پرانے اور تازہ مناظر
ہماری فیملی بھی ٹرک میں داخل ہو گئی۔ یہ ٹرک ہمارے کسی ہمدرد نے نہ معلوم کیسے اور کہاں سے حاصل کیا تھا
والد صاحب اور بڑے بھائیوں نے گھر کا بیشتر سامان مکان کے ایک نسبتاً محفوظ کمرے میں منتقل کیا اور قیمتی اشیاء سے بھرے دو صندوق لے جانے کے لیے صحن میں رکھ دیے۔ سامان والے کمرے کو تالا لگایا پھر گھر کے افراد کو گلی میں کھڑے ٹرک میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ اس ٹرک میں دو تین فیملیز کے افراد پہلے سے بیٹھے اپنے تھوڑے تھوڑے سامان کے ساتھ زرد چہرے لیے بجھی ہوئی اور بے نور نظروں سے باہر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ہماری فیملی بھی ٹرک میں داخل ہو گئی۔ یہ ٹرک ہمارے کسی ہمدرد نے نہ معلوم کیسے اور کہاں سے حاصل کیا تھا۔ مجھے یاد ہے والد صاحب نے ٹرک میں بیٹھنے سے پہلے مکان کے بیرونی دروازے کو بھی تالا لگایا تھا۔ یہ اگست کا مہینہ اور سن 1947ء تھا۔ میری عمر اس وقت تین چار سال کی ہو گی۔ ہم نے اپنا وہ آبائی مکان دوبارہ نہیں دیکھا۔ خدا جانے والد صاحب نے اسے اندر باہر سے منتقل کیوں کیا تھا۔ امرتسر سے لاہور کے لیے روانہ ہونے والے ایک قافلے میں ہمارا ٹرک بھی شامل ہو گیا۔ راستے میں اس قافلے پر دو تین جگہ حملے ہوئے۔ کچھ لوگ مارے بھی گئے۔
انھیں قافلے والوں نے سڑک کنارے چھوڑ دیا۔ منزل مراد تک کے سفر کے کچھ مناظر دھندلائے ہوئے سے میرے ذہن میں محفوظ ہیں لیکن انھیں یاد کروں تو اب بھی بدن میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے اور میں فوراً یاد کو ذہن سے جھٹک کر توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ان یادوں کے پردے پر گولیاں چلنے کی تڑتڑاہٹ، چیخوں، دہشتناک نعروں، خون آلود جسموں، جان بچانے کے لیے بھاگتے لوگوں، چُھروں سے مسلح حملہ آوروں جیسے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوتے خوفناک بآواز مناظر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ابھرتا۔ اگست 1947ء کی امرتسر سے واہگہ تک کے سفر ہجرت کی یادیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب تازہ بہ تازہ نو بہ نو مناظر ہیں جو ہر روز اور جا بہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وہ خواب جس نے 14 اگست 1947ء کو حقیقت کا روپ دھارا ان مناظر میں تو نظر نہیں آتا۔ کسی کسی روز گندگی کے ڈھیر کے پاس نوعمر لڑکے اپنی سائیکلیں کھڑی کر کے ردی کاغذ، استعمال شدہ پولیتھین لفافے، لوہے یا ٹین کے ٹکڑے اکٹھے کر رہے ہیں وہ سارا دن مختلف آبادیوں کے کوڑے دانوں میں سے رزق تلاش کرتے اور مہلک بیماریوں کے جراثیم ہاتھوں میں سمیٹتے دیکھے جا سکتے ہیں یا پھر کسی علاقے میں سلوٹوں سے پاک یونیفارم، چمکدار بوٹ، امپورٹڈ بیگ، انگریزی سلیبس کی کتابیں، روشن کلاس روم، شیشم کے ڈیسک، صحت مند گلابی رنگت، صاف ستھرے بچے، اسمارٹ ٹیچر، شاندار عمارت، پلے گراؤنڈ، ایئرکنڈیشنڈ ہال، پارکنگ ایریا، مستقبل کے معمار اپنی تعلیم کے ابتدائی دور