ریاکاری کا راج
دکھاوا بظاہر جو کچھ بھی ہوتا ہے دراصل حقیقت کے برعکس ہوتا ہے
ریاکاری کا دوسرا نام دکھاوا ہوتا ہے۔ دکھاوا بظاہر جو کچھ بھی ہوتا ہے دراصل حقیقت کے برعکس ہوتا ہے اِس بات کو سمجھنے کے لیے مثالیں دینا ضروری ہے۔ مثلاً میںنماز پڑھ رہا ہوں۔ ایک امام کے پیچھے سب لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں مشغول ہوں۔ سب نمازیوں کے ساتھ قیام میں رہتا ہوں سب کے ساتھ رکوع میں چلا جاتا ہوں اور صف کے ساتھ سجدے میں بھی چلا جاتا ہوں۔
یعنی جن نمازیوں کے ساتھ میں نماز کے عمل میں مصروف رہتا ہوں وہ سب لوگ مجھے اپنی طرح نمازی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اِن لوگوں کو اِس بات کا ہرگز کوئی علم نہیںہوتا کہ میں نے نماز پڑھنے سے پہلے وضو کیا ہے یا نہیں ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ میرے کپڑے پاک ہیں کہ نہیں کسی کو نہیں معلوم کہ میں ایسی حالت میں ہوں کہ نہیں جس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا۔ اِن تمام باتوں کے سب لوگوں کے لیے جاننا اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔
ان تمام باتوں کا تعلق صرف اور صرف میری نیت اور خلوص سے ہوتا ہے۔ اگر میںنے نماز بغیر وضو کے ناپاک لباس میں اور نجاست کی حالت میںپڑھی ہے تو اِس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ میں نے نماز اللہ کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کو دکھانے کے لیے پڑھی ہے۔ جیسے بھی دکھانے کے لیے پڑھی ہے وہ غیر اللہ ہی ہو گا۔ اور غیراللہ کے لیے نما ز پڑھنا اُسے اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے مترادف ہوتا ہے جو کسی بھی صورت میں اللہ کو قبول نہیں ہو گا۔ دکھاوے کے اِس عمل کو ریاکاری کہا جائے گا۔ ریاکاری تو ابلیس نے بھی نہی کی تھی کیونکہ اُسے معلوم تھاکہ خدا مخلوقات کے ہرعمل کا ناصرف گواہ ہے بلکہ منصف بھی ہے لوگوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتاہے لیکن خدا کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ ہر چیز اور ہر بات کا جاننے والاہے۔
ریاکار عبادت کرنے والا بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اللہ اُس کے ہرعمل کے اندر باہر سے آگاہ ہوتا ہے وہ ریاکارانہ عبادت لوگوں کے لیے کرتا ہے تاکہ وہ تمام مقاصد حاصل کر سکے جن کے حصول کے لیے وہ لوگوں کے سامنے ریاکارانہ عبادت کرتا ہے کہتے ہیں اکبر بادشاہ کو بہروپیوں کو مات دینے کا فن آتا تھا وہ بڑے بڑے بہروپیوںکو شرطیں لگا کر پکڑ لیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بہروپیئے نے پکڑے جانے پر بادشاہ سلامت کے سامنے عہد کیا کہ اب کی بار وہ ایسا بہروپ دھارے گا جسے اکبر اعظم بھی بھانپ نا پائے گا۔ بادشاہ سلامت نے اُسے یہ موقع دیدیا اور بہت زیادہ انعام کا لالچ بھی دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ سالوں بیت گئے لیکن وہ بہروپیا پھر نظر نہ آیا۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ پیروں فقیروں اور درگاہوں پر جانے کا رسیا تھا۔ جودھا کی گود ہری کرانے کے کیے وہ پیدل شیخ سلیم الدین چشتی ؒ کے مزار تک ننگے پاؤں چل کر گیا تھا۔ اِس منت کے بعد اُسے ولی عہد نصیب ہوا تھا بادشاہ سلامت کو پتہ چلا کہ اس کی سلطنت میں ایک ایسا پارسا اور باکرامت بزرگ بھی رہ رہا ہے جسے دنیاوی لذتوں سے کوئی سروکار نہیں اور جو جنگلوں میں تنِ تنہا ایک جھونپڑی کے اندر ہر وقت عبادت میں خوش نودیٔ خداوند کے لیے مشغول رہتا ہے ناکسی کو ملتا ہے اور ناہی اپنے پاس کسی کو آنے کی اجازت دیتا ہے کیونکہ وہ اپنی عبادت میں خلل برداشت نہیں کرتا۔ سلطنت کے مخبروں نے اِس بزرگ کی کرامات معجزات اور پارسائی کے بارے میں ایسی ایسی خبریں پہنچائیں کہ بادشاہ سلامت نے فیصلہ کیاکہ وہ بنفس نفیس جا کر اُسکے آستانے پر حاضری دے گا تاکہ اپنی بادشاہت اور سلطنت کے لیے خیرو برکت کی دعائیںسمیٹ سکے۔
قصِہّ مختصر شہنشاہ ہند ظل الٰہی شاہی لاؤ شکر کے ساتھ دور دراز کا سفر طے کر کے جنگلوں کے اندر پہنچا اور بزرگ کے آستانے سے کچھ کوس دور پڑاؤ ڈالا۔ اُس زمانے کی شاہی روایات کے مطابق پہلے بادشاہ سلامت نے اپنے ایک وزیر کو غلاموں اور کینزوں کو زرو جواہر کے تحفوںاور نذارنوں کے ساتھ شاہی دستے کی صورت میں بھیجا تا کہ بادشاہ کی آمد اور آستانے پر حاضری کا مدعا بیان کرے۔ اس بزرگ نے تمام تحفے تحائف اور سونا چاندی کے طشت واپس کر دیے اور بادشاہ سلامت سے ملنے سے صاف صاف انکار کر دیا ۔
اس بے نیازانہ انداز پر اکبر بادشاہ کا تجسس اور بڑھا اور اُس نے پہلے کی نسبت زیادہ بیش قیمت تحفوں اور سونے چاندی کے سکوں کے ساتھ دگنی تعداد میں غلام اور کینزیں بزرگ کے آستانے پر بھیجیں لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ تیسری مرتبہ بادشاہ نے اپنا وزیر اعظم کواِس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ ِاس عظیم بزرگ سے بادشادہ سلامت کی قدم بوسی کی اجازت لے لے جو صرف اور صرف خلوص اور احترام پر مبنی ہو گی۔ وزیراعظم نے جس عاجزی اور انکساری کا اس موقع پر مظاہرہ کیا بزرگ نے صرف بادشاہ وقت اکبر اعظم کو تھوڑی دیر کے لیے تنہا اندر آنے کی اجازت دیدی۔ بادشاہ سلامت جب ادب واحترام کے بھرپور جذبات کے ساتھ جھک جھک کر جھونپڑی میں داخل ہوئے تو بزرگ نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''آخر میں تمہیں دھوکا دینے میں کامیاب ہو ہی گیا '' بادشاہ کچھ سمجھ نا پایا تو بزرگ نے اُسے بتایا کہ وہ درحقیقت وہی بہروپیا تھا جس نے بادشاہ کے ساتھ سالوں پہلے شرط لگائی تھی کہ اب کی مرتبہ وہ ایسا روپ دھارے گا کہ بادشاہ بالکل پہچان نہ پائے گا۔
بزرگ کے اِس انکشاف پر بادشاہ نے پوچھا کہ یہ سب محنت و مشقت اُس نے بادشاہ سے انعام و اکرام لینے کے لیے ہی تو کی تھی پھر اس نے زرو جواہر اور سونے چاندی کی لاتعداد سکوں کو دو مرتبہ کیوں ٹھکرایا؟ اس پر وہ بہروپیا بولا کہ بادشاہ کے زرو جواہرات سونے چاندی کے سکوں اور غلام و کینزوں کے نذرانے اُس نے اِس لیے ٹھکرا دیے جب اُسے احساس ہوا کہ جس روحانی مقام اور مرتبہ کا صرف روپ دھارنے پر شہنشاہ ہند اکبراعظم جیسا عظیم بادشاہ جنگل بیابان میں اُس کی جھونپڑی پر خود چل کا آ سکتاہے وہ روحانی مقام اور مرتبہ اگر اُسے حقیقت میں حاصل ہو جائے تو دنیا کی اور کون کون سی نعمتیں اور طاقتیں ہیں جو اُس کے قبضے میں نہیں آ سکتیں۔