پیس کر رکھ دینے والی مہنگائی

یہ بھی ایک ہولناک سچائی ہے کہ ملک کی 20 کروڑ آبادی میں سے صرف اعشاریہ 7 فی صد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں


شاہد سردار September 25, 2016

یہ بھی ایک ہولناک سچائی ہے کہ ملک کی 20 کروڑ آبادی میں سے صرف اعشاریہ 7 فی صد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حکومت ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کی بجائے بالواسطہ ٹیکس لگاکر وسائل کی کمی پوری کر لیتی ہے جو سراسر ظالمانہ اقدام ہے کیونکہ اس کا سارا بوجھ کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ترقیاتی اہداف کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں، ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ بات بھی میڈیا کے ذریعے منظرعام پرآ چکی ہے کہ موجودہ حکومت نے جتنے قرضے لیے ہیں، اتنے تو پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں لیے گئے اور اس کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ 8 ہزار روپے سے زائد قرضے کے ساتھ دنیا میں آ رہا ہے۔ حالیہ بجٹ میں عوام کے ساتھ ساتھ صنعت کاروں کے لیے بھی کوئی سہولت نہیں رکھی گئی۔

یہ حقیقت ہے کہ قومی بجٹ کا بنیادی مقصد عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کو یقینی بنانا ہوتا ہے، اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانے کی ہے تا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں اور بجٹ میں ان کاموں کی ترجیحات مقرر ہونی چاہیے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کو سب سے زیادہ اہمیت ملنی چاہیے۔ عام آدمی کی ضروریات کی اشیا مہنگی نہیں ہونی چاہیے، 14 ہزار روپے ماہانہ کی کم سے کم تنخواہ میں اوسط درجے کا ایک کنبہ بھی اپنا پیٹ نہیں پال سکتا۔ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں روپے کا اضافہ کرنیوالے قانون سازوں کوان غریبوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔

رمضان المبارک سے قبل حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مہنگائی پر قابو پا لیا جائے گا اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے گی لیکن حکومتی دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور اب بھی اشیا ضروریہ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں دکاندار گاہکوں سے منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں پھل اور سبزیاں، گوشت، دالیں، گھی یا تیل کی قیمت دکاندار منہ مانگی وصول کر رہے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹوروں پر فروخت ہونے والی اشیا کا معیار پہلے سے ناقص چلا آ رہا ہے اور وہاں بھی اجناس کی قیمتوں میں کوئی نمایاں فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سرکاری نرخنامہ پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کے لیے بنائی گئی ٹیمیں بھی غیر موثر ثابت ہوئی ہیں حالانکہ حکومت کی طرف سے ہونا یہ چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ضلع انتظامیہ کے اہلکاروں کو متحرک کر کے ضروری اشیا کی مہنگائی روکنے کے لیے فوری اقدامات، گراں فروشوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے۔ لیکن برسہا برس سے ہمارے ہاں یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جو چیزایک بار مہنگی ہو جائے وہ پھر کبھی سستی نہیں ہوتی اس لیے حکومت کو مہنگائی پر فوری کنٹرول کرنا ہو گا۔

ملک میں مہنگائی کی روک تھام کے حکومتی دعوؤں کے برعکس پچھلے کچھ عرصے میں بہت سی اہم اور جان بچانیوالی دواؤں کی قیمتوں میں تین سو فی صد تک کا ظالمانہ اضافہ تمام متعلقہ حکام اور اداروں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ کتنے ظلم اور ستم کی بات ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں نے خاموشی سے ادویات کی قیمتوں میں 20 فی صد تک کا ظالمانہ اضافہ کر دیا ہے اور کوئی ان سے باز پرس کرنیوالا نہیں۔ دوا بلاشبہ ایک واحد ایسی چیز ہے جسے ہر امیر اور غریب لازمی استعمال ہے غریب کھانا نہ کھائے لیکن ادھار لے کر کے حد یہ کے گھر کی قیمتی اشیا تک فروخت کر کے وہ دوائیں خریدنے پر خود کو مجبور پاتا ہے ملک میں پہلے ہی سے بہت سی وجوہات کی بنا پر خطرناک بیماریاں پوری طاقت سے عوام الناس پر حملہ آور ہیں۔

اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر، ہیپاٹائٹس جیسی عام بیماریوں کی ادویات پر ہوشربا اضافہ کر کے صارفین یا عوام سے کروڑوں روپے اضافی وصول کرنے کی روش عام ہو چکی ہے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں نیم جان عوام الناس کے لیے ادویات کی قیمتوں میں من مانے اضافے کا یہ بوجھ یقینا ناقابل برداشت ہے، قیمتوں میں تین چار گنا اضافے کا ہرگزکوئی جواز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کا بوجھ ٹوٹی ہوئی شکستہ لوگوں کی کمروں پر ڈال دینا باعث ملامت سے بھی کچھ زیادہ کا کام ہے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی بھی اس سلسلے میں خاموشی کیا معنی رکھتی ہے؟کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ وطن عزیز میں تنخواہ دار طبقہ ہی سب سے زیادہ اور باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ادا کرتا ہے اور مہنگائی کی سب سے زیادہ زد بھی اس پر پڑتی ہے کیونکہ اس کے پاس آمدنی کا دوسرا کوئی وسیلہ نہیں ہوتا اور ناجائز منافع خوری یا پھر دونمبر کے کام بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہوتے۔

ان حالات میں وہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے کہ حکومت اپنے محدود وسائل کے باعث سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کما حقہ اضافہ نہیں کر پاتی اور روز افزوں گرانی کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت نہیں ہوتی۔ اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کی ضروریات کا خیال رکھے اور کسی طبقے کو اس حال میں نہ چھوڑے کہ وہ جسم و جان کا رشتہ ہی برقرار نہ رکھ سکے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں معاشرے کے خوش حال اور پسماندہ طبقات میں پائی جانے والی خلیج کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو قابل ذکر مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں چونکہ ہر شعبہ جات کا باوا آدم ابتدا ہی سے نرالا چلا آ رہا ہے چنانچہ نیشنل سیونگ (قومی بچت) کے مرکز نے بھی اپنی تمام اسکیموں کی شرح منافع میں رد و بدل کرتے ہوئے اس میں مزید کمی کر دی ہے جس سے بیواؤں، بوڑھوں اور پنشنروں کی آمدنی کا واحد ذریعہ میں حد درجہ کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا بھر میں سیونگ اسکیمیں قومی معیشت کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہیں اور ان پر دیے جانے والے منافعے میں مسلسل اضافہ بھی کیا جاتا ہے قلیل جمع پونجی میں ریٹائرڈ زندگی گزارنیوالے باعزت طریقے سے گزار اوقات کر سکیں لیکن ہمارے ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ دولت مندوں اور با اثر لوگوں سے تو ٹیکس وصول نہیں کر سکتی لیکن پنشروں، بیواؤں اور اس نوع کے کم آمدنی والے غریب افراد جو پہلے ہی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ان کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتی، ہمارے حکمران قومی خزانے میں اضافے کے لیے ٹیکس ضرور لگائیں لیکن ایسے اقدامات نہ کریں جن سے عوام اور حکومت دونوں کو کوئی فائدہ نہ ہو۔

پوسٹل سرٹیفکیٹس اور دوسری ایسی اسکیمیں بند کرنے سے ملک کو پہلے وہ دو ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر نیشنل سیونگز کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تو اس کے انجام کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنے کی ضرورت نہیں۔کہتے ہیں خطہ زمین اور اہل زمین کے درمیان بکھری ہوئی اچھی باتوں اور عادتوں کو ایسے تلاش کرو جیسے پرندے اپنے لیے رزق ڈھونڈتے ہیں۔ اگر ہمارے ارباب اختیار یا ہمارے حکمران بھی اچھی باتیں، تعمیری کام اور مثالیں غیر ممالک سے تلاش کر کے انھیں اپنا شعور بنائیں تو اس سے ملک کی نہ صرف تقدیر بدل سکتی ہے بلکہ عوام کی غالب اکثریت کے بے رونق چہروں پر رونق منتقل ہو سکتی ہے۔

ان کے ناتواں کندھوں سے ہوشربا مہنگائی کا بار بھی اتر سکتا ہے سوال یہ ہے کہ ایسا کب اور کس دور میں ہو گا؟ کیا ہمارے لاکھوں، کروڑوں غریب عوام کی زندگیوں میں ایسا ممکن ہو جائے گا یا نہیں؟ کیونکہ زندگی کس قدر مختصر، بے اعتبار اور ناپائیدار شے کا نام ہے پھر بھی زندہ رہنے کی نامعلوم مدت کے لیے) انسان کیا کچھ نہیں کرتا کیونکہ حالات کی ابتدا کتنی ہی شاندارکیوں نہ ہو، ہر ہر ساعت، ہر لمحے موت کی آنکھ اسے گھورتے رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں