منشیات سے پاک پاکستان لیکن کیسے

منشیات کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہوئے عام طور پر جس پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے وہ منشیات سے جڑی معیشت ہے۔

پاکستان سے راتوں رات منشیات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ لیکن اس کا نکتہ آغاز اس بات کو تسلیم کرنے میں ہے کہ ہمارے ہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ آبادی نشے کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ فوٹو: فائل

''منشیات سے پاک پاکستان، اینٹی نارکوٹکس فورس کا مشن ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے حکومت پاکستان تین نکاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

  • منشیات کی ترسیل بند کی جائے۔

  • ملک سے منشیات کی مانگ ختم کی جائے۔

  • عالمی اداروں کے ساتھ مل کر منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد کی جائے۔


بظاہر یہ مشن اور اس کی تکمیل کا طریقہ کار خاصا موزوں نظر آتا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہے اور اگر ہاں تو کیسے؟

2014ء کے ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا میں ہیروئن استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق یہاں نشے کےعادی افراد کی تعداد 80 سے 90 لاکھ ہے۔اگرچہ افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون سے تیار منشیات کا تقریباً نصف حصہ پاکستان کے ذریعے منشیات کی عالمی منڈی میں جاتا ہے اور پاکستان میں اس کی کھپت نسبتاً کم ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان ہمیشہ ایک ٹرانزٹ رہے گا۔ کیونکہ جیسے جیسے پاکستان سے منشیات کی اسمگلنگ مشکل ہوگی ویسے ویسے مقامی سطح پر قیمت میں گراوٹ آئے گی۔ ترسیل میں اضافہ ہوگا اور مانگ بڑھے گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان ایک ٹرانزٹ سے تبدیل ہوکر منشیات کی باقاعدہ منڈی بن جائے جیسا کہ ماضی میں روس اور برازیل بنے۔


منشیات کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہوئے عام طور پر جس پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے وہ منشیات سے جڑی معیشت ہے۔ بلکہ نشے کی بعض اقسام تو ایسی ہیں جن کے لئے عادی افراد روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جہاں غربت اور جہالت ہوتی ہے وہاں منشیات کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ اس خیال کو اگر درست مان لیا جائے تو پڑھے لکھے نشئیوں اور امیر کبیر لوگوں میں نشے کی عادت کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نشہ خوشحال افراد کو بھی غریب بنا دیتا ہے اور پھر ایسے افراد نشے کی خاطر بھیک مانگنے، اپنے اعضا فروخت کرنے، چوری چکاری کرنے اور یہاں تک کہ قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے کھاتے پیتے لوگ اپنے شاندار بزنس اور ذرائع معاش کے ساتھ نشے کی عادت کو بھی پورا پورا وقت دیتے ہیں۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ماڈل ٹریٹمنٹ سینٹر کے سابقہ ڈائریکٹر فرمان علی طوری کے مطابق دراصل معیشت منشیات کی معیشت میں بڑا حصہ ایسے ہی امرا کی دولت ہے، جو نشے کی ایک گولی کے لئے ہزاروں روپے بھی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

یوں تو نشہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ہی زہر قاتل ہے لیکن نوجوانوں اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں میں نشے کی عادت مہلک ہے۔ یہ تباہی کا وہ راستہ ہے جس پر چلنے کے بعد متاثرہ ملک چاہے ایک ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہو، اس کا اثر و رسوخ زائل ہوجاتا ہے کیونکہ نشے میں دھت ہوجانے والے اس ملک کے نوجوان چلتے پھرتے بم بن جاتے ہیں۔ درجنوں خودکش بمبار اس کی عام مثال ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ سارا ملک سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھوم رہا ہے اور طلبہ سیاست پر پابندی ہے۔ ایک زمانے میں جب پاکستان میں طلبہ تحریک اپنے عروج پر تھی تو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس میں اسلحہ اور نشہ کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔ پھر اسی بات کو جواز بنا کر طلبہ سیاست پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ مان لیا کہ ماضی میں کچھ طلبہ نشے کی لت میں مبتلا تھے مگر اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ کئی ایک طلبہ سیاست میں بھی سرگرم تھے جن میں بہت سے آج سیاست کے قومی فلک پر بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ مسّلہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے لئے محدود سے محدود تر ہوتی ہوئی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے انہیں مزید نشے اور سماجی بیگانگی کی طرف دھکیلا ہے۔

پاکستان سے راتوں رات منشیات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ لیکن اس کا نکتہ آغاز اس بات کو تسلیم کرنے میں ہے کہ ہمارے ہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ آبادی نشے کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور ہمارے پاس صرف چند ہزار کا علاج کرنے کی سکت ہے۔ منشیات سے سالانہ کھربوں کی مالیت کا کالا دھن ملکی معیشت کو تباہ اور برباد کر رہا ہے اور ہم تاحال بے بس ہیں۔ افغانستان سے آج بھی بہت بڑی تعداد میں منشیات پاکستان کے راستے دنیا کے دیگر ممالک میں اسمگل کی جا رہی ہیں، لیکن ہماری کوششیں ناکافی ہیں۔ ملک میں نشے کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور آگاہی کی مہمات نہ ہونے کہ برابر ہیں۔ شاید اس اعتراف کے بعد سنجیدگی سے آگے بڑھ کر ہی منشیات سے پاک پاکستان کا حصول ممکن ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story