شمال مشرقی بھارت میں تازہ جھڑپیں 35جاں بحق

شمال مشرقی بھارت میں جھڑپوں کے نتیجے میں جلائے ہوئے گھر۔


APP July 25, 2012
شمال مشرقی بھارت میں جھڑپوں کے نتیجے میں جلائے ہوئے گھر۔ فوٹو اے ایف پی

بھارت کے دور دراز شمال مشرق میں نسلی تشدد سے 35 افراد ہلاک ۔ علاقے مین کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ انتہاپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم۔

ریاست آسام کے مغرب میں مسلم آباد کاروں اور بوڈو قبائلی گرہوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے تقریباَ َ 40،000 سے زائد دیہاتی سرکاری عمارتوں، اسکولوں اور امدادی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور۔

جمعہ کے روز شروع ہونے والے علاقائی فسادات کو روکنے کے لئے بھارتی فوجیوں اور نیم عسکری فوجی علاقے گشتت کررہے ہیں۔

ایک مقامی سرکاری افسر گراما موہلاری جو کہ بوڈو دہشتگردی کونسل کے ہیڈ ہیں نے اے ایف پی کو بتایا کہ گذشتہ رات سے کئی مقامات پر نذرآتش اور پرتشدد واقعات شروع ہوگئے تھے جس کی بنیاد پر اب تک مرنے والوں کی تعداد 22 ہوگئی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ صورت حال کشیدہ ہے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ سیکورٹی فورسز، خاص طور پر فوج کے سپاہیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔

مقامی ٹیلی ویژن چینلز نے کئی گھروں کی تصاویر نشرکی ہیں جنھیں انتہاپشندوں کی طرف سے نذر آتش کیا جارہا ہے۔

آسام جنگلات وزیرروکی بل حسین نے کہا ہے کہ صلع کوکراجھار سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ غیر معینہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ 24 گھنٹوں کے دوران پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں نے اپنی گشت تیز کردی ہے۔

پولیس نے گذشتہ شب بڑھتے ہوئے فسادات کے پش نظرانتہاپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس حکم کے مطابق کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے کو بغیر کسی انتظار کے گولی مار کر ہلاک کردیا جائے۔

نظرالسلام سینیئر وزیر مملکت نے اے ایف پی سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ضرورت مندوں کو خوراک اور ادویات فراہم کررہے ہیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ کے مطابق لڑائی تب شروع ہوئی جب دو مسلمان طالب علم رہنما کو کوکراجھار میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں بوڈو گروپوں پر حملہ کردیا تھا۔

بھارت کے شمال مشرقی ، جس میں ایک تنگ زمین کے پل کی طرف سے ملک کے باقی حصوں سے منسلک کرتی ہے وہاں نسلی اورعلیحدگی پسند گروپوں کے درمیان صدیوں سے اختلافات چلے آرہے ہیں، اگرچہ بعض سب سے بڑی باغی تحریکوں نے حال ہی میں حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کردیئے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں