جنگ یا امن تین بیانیے
یشونت سنہا صاحب مقبوضہ کشمیرکے اُڑی سیکٹر میں مرنے والےاٹھارہ بھارتی فوجیوں کے حوالے سےپاکستان کے خلاف بہت طیش میں ہیں
''ہم پاکستان سے امن چاہتے ہیں لیکن ہماری حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات جنگ کے ذریعے ہی امن حاصل ہو سکتا ہے۔'' یہ دھمکی آمیز الفاظ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ یشونت سنہا کے ہیں۔ سنہا بھارت کی برسرِ اقتدار پارٹی، بی جے پی، کے سینئر رکن بھی ہیں۔ ان کے یہ الفاظ 22 ستمبر 2016 کو بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' میں شایع ہوئے ہیں۔
یشونت سنہا صاحب مقبوضہ کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں مرنے والے اٹھارہ بھارتی فوجیوں کے حوالے سے پاکستان کے خلاف بہت طیش میں ہیں کہ ان کا بھی دیگر مقتدر بھارتیوں کی طرح خیال (خام) ہے کہ اس سانحہ میں پاکستان کا دستِ تعاون کار فرما ہے۔ سنہا کہتا ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان کی پیدا کردہ سردردی سے بھارت کو نجات حاصل کر ہی لینی چاہیے کہ پاکستان نے پہلے 2 جنوری 2016ء کو پٹھانکوٹ اور اب 18 ستمبر 2016ء کو اُڑی کے بھارتی فوجوں اڈوں پر حملے کر کے صبر کا پیمانہ چھلکا دیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے نریندر مودی کو تین ''قیمتی'' مشورے بھی دے ڈالے ہیں: ''(۱) نومبر 2016ء کو اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں بھارت ہرگز شرکت نہ کرے۔
بھارت کوشش کرے کہ سارک کے باقی ممالک بھی اسلام آباد نہ جا سکیں تا کہ پاکستان کو سفارتی سزا دی جا سکے۔ (۲) بھارت نے پاکستان کو MFN (موسٹ فیورٹ نیشن) کا جو درجہ دے رکھا ہے، اسے واپس لیا جائے کیونکہ کئی برس گزرنے کے باوجود پاکستان نے بدلے میں بھارت کو ابھی تک یہ درجہ نہیں دیا ہے حتی کہ اس سلسلے میں پاکستان نے SAFTA کی سفارش بھی ماننے سے انکار کر دیا (۳) پاکستان چونکہ بھارت کا دشمن ملک ڈیکلیئر ہو چکا ہے، اس لیے وزیرِاعظم مودی پر لازم ہے کہ وہ کستان سے کیا گیا پرانا سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنے والے تمام دریائی پانیوں پر مکمل قبضہ کر لیں۔ مسز اندرا گاندھی نے 1971 میں پاکستان کے خلاف جس جرأت کا مظاہرہ کیا تھا، نریندر مودی کو بھی اب اسی جذبے سے کام لینا ہو گا۔''
یشونت سنہا نے طبلِ جنگ بجانے میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا سابق وزیرِخارجہ امن کے برعکس، جنگ کے حق میں اتنی بھی غیر محتاط زبان استعمال کر سکتا ہے!! بی جے پی اور آر ایس ایس کے وابستگان سے مگر ہر زبان کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بھارتی سیکرٹ ایجنسی ''را'' کے سابق چیف امرجیت سنگھ دولت نے مگر پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجانے اور آگ پر تیل چھڑکنے سے گریز کیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنے انٹیلیجنس تجربات اور تادیر مقبوضہ کشمیر میں خدمات انجام دینے کے باعث جانتے ہوں گے کہ اُڑی سیکٹر کا سانحہ محض ڈرامہ ہے، اسی لیے انھوں نے بھارتی کار پردازوں کو جنگ سے باز رہنے اور قیامِ امن کے لیے پاکستان سے فوری اور اعلیٰ سطحی مکالمہ کرنے کا مشور دیا ہے۔
