اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے عالمی اردو کانفرنس کا مطالبہ

آخری روز کے پہلے سیشن کا آغاز ’’اردو کا عہد آفریں مزاح‘‘ کے حوالے سے اجلاس، معروف مزاح نگاروں پر گفتگو،کانفرنس ختم

کراچی: عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز مشاعرے میں کشور ناہیداپناکلام پیش کررہی ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں4روز سے جاری عالمی اردو کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

کانفرنس میں ہندوستان، برطانیہ،سائوتھ افریقہ سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، مختلف اسکول کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا وطالبات سمیت اردو زبان سے محبت اوررغبت رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی، علاوہ ازیں پانچویں عالمی اُردو کانفرنس میں پیش کی گئیں اہم قراردادوںکو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، یہ قراردادیںآرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے اختتامی سیشن میں پیش کیں، قراردادوں میں کہا گیا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دیاجائے، اُردو اور دیگر تمام قومی زبانوں کے مابین روا بط کے فروغ کیلیے حکومتی سطح پرعملی اقدامات کیے جائیں۔

کتب بینی کے فروغ کیلیے طباعت، اشاعت اور کاغذکم قیمت پرفراہمی کااہتمام کیاجائے،کتابوں کی ترسیل میں بہتری کیلیے ڈاک خر چ میں حکومتی سطح پر خصوصی رعایت دی جائے،کراچی میںلغت بورڈ کو ایک علیحدہ خود مختار ادارے کا درجہ دیا جائے، اس کے علاوہ بھی دیگر قراردادیں منظور کی گئیں، عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز کے پہلے سیشن کا آغاز ''اردو کا عہد آفریں مزاح''کے حوالے سے سترہواں اجلاس ہواجس میں معروف مزاح نگاروں پر گفتگو کی گئی اور شعرا کے اشعار سنائے گئے۔

پروگرام کی صدارت کے فرائض فہمیدہ ریاض نے جبکہ نصرت علی نے نظامت کے فرائض انجام دیے،آرٹس کونسل کی اسپیشل ایونٹ کمیٹی کے چیئرمین اسجد حسین بخاری نے ضمیر جعفری کے تحت الفاظ میں ان کے اشعار پیش کیے، ممتاز ادیب انجم رضوی نے ابن انشا کے کچھ اقتباسات پیش کیے، ان کی مزاح نگاری کے خوبصورت اقتباسات سن کے حاضرین محظوظ ہوئے ،آرٹس کونسل کی آڈیو ویژول کمیٹی کے چیئرمین اقبال لطیف نے پطرس بخاری کے مضمون بعنوان ''کتے'' پیش کیا، نصرت علی نے جگر مراد آبادی، مجروح سلطان پوری، مجنوں گورکپوری، قمر جلالوی ، خمار بارہ بنکوی، حمایت علی شاعراور جوش ملیح آبادی کے انداز میں ترنم کے ساتھ کلام پیش کیا،اس کے علاوہ انھوں نے دلاور فگار کا کلام جوش و جذبے کے ساتھ پیش کیا اور مشتاق احمد یوسفی کے افسانے بعنوان''بشارت''سے اقتباس پیش کیے۔

دوسرا سیشن بعنوان''اردو ادب عالمی تناظر میں'' سے منعقد ہوا، سیشن سے پہلا خطاب ممتاز شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض نے کیا، انھوں نے کہا ہے کہ اردو صر ف پاکستان کی زبان ہی نہیں ہندوستان کی زبان بھی ہے، عالمی ادب میں ترکی، عربی اور ہندوستانی زبان میں بھی شامل ہیں، اس تنا ظرمیںاردو ادب کہیں بھی پیچھے نہیں، اس موقع پر ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین ، پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی(بھارت) ،درمش بلگر(ترکی)عامر حسین (برطانیہ)، سرور غزالی(جرمنی)فرہاد زیدی ، ڈاکٹر نعمان الحق ، ڈاکٹر آصف فرخی اور محمد احمد شاہ بھی موجود تھے، ترکی سے آئے ہو ئے مندوب درمش بلگر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کے کچھ حصے کا ترکی زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے، انقرہ یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم شروع ہو چکی ہے، ہم نے بھی وہیں سے اردو سیکھی ہے۔