میں آیندہ کی بھاری ذمے داریاں اٹھانے کے مراحل طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور منظر میں چلچلاتی دھوپ میں بس کی چھت پر بیٹھے اس کی عقبی سیڑھی سے لٹکتے، دروازے کا ہینڈل پکڑے جھولتے، دھواں چھوتی چنگھاڑتی بس کے پیچھے دوڑتے کچھ بچے اگلے گاؤں کے ہائی اسکول کے مسافر طالبعلم ہیں، ان کی بیشتر انرجی گھر سے اسکول اور پھر واپس پہنچنے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سوں کے اسکول چار دیواری، چھت، کمروں کی دیواروں، باتھ روم بلکہ اسکول ٹیچر سے محروم ہیں۔ ان کا شمار بھی ملک کے مستقبل کے معماروں میں ہوتا ہے لیکن ان کے گال پچکے ہوئے، جوتے پھٹے ہوئے، کپڑے گرد سے اٹے ہوئے، ناکیں بہتی ہوئی، بستوں میں کتابیں لیر لیر اور پیٹ فاقہ ذدہ ہیں۔ یہ بھی ہمارے مستقبل کے سفیر ہیں۔
بڑے شہروں کی مصروف سڑکوں کے بتی والے چوک میں جونہی سرخ اشارہ ہونے پر کاریں رکتی ہیں، مختلف قسم کے حقیقی اور خودساختہ معذور گداگر کاروں کی ونڈ اسکرین صاف کرنے کے لیے وائپر بردار لڑکے اور لڑکیاں جو دراصل گداگر نہیں، کاروں کی طرف لپکتے ہیں۔ چار پانچ گداگر نوجوان عورتیں سال چھ مہینے کا بچہ اٹھائے ہاتھ میں دودھ کا خالی فیڈر لیے اپنے لیے نہیں گود کے پیدائشی گداگر کے لیے کار کے دروازے کا شیشہ توڑنے کے انداز میں اپنی انگوٹھی سے اسے کھٹکھٹا کر چھ ماہ کے یتیم بچے کے لیے آپ کو بلیک میل کرتی ہیں۔ یہ تجربہ اور مناظر ہر روز کا معمول ہیں۔
بڑے شہر کے مہنگے ہوٹل میں داخل ہونیوالوں کی کاروں کی قطاریں سیکیورٹی چیک کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ ہوٹل میں ملبوسات کے مشہور ڈیزائنر نے فیشن شو کی بکنگ کی ہوئی ہے۔ فیشن ایبل خواتین اور متمول مرد حضرات مہنگے ٹکٹ خرید کر کیٹ واک کا لطف اٹھانے جوق در جوق آتے جا رہے ہیں۔ ہوٹل کے باہر کچھ دور سڑک کنارے کچھ مرد لوگ کاریں پارک کیے وائن کے پرمٹ ہولڈروں کی طرف سے سپلائی کے منتظر کھڑے ہیں۔ وہ پرس میں سے رقم نکالے بے چینی سے سپلائز کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ اپنا لفافہ پکڑتے ہی کار تیزی سے بھگائیں گے۔ اگرچہ ایکسائز یا پولیس والوں نے ان کا تعاقب کرنا ہی نہیں۔
ایک اعلیٰ ایوان میں ایک سینئر وزیر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز اور اخباروں کے نمایندے تابڑتوڑ سوال کیے جا رہے ہیں۔ بجلی نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں، کھانے پینے کی چیزیں گرانی کا آسمان چھو رہی ہیں، ٹرانسپورٹ مہنگی ہے، دوائیں ناخالص اور غریب کی پہنچ سے باہر ہیں، بیکاری اور گرانی عروج پر ہیں، امن عامہ کی حالت خراب ہے۔ وزیر صاحب کے پاس جواباً جھوٹ کا اسٹاک کم پڑتا ہے تو وہ وعدوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اندر سے ان کی حالت غیر ہو رہی ہے لیکن وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پریس کانفرنس جاری ہے۔
