد جاری رکھا۔ وقفے وقفے سے طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کی سناؤنی بھی ملتی رہی مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔دراصل موجودہ افغان حکمران طبقہ طالبان کے ساتھ مفاہمت نہیں چاہتا۔ اسے علم ہے کہ جب بھی مفاہمت ہوئی، طالبان برسراقتدار آجائیں گے۔ یوں اس کی روزی روٹی جاتی رہے گی۔واضح رہے، امریکی حکومت اعتراف کرچکی ہے کہ موجودہ افغان حکمران طبقہ نہایت کرپٹ ہے۔ افغانستان کو جو اربوں ڈالر بطور تعمیر نو وصول ہوئے، اس کا بیشتر حصہ یہی کرپٹ طبقہ ہڑپ کرگیا۔ اب اسے دولت و امارت کی چاٹ لگ چکی ہے۔ چناں چہ وہ باآسانی اقتدار سے الگ نہیں ہوگا۔

امریکا نے فی الحال اپنے جدید اسلحہ کے بل بوتے پر افغانستان میں طالبان کو محصور کررکھا ہے۔ جیسے ہی امریکی رخصت ہوئے، تب یہ سچائی سامنے آئے گی کہ افغان فوج کتنے پانی میں ہے۔ فی الوقت طالبان بدستور گوریلا جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً سرکاری تنصیبات، غیر ملکی افواج اور افغان سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق افغانستان میں 400 اضلاع ہیں۔ ان میں سے کم از کم 20 اضلاع میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی۔ جبکہ پچاس سے زائد اضلاع میں طالبان مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ مستقبل میں مزید اضلاع میں افغان فوج اور طالبان کا زبردست ٹکراؤ ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں