خواجہ سرا بھی انسان ہیں
علیشاہ انورپچیس برس کاخواجہ سرا تھا۔بدقسمتی توان کے ساتھ پیدائش سے ہی ہم رکاب ہوتی ہے
علیشاہ انورپچیس برس کاخواجہ سرا تھا۔بدقسمتی توان کے ساتھ پیدائش سے ہی ہم رکاب ہوتی ہے۔اندازہ نہیں تھاکہ موت کے دورانیہ میں بھی دست بدقسمتی سرپردائم رہے گا ۔ پشاورمیں بسنے والا یہ نوجوان لڑکا یا لڑکی ادنیٰ ترین زندگی گزاررہا تھا۔بھیک مانگنا،شادی بیاہوںمیں رقص کرنا ذریعہ آمدن تھا۔2015ء میں ایک شادی کی تقریب میں گیا۔ محفل میں لوگ جھگڑ پڑے۔ گولیاں چلانا شروع ہوگئیں ۔خواجہ سرا جان بچانے کے لیے بھاگنے لگا بلکہ چھپنے لگا۔ مگربدقسمتی نے یہاں بھی اس کا ساتھ نہیںچھوڑا ۔ علیشاہ انورکو آٹھ گولیاں لگیں۔نزدیک ترین ایک سرکاری اسپتال تھا۔لہذاجیسے تیسے اس کے ساتھی اسے اسپتال لے آئے۔
یہاں سے انسانی رویوں کی تنزلی کی ایسی داستان شروع ہوتی ہے جس سے ہمارے معاشرے کی اصل بلکہ برہنہ تصویرسامنے آجاتی ہے۔انورکے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ بے ہوشی اورہوش کی منزل کے درمیان ہاتھ جوڑ جوڑ کر ڈاکٹروں سے فوری علاج کی بھیک مانگ رہاتھا۔اس کے ساتھی خواجہ سرا بھی اسپتال کے عملے کی منتیں کررہے تھے۔ مگرڈاکٹروں کے ذہن میں عجیب ساسوال تھا۔انورکومردانہ وارڈمیں داخل کیاجائے یا زنانہ وارڈ میں۔ جب مردانہ وارڈ میں لے جایاگیا تو ہنگامہ کھڑاہوگیا۔
مریضوں نے شور مچانا شروع کردیاکہ وہ کبھی برداشت نہیں کرینگے کہ ایک ہیجڑے کو وارڈ میں داخل کرکے علاج کیاجائے ۔ ڈاکٹرپریشان ہوگئے۔ انور کو اب زنانہ وارڈکی طرف لے جایا گیا۔ یاد رہے کہ جسم میں آٹھ گولیاں پیوست تھیں۔اس کی جان بچانے کی کوششیں اولین اہمیت کی حامل تھیں۔مگر نہیں، فیصلہ یہ ہونا تھاکہ انورکوکس وارڈ میں طبی امداد مہیاکی جائے۔ اسٹریچرپرلیٹے ہوئے نوجوان کی نبض ڈول رہی تھی۔ ساتھ آنے والے خواجہ سرا اسپتال کی انتظامیہ کے سامنے فریاد کر رہے تھے۔ زنانہ وارڈمیں منتقل کیاگیاتووہاں خواتین نے شورمچادیاکہ ایک مردکو وارڈمیں کیسے داخل کیاگیا۔اسپتال کے منتظمین اورعام لوگوں کا رویہ غیرمہذب اورغیرشائستہ تھا۔دم توڑتا خواجہ سرا اوراس کے ساتھی لوگوں کے لیے تفریح کا سامان بن چکے تھے۔
لوگ ان کے اردگردجمع ہوکراستہزایہ سوالات کررہے تھے۔ پوچھ رہے تھے کہ ناچ گانے کے فنکشن کے کتنے پیسے لیتے ہیں۔لیبارٹری میں ایک مسیحا نے توخون کامعائنہ کرنے سے ہی انکارکردیا۔معالج کے مطابق علیشاہ کاخون ایڈز زدہ ہوسکتاہے۔اندازہ کیجیے کہ ایک انسان دم توڑ رہا ہو، اس کے ساتھی زاروقطاررورہے ہوں مگر لوگ چھیڑخانی کررہے ہوں۔آخرمیں انورکوایک کمرے میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی مگردیرہوچکی تھی۔ خون بہنے اور مناسب طبی امدادنہ ملنے پروہ اس سفرپرروانہ ہوگیاجس سے کوئی کبھی واپس نہیں آیا۔یہ قدرتی موت تھی یاقتل یاخون ناحق،اس کا فیصلہ آپ خودکیجیے۔علیشاہ کے ساتھی اپنے مردہ دوست کی لاش لے کرواپس چلے گئے۔ لوگ پیچھاکرتے رہے اوران پرآوازیں کستے رہے۔
اس اندوہناک واقعہ پرکسی قسم کاکوئی ردِعمل نہیں ہوا۔انورکی موت کوبالکل اس طرح لیاگیاجیسے کوئی جانورگاڑی کے نیچے آکرمرجاتاہے۔پھریہ خبرمیڈیاکے ذریعے لوگوں تک پہنچ گئی۔ ٹی وی چینلزاوراخبارات نے پورے معاملہ کی تحقیقاتی رپورٹنگ شروع کردی۔سچ سب کے سامنے آگیا۔ واقعہ کی گونج بین الاقوامی سطح پربھی سنائی دی گئی۔
حقیقت سامنے آنے کے بعدکیاکوئی کیس رجسٹر ہوا،کیاکوئی قانونی کارروائی ہوئی ۔قطعی طورپرکچھ بھی عرض کرنا ناممکن ہے۔ واقعہ کی زوردارمذمت اوراس کے بعدخاموش سناٹا۔انجام کیا ہوا،کسی کوکچھ معلوم نہیں۔پتہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں عام لوگوں کے ساتھ جانوروں جیساسلوک روا رکھا جاتاہے ، ایک کمزورترین صنف کی کیا حیثیت ہے۔ تھوڑی سی تحقیق کیجیے۔خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے لرزہ خیزواقعات ہرقصبہ،گلی اور ہر شہر میں نظرآئینگے۔
خداوندکریم نے انسانوں کومرد اورعورت کی شکل میں پیداکیا۔مگران بدقسمت لوگوں کوبھی خدا نے ہی زمین پر بھجوایا ہے۔ عورت اورمردکے درمیان تشخص کے حامل یہ لوگ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتے۔انھیں بھی قدرت کے وہی ہاتھ بناتے ہیں جوعام انسانوں کوترتیب دیتے ہیں۔خواجہ سراکے اپنے اختیارمیں قطعاًنہیں ہے کہ وہ پیدا ہویانہ ہو۔اگرپیداہوبھی جائے توکس ملک میں جنم لے؟ قدرت کے ان فیصلوں کے سامنے بے بس ہیں۔ پاکستان میں پیداہوتے ہی ایک عذاب کی آگ میں جلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ان میں بھی معاشی حالات کابہت عمل دخل ہے۔
امیرگھرانوں میں پیداہونے والے ہیجڑے بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اچھی نوکریاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔کاروباریافیشن انڈسٹری میں کہیں نہ کہیں کھپ جاتے ہیں۔ انھیںہمارے ملک میں والدین کی بہتر معاشی حیثیت کی وجہ سے متعدد سماجی مشکلات کاسامنا نہیں کرناپڑتا۔مگرجب اس جنس کاکوئی بچہ غریب یامتوسط گھرانے میں پیداہوتاہے توگھرپر قیامت گزرجاتی ہے۔پہلے توکسی کوکانوں کان خبرنہیں ہونے دی جاتی۔ بچے کوگھرسے باہرنکلنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔والدین کا رویہ بھی اس کے ساتھ اتنا مشفقانہ نہیں ہوتاجتنا دوسرے بچوں سے روارکھاجاتا ہے۔
یہ بچے شفقت پدری سے محروم رہتے ہیں۔جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، انھیں احساس ہوجاتا ہے کہ وہ عام لڑکوں اورلڑکیوں سے مختلف ہیں۔یہ بچے اکثر کمروں میں محدودہوکررہ جاتے ہیں۔ اس شدت کااحساس کمتری ہوجاتاہے کہ پُراعتماد بات کرنے کی استطاعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔گھروالوں کے نامناسب رویہ اور لوگوں کے طعنوں سے تنگ آکر اکثر خواجہ سرا کسی نہ کسی عمرمیں گھرچھوڑنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ اپنے جیسے لوگوں کے گروہوں میں رہناشروع کردیتے ہیں۔ ایک جیسے بدقسمت اورعذاب میں مبتلاگروہ ان کی شناخت بن جاتے ہیں۔
غیرجانبدارتحقیق نے ایک اورسچ سے بھی پردہ اُٹھایا ہے۔اگرکسی خواجہ سراکوپتہ چلتاہے کہ کسی گھرمیں انکاہم جنس بچہ یابچی پیداہواہے توباجماعت گھروں کارخ کرلیتے ہیں۔والدین کوبتاتے ہیں کہ بچہ ان کے حوالے کردیاجائے کیونکہ وہ اس کی پرورش نہیں کرسکتے۔غریب گھرانوں کے افرادتو پہلے ہی ظلم کی چکی میں پِس رہے ہوتے ہیں لہذا قدرت کافیصلہ تسلیم کرتے ہوئے ننھامناسابچہ خواجہ سراؤں کے گرو کے حوالے کردیتے ہیں۔اب اپنے لختِ جگرسے ان کاکوئی تعلق نہیں رہتا۔اکثراوقات تومعصوم بچوں کوعلم ہی نہیں ہوتاکہ وہ کون ہیں،ان کاوالداوروالدہ کون ہیں۔کس شہرمیں پیداہوئے تھے۔
کسی شہرمیں چلے جائیے۔مختلف چوکوں اور شاہراؤںپرخواجہ سراخواتین کے کپڑوں میں ملبوس بھیک مانگتے ہوئے نظرآئینگے۔تعلیم اورروزگارکانہ ہونا بھکاری یا فقیربنادیتاہے۔ضروریات زندگی کوپورا کرنے کے لیے ان میں سے اکثریت اس قدیم ترین پیشہ سے وابستہ ہوجاتے ہیں جسکوکوئی مذہب، ریاست، حکومت اورقانون نہیں روک سکتا۔ کسی بھی مقام پران کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، ہرجگہ تضحیک کانشانہ بنتے ہیں۔لوگ انکاحلیہ دیکھ کرہنستے ہیں،آوازیں کستے ہیںاوربازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔ خواجہ سراشادی بیاہوں اوردیگر سماجی تقاریب میں جاکرناچ گانے سے تھوڑے سے پیسے کمانے میں ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں مگر روز گارکے تمام باعزت دروازے ان پر بندہیں۔
عرصہ درازسے انھیںکوئی قانونی،سماجی اور شخصی حقوق نہیں ملے۔سپریم کورٹ نے چندسال پہلے شناختی کارڈ بنوانے کاقانونی حق دیاہے۔اس سے پہلے ان لاچارلوگوں کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ فیصلے کے حوالے سے جائیدادمیں حصہ دینے کا موروثی حق بھی تسلیم کیاگیاہے۔ووٹ ڈالنے کے بنیادی حق کوبھی مانا گیاہے۔عدالت کے فیصلہ پر کتناعمل کیاگیا،اس پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے ملک میں کسی قسم کے کوئی اعدادوشمارنہیں ہیں کہ پورے پاکستان میں کتنے خواجہ سرا موجود ہیں۔ہمیں تواپنے ملک کی اصل آبادی تک کاپتہ نہیں ہے توان بے چارے خواجہ سراؤں کی تعدادگننے کاوقت کس کے پاس ہوگا۔
ملک میں طاقتورطبقیکے علاوہ کسی کے لیے بھی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ ایک فیصد مقتدرلوگ ملکی وسائل پرقابض ہیں اورانھوں نے عام آدمی کو جانور کی سطح پرپہنچادیاہے۔اس سوسائٹی میں باعزت رہنے کے جائزطریقے کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں،توان خواجہ سراؤں کی غربت اورحیثیت پرکون بات کریگا۔جہاں عام آدمی بے حیثیت ہے،وہاں سماج کے سب سے کمزورفریق کے حق کاذکرکون اورکیوں کرے گا۔
جہاں جہالت،غربت اورمنافقت کا دور دورہ ہو، وہاں ان غریبوں کوطبی علاج،ملازمت اورانسانی مقام کون دلوائے گا۔ہمارا سماجی رویہ تو بالکل عیاں ہے۔ ہم خواجہ سراؤں کے وجودکوہی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کوانسان ہی نہیں مانتے۔انھیں تضحیک کی عینک سے دیکھ کرایک ایسی مخلوق سمجھتے ہیں جوانسان اورجانورکے درمیان ہے یا شائد جانورہے۔مگروہ بھی خداکے بنائے ہوئے جیتے جاگتے انسان ہیں جنھیں تکلیف بھی ہوتی ہے،دردبھی ہوتاہے اور غم کے بادل بھی برستے ہیں۔آپ کچھ نہیں کرسکتے مگرکم ازکم خواجہ سرا کوانسان توسمجھیے!