ناقص غذا سے دنیا کی آدھی آبادی کی صحت کو خطرہ
دنیا کی نصف آبادی کو مناسب وٹامن اور معدنیات میسر نہیں جو ان میں امراض کی وجہ بن رہے ہیں۔
صحت اور غذا کے عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ناقص غذا کی وجہ سے دنیا میں ہر تین میں سے ایک شخص کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب تو غریب ممالک میں 25 فیصد بچے ناکافی یا ناقص خوراک کی وجہ سے اپنے پورے قد تک نہیں پہنچ پاتے تو دوسری جانب 2030 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی بسیار خوری کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوجائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے تحت 'غذا کی عالمی تنظیم' کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 2 ارب آبادی کو جسم کے لیے ضروری وٹامن اور معدنیات میسر نہیں جو ان کو صحتمند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے عالمی آبادی مختلف امراض سے دوچار ہورہی ہے جن میں امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر بیماریاں شامل ہیں اور اس کا معاشی اور معاشرتی نقصان ہورہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پروسیس شدہ غذا اگرچہ امیر ممالک میں بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے لیکن اس کے امراض اب کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں بھی عام ہورہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگلے 20 برس میں یہ صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی۔ اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ ملیریا اور ایڈز کی طرح سلگتا عالمی بحران بن جائے گا۔
پاکستان اور دیگر ممالک میں ماں اور بچے کی صحت، بلڈ پریشر اور دیگر امراض ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں یہ صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن دنیا میں 80 کروڑ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور کھانے کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی شکار خواتین ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جن کے امراض زندگی بھر ان بچوں سے چمٹے رہتے ہیں۔
دوسری جانب چین میں 2030 تک چین کا نصف آبادی موٹاپے کی شکار ہوجائے گی جب کہ افریقی خواتین میں خون کی زبردست کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بھوک اور اس سے جڑی بیماری اقوام کی معیشت کو شدید نقصان پہنچارہی ہے یعنی صرف افریقا اور ایشیا میں ہی جی ڈی پی کا 3 سے 16 فیصد ضائع ہورہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب تو غریب ممالک میں 25 فیصد بچے ناکافی یا ناقص خوراک کی وجہ سے اپنے پورے قد تک نہیں پہنچ پاتے تو دوسری جانب 2030 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی بسیار خوری کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوجائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے تحت 'غذا کی عالمی تنظیم' کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 2 ارب آبادی کو جسم کے لیے ضروری وٹامن اور معدنیات میسر نہیں جو ان کو صحتمند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے عالمی آبادی مختلف امراض سے دوچار ہورہی ہے جن میں امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر بیماریاں شامل ہیں اور اس کا معاشی اور معاشرتی نقصان ہورہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پروسیس شدہ غذا اگرچہ امیر ممالک میں بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے لیکن اس کے امراض اب کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں بھی عام ہورہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگلے 20 برس میں یہ صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی۔ اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ ملیریا اور ایڈز کی طرح سلگتا عالمی بحران بن جائے گا۔
پاکستان اور دیگر ممالک میں ماں اور بچے کی صحت، بلڈ پریشر اور دیگر امراض ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں یہ صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن دنیا میں 80 کروڑ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور کھانے کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی شکار خواتین ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جن کے امراض زندگی بھر ان بچوں سے چمٹے رہتے ہیں۔
دوسری جانب چین میں 2030 تک چین کا نصف آبادی موٹاپے کی شکار ہوجائے گی جب کہ افریقی خواتین میں خون کی زبردست کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بھوک اور اس سے جڑی بیماری اقوام کی معیشت کو شدید نقصان پہنچارہی ہے یعنی صرف افریقا اور ایشیا میں ہی جی ڈی پی کا 3 سے 16 فیصد ضائع ہورہا ہے۔