امرجیت سنگھ دولت نے 20 ستمبر 2016ء کو بھارتی روزنامہ ''دی ہندو'' میں لکھے گئے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں یوں کہا ہے: ''دس سال قبل بھی دہشتگردوں نے کالُو چک پر حملہ کیا تھا۔ پھر ایسا ہی حملہ ممبئی ہوٹل، بھارتی پارلیمنٹ اور کارگل میں ہوا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ کو بروئے کار لا کر اور مکالمے کی بنیاد پر جنگ جیتی اور اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہوا۔ اب اُڑی کا واقعہ پیش آیا ہے تو بھی پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی بساط ہی بچھانا ہو گی۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کو فوری طور پر کسی تیسرے ملک میں ملاقات کرنی چاہیے۔ اس سے قبل بھی تو بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور پاکستانی قومی سلامتی مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے ایک تیسرے ملک میں باہمی ملاقات کر کے ایک الجھے سنگین مسئلے کو سلجھانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ یہی نسخہ اب اُڑی کے معاملے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔''
مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے فوجی ہیڈکوارٹر میں اٹھارہ بھارتی فوجیوں کے مرنے کا بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف جو طوفان اٹھا رکھا ہے، اس پیش منظر میں یہ توقع کم کم ہے کہ وہ امرجیت سنگھ دولت ایسے لوگوں کے مشورے پرکان دھرے گا۔ بھارتی ضد کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی عسکری قیادت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے۔ پشاور تا لاہور موٹروے پر جنگی طیاروں کے اترنے، اڑنے کی مشقیں جاری ہیں۔ قوم کا مورال بھی بلند ہے۔ یہ لمحات لیکن مشتعل ہو کر دشمن کے خلاف کوئی غیرحکیمانہ اقدام کرنے کے نہیں ہیں۔
پوری تیاری مگر ضروری ہے۔ یہ بھی بے حد ضروری ہے کہ عالمی ماحول پاکستان مخالف نہ رہے؛ چنانچہ پاکستان کے تین سابق خارجہ سیکریٹریوں (انعام الحق، ریاض کھوکھر، ریاض محمد خان) نے اکٹھے ہو کر، اپنے بیش بہا تجربات کے پس منظر میں، وزیراعظم جناب نواز شریف کی حکومت کو چند مشورے دیے ہیں، جو وطنِ عزیز کے ایک معروف انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر ایک آرٹیکل کی شکل میں شایع ہوئے ہیں۔ امورِ خارجہ کے ان تینوں ماہرین اور دانشمندوں نے یوں لکھا ہے: ''پاکستان کو غیر معمولی خطرناک حالات کا سامنا ہے۔
ایک طرف بھارت دشمنی کر رہا ہے اور دوسری جانب افغانستان۔ ایسے میں او آئی سی اور چین کی طرف سے پاکستان کو یقین دہانیاں حاصل کرنا لازمی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر کو دبانے میں ناکام ہو کر بھارت کا نزلہ پاکستان پر گر رہا ہے۔ امریکا اپنی غلطیوں کی بنیاد پر افغانستان میں جس طرح ناکام ہوا ہے، اس کا غصہ بھی وہ پاکستان پر نکالنے کے درپے ہے۔ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ ایل او سی کے آرپار قیادت سے گہرے روابط رکھے اوراس تاثر کو بھی بہرحال ختم کرنا ہو گا کہ ضربِ عضب آپریشن میں بعض پسندیدہ طالبان سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔''
بھارت نے بڑی چالاکی سے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ کامیابی اگرچہ اسے کوئی نہیں ملی ہے لیکن امریکی اور یورپی میڈیا میں پاکستان کا نام بدنام کرنے والے ضرور سامنے آئے ہیں۔ پاکستان مخالف بننے والی اس فضا کو تحلیل کرنے کے لیے پاکستان کے تینوں سابق سیکریٹری خارجہ حضرات کے مشوروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ روشنی اور گائیڈنس تو جہاں سے ملے، لے لینی چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اگر وکرم سنگھ اور اجیت ڈوول ایسے ریٹائرڈ بیوروکریٹوں کے تجربات سے فائدے اٹھا سکتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم صاحب کیوں نہیں؟