چالیس سال قبل ایک ترقی پذیر ملک کا طالب علم حصول علم کے لیے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے پاکستان آیا۔ اس نے یہاں بہت سے کالے پیلے، گورے غیرملکی طالب علموں اور مقامی طلباء کے ہمراہ تعلیم مکمل کی۔ واپس جا کر اپنے ملک میں بڑا نام کمایا اور مدت کے بعد پاکستان آیا کہ پرانے ساتھیوں سے ملے۔ اسے حیرت ہوئی کہ بیشتر پرانے دوست دوسرے ممالک میں نقل مکانی کر گئے تھے اور شہر لاہور اور کراچی جہاں تیس چالیس سال پہلے بہت بڑی تعداد میں غیرملکی طلباء سائنس، انجینئرنگ، میڈیکل اور فائن آرٹس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، اب ہمارے ملک کا رخ نہیں کرتے۔ اسے ایک پرانا ساتھی مل گیا ۔
جس نے اس کی حیرت دور کرتے ہوئے بتایا کہ رفتہ رفتہ پاکستان میں شخصیات نے اداروں کو نگلنا شروع کیا تو ملک میں جمہوری روایات سمٹ کر حکمرانوں کی خودغرضی کا شکار ہوتی گئیں جس کا نتیجہ شخصی ڈکٹیٹرشپ کی شکل میں اور ان کی پسند اور سوچ میں ڈھل کر عدم برداشت، تعصب اور بداعتمادی کی فضا پیدا کرنے پر منتج ہوا پھر یہاں معاشی، معاشرتی اور مذہبی بحرانوں نے جنم لیا اور ادارے غیرمحفوظ ہوئے تو افراد بھی شدت پسندوں کی زد میں آ گئے۔ اب اگر مقامی افراد غیرمحفوظ ہیں تو غیرملکی کیوں ادھر کا رخ کریں گے۔ تجارت، سیاحت، امن، معاشرت اور تعلیم ہر شعبہ تنزل کا شکار ہو رہا ہے۔
پاکستان کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے اس طالب علم کو جب چند محکموں کے دفاتر اور اہم شخصیات کے مکانوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو اس نے بیریئرز، غیرمعمولی بلند دیواریں، بندوقچی گارڈز، ریت کی بوریوں سے چنی دیواریں اور باربڈ وائرز دیکھیں اور پھر اپنے شیڈل کے وقت سے پہلے ہی واپسی کا ارادہ کر لیا تو مجھے عظیم ہجرت کے وقت اپنے بزرگوں کے دیکھے ہوئے خوابوں پر ان کی بڑھتی ہوئی تشویش کا صحیح ادراک ہوا۔
ہماری فیملی بھی ٹرک میں داخل ہو گئی۔ یہ ٹرک ہمارے کسی ہمدرد نے نہ معلوم کیسے اور کہاں سے حاصل کیا تھا۔ مجھے یاد ہے والد صاحب نے ٹرک میں بیٹھنے سے پہلے مکان کے بیرونی دروازے کو بھی تالا لگایا تھا۔ یہ اگست کا مہینہ اور سن 1947ء تھا۔ میری عمر اس وقت تین چار سال کی ہو گی۔ ہم نے اپنا وہ آبائی مکان دوبارہ نہیں دیکھا۔ خدا جانے والد صاحب نے اسے اندر باہر سے منتقل کیوں کیا تھا۔ امرتسر سے لاہور کے لیے روانہ ہونے والے ایک قافلے میں ہمارا ٹرک بھی شامل ہو گیا۔ راستے میں اس قافلے پر دو تین جگہ حملے ہوئے۔ کچھ لوگ مارے بھی گئے۔
انھیں قافلے والوں نے سڑک کنارے چھوڑ دیا۔ منزل مراد تک کے سفر کے کچھ مناظر دھندلائے ہوئے سے میرے ذہن میں محفوظ ہیں لیکن انھیں یاد کروں تو اب بھی بدن میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے اور میں فوراً یاد کو ذہن سے جھٹک کر توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ان یادوں کے پردے پر گولیاں چلنے کی تڑتڑاہٹ، چیخوں، دہشتناک نعروں، خون آلود جسموں، جان بچانے کے لیے بھاگتے لوگوں، چُھروں سے مسلح حملہ آوروں جیسے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوتے خوفناک بآواز مناظر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ابھرتا۔ اگست 1947ء کی امرتسر سے واہگہ تک کے سفر ہجرت کی یادیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب تازہ بہ تازہ نو بہ نو مناظر ہیں جو ہر روز اور جا بہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وہ خواب جس نے 14 اگست 1947ء کو حقیقت کا روپ دھارا ان مناظر میں تو نظر نہیں آتا۔ کسی کسی روز گندگی کے ڈھیر کے پاس نوعمر لڑکے اپنی سائیکلیں کھڑی کر کے ردی کاغذ، استعمال شدہ پولیتھین لفافے، لوہے یا ٹین کے ٹکڑے اکٹھے کر رہے ہیں وہ سارا دن مختلف آبادیوں کے کوڑے دانوں میں سے رزق تلاش کرتے اور مہلک بیماریوں کے جراثیم ہاتھوں میں سمیٹتے دیکھے جا سکتے ہیں یا پھر کسی علاقے میں سلوٹوں سے پاک یونیفارم، چمکدار بوٹ، امپورٹڈ بیگ، انگریزی سلیبس کی کتابیں، روشن کلاس روم، شیشم کے ڈیسک، صحت مند گلابی رنگت، صاف ستھرے بچے، اسمارٹ ٹیچر، شاندار عمارت، پلے گراؤنڈ، ایئرکنڈیشنڈ ہال، پارکنگ ایریا، مستقبل کے معمار اپنی تعلیم کے ابتدائی دور میں آیندہ کی بھاری ذمے داریاں اٹھانے کے مراحل طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور منظر میں چلچلاتی دھوپ میں بس کی چھت پر بیٹھے اس کی عقبی سیڑھی سے لٹکتے، دروازے کا ہینڈل پکڑے جھولتے، دھواں چھوتی چنگھاڑتی بس کے پیچھے دوڑتے کچھ بچے اگلے گاؤں کے ہائی اسکول کے مسافر طالبعلم ہیں، ان کی بیشتر انرجی گھر سے اسکول اور پھر واپس پہنچنے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سوں کے اسکول چار دیواری، چھت، کمروں کی دیواروں، باتھ روم بلکہ اسکول ٹیچر سے محروم ہیں۔ ان کا شمار بھی ملک کے مستقبل کے معماروں میں ہوتا ہے لیکن ان کے گال پچکے ہوئے، جوتے پھٹے ہوئے، کپڑے گرد سے اٹے ہوئے، ناکیں بہتی ہوئی، بستوں میں کتابیں لیر لیر اور پیٹ فاقہ ذدہ ہیں۔ یہ بھی ہمارے مستقبل کے سفیر ہیں۔
بڑے شہروں کی مصروف سڑکوں کے بتی والے چوک میں جونہی سرخ اشارہ ہونے پر کاریں رکتی ہیں، مختلف قسم کے حقیقی اور خودساختہ معذور گداگر کاروں کی ونڈ اسکرین صاف کرنے کے لیے وائپر بردار لڑکے اور لڑکیاں جو دراصل گداگر نہیں، کاروں کی طرف لپکتے ہیں۔ چار پانچ گداگر نوجوان عورتیں سال چھ مہینے کا بچہ اٹھائے ہاتھ میں دودھ کا خالی فیڈر لیے اپنے لیے نہیں گود کے پیدائشی گداگر کے لیے کار کے دروازے کا شیشہ توڑنے کے انداز میں اپنی انگوٹھی سے اسے کھٹکھٹا کر چھ ماہ کے یتیم بچے کے لیے آپ کو بلیک میل کرتی ہیں۔ یہ تجربہ اور مناظر ہر روز کا معمول ہیں۔
بڑے شہر کے مہنگے ہوٹل میں داخل ہونیوالوں کی کاروں کی قطاریں سیکیورٹی چیک کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ ہوٹل میں ملبوسات کے مشہور ڈیزائنر نے فیشن شو کی بکنگ کی ہوئی ہے۔ فیشن ایبل خواتین اور متمول مرد حضرات مہنگے ٹکٹ خرید کر کیٹ واک کا لطف اٹھانے جوق در جوق آتے جا رہے ہیں۔ ہوٹل کے باہر کچھ دور سڑک کنارے کچھ مرد لوگ کاریں پارک کیے وائن کے پرمٹ ہولڈروں کی طرف سے سپلائی کے منتظر کھڑے ہیں۔ وہ پرس میں سے رقم نکالے بے چینی سے سپلائز کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ اپنا لفافہ پکڑتے ہی کار تیزی سے بھگائیں گے۔ اگرچہ ایکسائز یا پولیس والوں نے ان کا تعاقب کرنا ہی نہیں۔
ایک اعلیٰ ایوان میں ایک سینئر وزیر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز اور اخباروں کے نمایندے تابڑتوڑ سوال کیے جا رہے ہیں۔ بجلی نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں، کھانے پینے کی چیزیں گرانی کا آسمان چھو رہی ہیں، ٹرانسپورٹ مہنگی ہے، دوائیں ناخالص اور غریب کی پہنچ سے باہر ہیں، بیکاری اور گرانی عروج پر ہیں، امن عامہ کی حالت خراب ہے۔ وزیر صاحب کے پاس جواباً جھوٹ کا اسٹاک کم پڑتا ہے تو وہ وعدوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اندر سے ان کی حالت غیر ہو رہی ہے لیکن وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پریس کانفرنس جاری ہے۔
چالیس سال قبل ایک ترقی پذیر ملک کا طالب علم حصول علم کے لیے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے پاکستان آیا۔ اس نے یہاں بہت سے کالے پیلے، گورے غیرملکی طالب علموں اور مقامی طلباء کے ہمراہ تعلیم مکمل کی۔ واپس جا کر اپنے ملک میں بڑا نام کمایا اور مدت کے بعد پاکستان آیا کہ پرانے ساتھیوں سے ملے۔ اسے حیرت ہوئی کہ بیشتر پرانے دوست دوسرے ممالک میں نقل مکانی کر گئے تھے اور شہر لاہور اور کراچی جہاں تیس چالیس سال پہلے بہت بڑی تعداد میں غیرملکی طلباء سائنس، انجینئرنگ، میڈیکل اور فائن آرٹس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، اب ہمارے ملک کا رخ نہیں کرتے۔ اسے ایک پرانا ساتھی مل گیا ۔
جس نے اس کی حیرت دور کرتے ہوئے بتایا کہ رفتہ رفتہ پاکستان میں شخصیات نے اداروں کو نگلنا شروع کیا تو ملک میں جمہوری روایات سمٹ کر حکمرانوں کی خودغرضی کا شکار ہوتی گئیں جس کا نتیجہ شخصی ڈکٹیٹرشپ کی شکل میں اور ان کی پسند اور سوچ میں ڈھل کر عدم برداشت، تعصب اور بداعتمادی کی فضا پیدا کرنے پر منتج ہوا پھر یہاں معاشی، معاشرتی اور مذہبی بحرانوں نے جنم لیا اور ادارے غیرمحفوظ ہوئے تو افراد بھی شدت پسندوں کی زد میں آ گئے۔ اب اگر مقامی افراد غیرمحفوظ ہیں تو غیرملکی کیوں ادھر کا رخ کریں گے۔ تجارت، سیاحت، امن، معاشرت اور تعلیم ہر شعبہ تنزل کا شکار ہو رہا ہے۔
پاکستان کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے اس طالب علم کو جب چند محکموں کے دفاتر اور اہم شخصیات کے مکانوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو اس نے بیریئرز، غیرمعمولی بلند دیواریں، بندوقچی گارڈز، ریت کی بوریوں سے چنی دیواریں اور باربڈ وائرز دیکھیں اور پھر اپنے شیڈل کے وقت سے پہلے ہی واپسی کا ارادہ کر لیا تو مجھے عظیم ہجرت کے وقت اپنے بزرگوں کے دیکھے ہوئے خوابوں پر ان کی بڑھتی ہوئی تشویش کا صحیح ادراک ہوا۔