پاک بھارت کشیدگی اور وقت کا تقاضا
بھارت کی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اورسیاست دان اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر کے جنگ کا ماحول بنا رہے ہیں
CHITRAL:
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی میں کمی کے آثار تاحال نظر نہیں آ رہے بلکہ صورت حال زیادہ سنگین اور حساس ہوتی جا رہی ہے اور اس کی باز گشت عالمی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔
بھارت میں ٹاپ لیول پر زبردست سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دارلحکومت نئی دہلی میں اپنی تینوں مسلح افواج کی ٹاپ قیادت سے انتہائی اہم ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں بھارت کی بری اور فضائی افواج کے سربراہان جب کہ نیوی کے وائس ایڈمرل نے شرکت کی۔ موجودہ صورتحال میں یہ بڑی سنجیدہ نوعیت کی پیش رفت ہے۔ اس انتہائی اہم ملاقات میں کیا امور زیربحث لائے گئے، وہ منظرعام پر نہیں آئے تاہم یقینی بات ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ کچھ خاص قسم کے مشورے یا فیصلے کیے ہوں گے جو پاکستان کے حق میں کسی صورت نہیں ہوں گے۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی نقل وحرکت بھی جاری ہے اور بھارت کنٹرول لائن پر مزید فوج جمع کررہا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارت نے دو بریگیڈ پر مشتمل مزید فوجی کنٹرول لائن پر پہنچا دیے ہیں اور ممکن ہے کہ اس میں مزید اضافہ کردیا جائے۔ بھارتی میڈیا مسلسل طبل جنگ بجا رہا ہے اور عوام کے جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے جس سے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
بھارت میں سخت گیر عناصر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پاکستان کو اڑی واقعے کا جواب دیا جائے۔ ہفتے کو نریندر مودی نے کیرالہ میں بی جے پی کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر سخت لہجہ اختیار کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا جائے گا۔ بہرحال پاکستان کو بھارت میں ٹاپ لیول پر جاری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور کسی ناگہانی صورت حال سے عہدہ برأ ہونے کے لیے اپنی تیاریاں مکمل رکھی جانی چاہئیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بروقت ہے کہ مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر قیمت ادا کریں گے، کسی کو ہماری بہادر افواج اور اس کی صلاحیت پر شک نہیں ہونا چاہیے اور ہماری بہادر افواج کسی بھی غیرملکی خطرے سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ کے عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی افواج کسی بھی قسم کی بھارتی مہم جوئی کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں تاہم ملک کی سیاسی قیادت کی طرف سے بھی اسی بھرپور انداز میں بھارت کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر تو تمام سیاست دان بھارت کے جنگی جنون کی مذمت کر رہے ہیں جو اچھی اور مثبت پیش رفت ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت اور عالمی برادری کو عوامی اور جمہوری سطح سے موثر اور دوٹوک پیغام جانا چاہیے۔
بھارت کی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور سیاست دان اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر کے جنگ کا ماحول بنا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں ایک دہشت گرد ریاست کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ بھارتی قیادت برملا اعلان کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیں گے۔ بھارتیوں کی بڑی خطرناک حکمت عملی ہے۔
عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈے کے پاکستان پر مضراثرات مرتب ہو رہے ہیں لہٰذا ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے ایک جانب بھارت کی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، سیاسی جماعتوں تک یہ پیغام جانا چاہیے کہ ساری پاکستانی قوم متحد ہے اور وہ بھارت کی کسی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ دوسری جانب دنیا کی تمام اقوام خصوصاً اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان تک بھی یہی پیغام جانا چاہیے تاکہ دنیا کی سپرپاورز کو ادراک ہو کہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اس خطے کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کو اتنا نہیں بڑھنے دیا جانا چاہیے کہ نوبت جنگ تک پہنچ جائے لہٰذا عالمی قوتوں کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو جلد ازجلد پاکستان پہنچنا چاہیے اور آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں صرف پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو بھی بلانا چاہیے جن کی نمایندگی پارلیمنٹ میں نہیں ہے۔ یہ ملک کی سالمیت، بقاء اور تحفظ کے معاملات ہیں۔ ملک کا دفاع محض فوج کی ہی ذمے داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمے داری بھی ہے اور ہمیں یہ ذمے داری ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی میں کمی کے آثار تاحال نظر نہیں آ رہے بلکہ صورت حال زیادہ سنگین اور حساس ہوتی جا رہی ہے اور اس کی باز گشت عالمی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔
بھارت میں ٹاپ لیول پر زبردست سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دارلحکومت نئی دہلی میں اپنی تینوں مسلح افواج کی ٹاپ قیادت سے انتہائی اہم ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں بھارت کی بری اور فضائی افواج کے سربراہان جب کہ نیوی کے وائس ایڈمرل نے شرکت کی۔ موجودہ صورتحال میں یہ بڑی سنجیدہ نوعیت کی پیش رفت ہے۔ اس انتہائی اہم ملاقات میں کیا امور زیربحث لائے گئے، وہ منظرعام پر نہیں آئے تاہم یقینی بات ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ کچھ خاص قسم کے مشورے یا فیصلے کیے ہوں گے جو پاکستان کے حق میں کسی صورت نہیں ہوں گے۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی نقل وحرکت بھی جاری ہے اور بھارت کنٹرول لائن پر مزید فوج جمع کررہا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارت نے دو بریگیڈ پر مشتمل مزید فوجی کنٹرول لائن پر پہنچا دیے ہیں اور ممکن ہے کہ اس میں مزید اضافہ کردیا جائے۔ بھارتی میڈیا مسلسل طبل جنگ بجا رہا ہے اور عوام کے جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے جس سے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
بھارت میں سخت گیر عناصر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پاکستان کو اڑی واقعے کا جواب دیا جائے۔ ہفتے کو نریندر مودی نے کیرالہ میں بی جے پی کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر سخت لہجہ اختیار کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا جائے گا۔ بہرحال پاکستان کو بھارت میں ٹاپ لیول پر جاری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور کسی ناگہانی صورت حال سے عہدہ برأ ہونے کے لیے اپنی تیاریاں مکمل رکھی جانی چاہئیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بروقت ہے کہ مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر قیمت ادا کریں گے، کسی کو ہماری بہادر افواج اور اس کی صلاحیت پر شک نہیں ہونا چاہیے اور ہماری بہادر افواج کسی بھی غیرملکی خطرے سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ کے عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی افواج کسی بھی قسم کی بھارتی مہم جوئی کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں تاہم ملک کی سیاسی قیادت کی طرف سے بھی اسی بھرپور انداز میں بھارت کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر تو تمام سیاست دان بھارت کے جنگی جنون کی مذمت کر رہے ہیں جو اچھی اور مثبت پیش رفت ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت اور عالمی برادری کو عوامی اور جمہوری سطح سے موثر اور دوٹوک پیغام جانا چاہیے۔
بھارت کی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور سیاست دان اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر کے جنگ کا ماحول بنا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں ایک دہشت گرد ریاست کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ بھارتی قیادت برملا اعلان کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیں گے۔ بھارتیوں کی بڑی خطرناک حکمت عملی ہے۔
عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈے کے پاکستان پر مضراثرات مرتب ہو رہے ہیں لہٰذا ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے ایک جانب بھارت کی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، سیاسی جماعتوں تک یہ پیغام جانا چاہیے کہ ساری پاکستانی قوم متحد ہے اور وہ بھارت کی کسی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ دوسری جانب دنیا کی تمام اقوام خصوصاً اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان تک بھی یہی پیغام جانا چاہیے تاکہ دنیا کی سپرپاورز کو ادراک ہو کہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اس خطے کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کو اتنا نہیں بڑھنے دیا جانا چاہیے کہ نوبت جنگ تک پہنچ جائے لہٰذا عالمی قوتوں کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو جلد ازجلد پاکستان پہنچنا چاہیے اور آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں صرف پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو بھی بلانا چاہیے جن کی نمایندگی پارلیمنٹ میں نہیں ہے۔ یہ ملک کی سالمیت، بقاء اور تحفظ کے معاملات ہیں۔ ملک کا دفاع محض فوج کی ہی ذمے داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمے داری بھی ہے اور ہمیں یہ ذمے داری ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