یشونت سنہا صاحب مقبوضہ کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں مرنے والے اٹھارہ بھارتی فوجیوں کے حوالے سے پاکستان کے خلاف بہت طیش میں ہیں کہ ان کا بھی دیگر مقتدر بھارتیوں کی طرح خیال (خام) ہے کہ اس سانحہ میں پاکستان کا دستِ تعاون کار فرما ہے۔ سنہا کہتا ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان کی پیدا کردہ سردردی سے بھارت کو نجات حاصل کر ہی لینی چاہیے کہ پاکستان نے پہلے 2 جنوری 2016ء کو پٹھانکوٹ اور اب 18 ستمبر 2016ء کو اُڑی کے بھارتی فوجوں اڈوں پر حملے کر کے صبر کا پیمانہ چھلکا دیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے نریندر مودی کو تین ''قیمتی'' مشورے بھی دے ڈالے ہیں: ''(۱) نومبر 2016ء کو اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں بھارت ہرگز شرکت نہ کرے۔
بھارت کوشش کرے کہ سارک کے باقی ممالک بھی اسلام آباد نہ جا سکیں تا کہ پاکستان کو سفارتی سزا دی جا سکے۔ (۲) بھارت نے پاکستان کو MFN (موسٹ فیورٹ نیشن) کا جو درجہ دے رکھا ہے، اسے واپس لیا جائے کیونکہ کئی برس گزرنے کے باوجود پاکستان نے بدلے میں بھارت کو ابھی تک یہ درجہ نہیں دیا ہے حتی کہ اس سلسلے میں پاکستان نے SAFTA کی سفارش بھی ماننے سے انکار کر دیا (۳) پاکستان چونکہ بھارت کا دشمن ملک ڈیکلیئر ہو چکا ہے، اس لیے وزیرِاعظم مودی پر لازم ہے کہ وہ کستان سے کیا گیا پرانا سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنے والے تمام دریائی پانیوں پر مکمل قبضہ کر لیں۔ مسز اندرا گاندھی نے 1971 میں پاکستان کے خلاف جس جرأت کا مظاہرہ کیا تھا، نریندر مودی کو بھی اب اسی جذبے سے کام لینا ہو گا۔''
یشونت سنہا نے طبلِ جنگ بجانے میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا سابق وزیرِخارجہ امن کے برعکس، جنگ کے حق میں اتنی بھی غیر محتاط زبان استعمال کر سکتا ہے!! بی جے پی اور آر ایس ایس کے وابستگان سے مگر ہر زبان کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بھارتی سیکرٹ ایجنسی ''را'' کے سابق چیف امرجیت سنگھ دولت نے مگر پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجانے اور آگ پر تیل چھڑکنے سے گریز کیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنے انٹیلیجنس تجربات اور تادیر مقبوضہ کشمیر میں خدمات انجام دینے کے باعث جانتے ہوں گے کہ اُڑی سیکٹر کا سانحہ محض ڈرامہ ہے، اسی لیے انھوں نے بھارتی کار پردازوں کو جنگ سے باز رہنے اور قیامِ امن کے لیے پاکستان سے فوری اور اعلیٰ سطحی مکالمہ کرنے کا مشور دیا ہے۔
امرجیت سنگھ دولت نے 20 ستمبر 2016ء کو بھارتی روزنامہ ''دی ہندو'' میں لکھے گئے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں یوں کہا ہے: ''دس سال قبل بھی دہشتگردوں نے کالُو چک پر حملہ کیا تھا۔ پھر ایسا ہی حملہ ممبئی ہوٹل، بھارتی پارلیمنٹ اور کارگل میں ہوا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ کو بروئے کار لا کر اور مکالمے کی بنیاد پر جنگ جیتی اور اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہوا۔ اب اُڑی کا واقعہ پیش آیا ہے تو بھی پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی بساط ہی بچھانا ہو گی۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کو فوری طور پر کسی تیسرے ملک میں ملاقات کرنی چاہیے۔ اس سے قبل بھی تو بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور پاکستانی قومی سلامتی مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے ایک تیسرے ملک میں باہمی ملاقات کر کے ایک الجھے سنگین مسئلے کو سلجھانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ یہی نسخہ اب اُڑی کے معاملے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔''
مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے فوجی ہیڈکوارٹر میں اٹھارہ بھارتی فوجیوں کے مرنے کا بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف جو طوفان اٹھا رکھا ہے، اس پیش منظر میں یہ توقع کم کم ہے کہ وہ امرجیت سنگھ دولت ایسے لوگوں کے مشورے پرکان دھرے گا۔ بھارتی ضد کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی عسکری قیادت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے۔ پشاور تا لاہور موٹروے پر جنگی طیاروں کے اترنے، اڑنے کی مشقیں جاری ہیں۔ قوم کا مورال بھی بلند ہے۔ یہ لمحات لیکن مشتعل ہو کر دشمن کے خلاف کوئی غیرحکیمانہ اقدام کرنے کے نہیں ہیں۔
پوری تیاری مگر ضروری ہے۔ یہ بھی بے حد ضروری ہے کہ عالمی ماحول پاکستان مخالف نہ رہے؛ چنانچہ پاکستان کے تین سابق خارجہ سیکریٹریوں (انعام الحق، ریاض کھوکھر، ریاض محمد خان) نے اکٹھے ہو کر، اپنے بیش بہا تجربات کے پس منظر میں، وزیراعظم جناب نواز شریف کی حکومت کو چند مشورے دیے ہیں، جو وطنِ عزیز کے ایک معروف انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر ایک آرٹیکل کی شکل میں شایع ہوئے ہیں۔ امورِ خارجہ کے ان تینوں ماہرین اور دانشمندوں نے یوں لکھا ہے: ''پاکستان کو غیر معمولی خطرناک حالات کا سامنا ہے۔
ایک طرف بھارت دشمنی کر رہا ہے اور دوسری جانب افغانستان۔ ایسے میں او آئی سی اور چین کی طرف سے پاکستان کو یقین دہانیاں حاصل کرنا لازمی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر کو دبانے میں ناکام ہو کر بھارت کا نزلہ پاکستان پر گر رہا ہے۔ امریکا اپنی غلطیوں کی بنیاد پر افغانستان میں جس طرح ناکام ہوا ہے، اس کا غصہ بھی وہ پاکستان پر نکالنے کے درپے ہے۔ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ ایل او سی کے آرپار قیادت سے گہرے روابط رکھے اوراس تاثر کو بھی بہرحال ختم کرنا ہو گا کہ ضربِ عضب آپریشن میں بعض پسندیدہ طالبان سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔''
بھارت نے بڑی چالاکی سے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ کامیابی اگرچہ اسے کوئی نہیں ملی ہے لیکن امریکی اور یورپی میڈیا میں پاکستان کا نام بدنام کرنے والے ضرور سامنے آئے ہیں۔ پاکستان مخالف بننے والی اس فضا کو تحلیل کرنے کے لیے پاکستان کے تینوں سابق سیکریٹری خارجہ حضرات کے مشوروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ روشنی اور گائیڈنس تو جہاں سے ملے، لے لینی چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اگر وکرم سنگھ اور اجیت ڈوول ایسے ریٹائرڈ بیوروکریٹوں کے تجربات سے فائدے اٹھا سکتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم صاحب کیوں نہیں؟