سائبر کرائم کے قوانین کی تیاری میں ایف آئی اے کے حکام رکاوٹ
3سال سے مجوزہ مسودے کی منظوری نہیں دی جاسکی، ارکان اسمبلی کی بھی عدم دلچسپی
تین سال سے معطل سائبر کرائم کے قوانین کے مجوزہ مسودے کی تیاری میں ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام رکاوٹ بن گئے ہیں جبکہ اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی کے سبب پارلیمانی کمیٹی تاحال تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار ہونے والے مسودے کی منظوری دینے میں ناکام ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چونکہ نئے قانونی مسودے میں ایف آئی اے کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے اور اہم نوعیت کے جرائم کے خلاف کارروائی کیلیے عدلیہ کی سپرویژن کو ضروری قرار دیا گیا ہے اس لیے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام اس قانون کے منظوری میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سائبر کرائم کے خلاف بنایا جانے والا ملکا کا پہلا جامع قانون پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈی ننس(پیکو) 2007 میں نافذالعمل ہوا تھا۔ اس قانون کے تحت کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل کو دیا گیا تھا ۔کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں واقع سائبر کرائم سرکلز نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز(این آر تھری سی) کے تحت کام کررہے ہیں۔
انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز، موبائل فون کمپنیز، صنعتکاروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پیکو کے قانون میں ایف آئی اے کو دیے جانے والے اختیارات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں مثبت اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران سال 2009 میں پیکو کا قانون میعاد ختم ہوجانے کی وجہ سے کالعدم ہوگیا اور حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سائبر کرائم سے متعلق نیا قانون تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کو دور کرنے کے بعد نافذالعمل ہوگا۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ایک سیلیکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ تمام متعلقہ افراد کی مشاورت سے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ تین سال سے زائد گذرجانے کے باوجود پارلیمانی کمیٹی تاحال نئے قانون کا حتمی مسودہ تیار نہیں کرسکی، جس کی وجہ سے گذشتہ تین سال سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکلز عملی طور پر معطل ہیں اور وہ صرف شہریوں کی درخواستیں وصول کررہے ہیں۔
جبکہ وہ ان درخواستوں پر کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ذرائع نے بتایا کہ معروف قانون دان بیرسٹر زاہد جمیل کی غیرمعمولی کوششوں کے نتیجے میں سائبر کرائم کے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جسے وزارت داخلہ کی ویب سائٹ کے ذریعے نہ صرف دیکھا جاسکتا ہے بلکہ اس قانون میں پائے جانے والے سقم کی نشاندہی یا دیگر تجاویز بھی دی جاسکتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی میں شامل اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تاحال مجوزہ مسودے کی حتمی منظوری نہیں دی جاسکی۔
زیادہ تر اراکین اسمبلی اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں اکثر شریک نہیں ہوتے یا پھر وہ اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پربغیر کسی معقول وجہ کے مسودہ قانون پر غیرضروری تنقید کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر سائبر کرائم ندیم بلوچ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ایف آئی اے کی جانب سے مختلف اعتراضات لگا کر ہر مرتبہ مجوزہ مسودے کی منظوری نہیں ہونے دیتے جبکہ دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز اس سلسلے میں مکمل طور پر اپنی رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چونکہ نئے قانونی مسودے میں ایف آئی اے کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے اور اہم نوعیت کے جرائم کے خلاف کارروائی کیلیے عدلیہ کی سپرویژن کو ضروری قرار دیا گیا ہے اس لیے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام اس قانون کے منظوری میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سائبر کرائم کے خلاف بنایا جانے والا ملکا کا پہلا جامع قانون پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈی ننس(پیکو) 2007 میں نافذالعمل ہوا تھا۔ اس قانون کے تحت کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل کو دیا گیا تھا ۔کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں واقع سائبر کرائم سرکلز نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز(این آر تھری سی) کے تحت کام کررہے ہیں۔
انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز، موبائل فون کمپنیز، صنعتکاروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پیکو کے قانون میں ایف آئی اے کو دیے جانے والے اختیارات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں مثبت اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران سال 2009 میں پیکو کا قانون میعاد ختم ہوجانے کی وجہ سے کالعدم ہوگیا اور حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سائبر کرائم سے متعلق نیا قانون تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کو دور کرنے کے بعد نافذالعمل ہوگا۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ایک سیلیکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ تمام متعلقہ افراد کی مشاورت سے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ تین سال سے زائد گذرجانے کے باوجود پارلیمانی کمیٹی تاحال نئے قانون کا حتمی مسودہ تیار نہیں کرسکی، جس کی وجہ سے گذشتہ تین سال سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکلز عملی طور پر معطل ہیں اور وہ صرف شہریوں کی درخواستیں وصول کررہے ہیں۔
جبکہ وہ ان درخواستوں پر کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ذرائع نے بتایا کہ معروف قانون دان بیرسٹر زاہد جمیل کی غیرمعمولی کوششوں کے نتیجے میں سائبر کرائم کے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جسے وزارت داخلہ کی ویب سائٹ کے ذریعے نہ صرف دیکھا جاسکتا ہے بلکہ اس قانون میں پائے جانے والے سقم کی نشاندہی یا دیگر تجاویز بھی دی جاسکتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی میں شامل اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تاحال مجوزہ مسودے کی حتمی منظوری نہیں دی جاسکی۔
زیادہ تر اراکین اسمبلی اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں اکثر شریک نہیں ہوتے یا پھر وہ اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پربغیر کسی معقول وجہ کے مسودہ قانون پر غیرضروری تنقید کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر سائبر کرائم ندیم بلوچ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ایف آئی اے کی جانب سے مختلف اعتراضات لگا کر ہر مرتبہ مجوزہ مسودے کی منظوری نہیں ہونے دیتے جبکہ دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز اس سلسلے میں مکمل طور پر اپنی رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں۔