انقرہ کے علاوہ تین بڑی یونیورسٹی میں اردو کے شعبے قائم ہو چکے ہیں اور میں نے کئی طالب علموں کو اردو مفت سیکھائی ہے،اقبال، پطرس بخاری،حسرت موہانی اور فیض احمد فیض کے تراجم ہو چکے ہیں، جرمنی سے آئے ہو ئے مندوب سرور غزالی نے کہا کہ وہاں کے معاشرے کے امرا اور ادیبوں نے اردو کو کسی حد تک جاننے کی کوشش کی ہے، اقبال کے قیام کی وجہ سے وہاں ایک اردو کا شعبہ قائم ہوا لیکن ابھی وہاں زبان کو تقویت نہیں ملی، میں سب سے پہلے یہ کہنا چا ہتا ہوں کہ عالمی تناظر کس چڑیا کا نام ہے۔

ایک تو مسلمانوں کی تہذیب ہے اور ایک بر صغیر کی تہذیب ہے جس کا اپنا تناظر ہے جو ان میں اپنا کام سا منے لا ئے گا وہ بعد میں عا لمی تناظر میں آئے گا، اب ہم دیکھ رہے ہیںکہ جیسے'' طلسم ہوشربا '' کے ترجمے بعد میں ہو رہے ہیں اور مغرب میں اردو پھیل رہی ہے، اس موقع پر فرحت پروین نے کہا کہ مجھے اس بات کی بہت خو شی ہو رہی ہے کہ ہماری زبان کو دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے پہلے اس کی رفتار کم تھی اب بہت تیز ہو گئی ہے، مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ساری زند گی پاکستان میں گزاری اور سارے افسانے امریکا کیلیے لکھے جبکہ حقیقت یہ نہیں، میں نے وہاں مقیم ہمارے لو گوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا ہے، ڈاکٹر نعمان الحق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں کہ عالمی تناظر سے ہٹ کرجیا جائے اب ایسا نہیں ہے، اردو کے بارے میں یہ بھی غلط فہمی پیدا کی گئی ہے کہ اردو یہاں کی نہیں بلکہ باہر کی زبان ہے۔

ہمارا جو افسانہ اور ناول ہے مغرب سے آیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کی جڑیں اسلامی تمدن میں موجود ہیں، اگر قرۃ العین حیدر اپنے ناول کو انگریزی میں ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کی اجازت دے دیتیں تو شاید انھیں بہت بڑا مقام ملتا، ہماری غزل اتنی پائیدارہے جو اب تک ختم نہیں ہوئی، برطانیہ سے آئے ہوئے مندوب عامر حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان کا سفر انتظارحسین کی تحریروں سے شروع ہوا، باہر کے لوگ تراجم میں اردو افسانہ اور ناول پڑھتے ہیں اور ہمارے حالات اور واقعات کو جانتے ہیں، اردو کی کہانی انگریزی تراجم میں مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں، پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے انتظار حسین کی باتوں سے کچھ تحریک ملی ہے۔

عالمی تناظر کا مطلب صرف مغرب ہی نہیں ہے، ہمارا مقا می تناظر عالمی تناظر کی ضد نہیں، ادب اور اخلاق کا تعلق یا سیاست اور اخلاق کے تعلق پر دنیا کی سب زبانوں میں لکھا گیا ہے اور بہت ساری چیزیں ایسی لکھی جا تی ہیں کہ جن کا تعلق لکھنے والے کے ساتھ ہو تا ہے ان کے تراجم نہیں ہوئے، ایک اہم بات یہ ہے کہ اردو میں علا قا ئی زبانوں کا ترجمعہ کم کیا گیاہے، فہمیدہ ریاض اور انتظار حسین کی تحریریں آئیڈیل کے طور پر پڑھی جاتی ہے معروف صحافی فرہاد زیدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اردوکو عالمی تناظر میں دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی نظر آرہی ہے، ہم نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن ایک چیز کہ اردو کے فروغ کے لیے جذبہ معدوم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مجھے امید ہے کہ اس قومی زبان کی ترقی کے لیے مزید کام کریں گے۔
Load Next Story