ہم ایک ہیں

برہمداغ بگٹی کا بھارت میں سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ نہایت پریشان کن اور معنی خیزہے


Shakeel Farooqi September 27, 2016
[email protected]

برہمداغ بگٹی کا بھارت میں سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ نہایت پریشان کن اور معنی خیزہے۔ اس سے خطے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تناؤکی صورت حال میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ حرکت ایسے وقت پرکی جارہی ہے جب بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات کی یلغار ہورہی ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا دن ہوتا ہوگا جب بھارت کا کوئی نہ کوئی نیتا پاکستان کے خلاف زہر افشانی نہ کرتا ہو اور تواور خود بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جنھیں ان کی فطرت اورذہنیت کی وجہ سے مودی کے بجائے موذی کہنا زیادہ مناسب ہوگا پاکستان کے خلاف انگارے اگلنے میں پیش پیش ہیں۔ وہ واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں وہ بلوچستان میں پاکستان کی کمزوریوں کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس کا ہر حکمراں خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو پاکستان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے۔ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان سے بڑھ کر بھلا اس کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے بھارتی نیتاؤں کی آنکھوں میں پاکستان کے وجود کا کانٹے کی طرح کھٹکھنا ایک فطری امر ہے۔

برہمداغ اور ان کے ہنموا بلوچ علیحدگی پسند پاکستان سے فرار ہوکر کئی برسوں سے یورپ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بھارت سرکار اور پاکستان دشمن بھارتی نیتاؤں سے ان کے قریبی مراسم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ وہ کٹھ پتلیاں ہیں جو بھارت کے اشاروں پر ناچتی ہیں اور محب وطن بلوچ عوام پر اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے۔ چنانچہ ماسوائے گنتی کی چند کالی بھیڑوں کے صوبہ بلوچستان کا بچہ بچہ اپنی مادر وطن پاکستان پر اپنا دل و جان نثار کرنے کو تیار ہے۔

برہمداغ نے اس سے قبل سوئس حکومت سے سیاسی پناہ مانگی تھی لیکن اس کی یہ درخواست مسترد ہوجانے کے بعد اس نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بلوچ باغیوں کے ساتھ بھارت کی ساز باز کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، تاہم برہمداغ کو سیاسی پناہ دینا بھارت کے پاکستان مخالف مذموم عزائم کے تابوت میں ایک اورکیل ٹھونکنے کے مترادف ہوگا۔ بھارت اپنے اس گھناؤنے اقدام کے بعد دنیا بھر کے آگے برہنہ ہوجائے گا اور یہ حقیقت مزید پایۂ ثبوت تک پہنچ جائے گی کہ بلوچستان کے واقعات کی پشت پر بھارت کا ہاتھ کار فرما ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقعے پر بلوچستان کے حوالے سے جو ہرزہ سرائی کی تھی اس کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم کی جانب سے دنیا کی توجہ کو ہٹانا اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا تھا۔ بھارت ہرگز نہیں چاہتا کہ حریت پسند کشمیر عوام پر اس کی فوج اور پولیس جو وحشیانہ مظالم ڈھا رہی ہے اس کا پردہ کسی بھی طرح چاک ہو اور اس کے امن پسندی کے دعوؤں کا بھانڈا چوراہے کے بیچوں بیچ پھوٹے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کوشش میں کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے بعض نہیں آرہا ۔ برہمداغ بگٹی اور اس کے مٹھی بھر حواریوں کو اپنا ہمنوا بنانا بھارت کی اس مذموم سازش کی ایک کڑی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کوشش میں کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے بعض نہیں آرہا۔ برہمداغ اور اس کے مٹھی بھر حواریوں کو اپنا ہمنوا بنانا بھارت کی اس مذموم سازش کی ایک کڑی ہے ۔

برہمداغ کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کی ہمنوائی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ البتہ بھارتی قیادت کی جانب سے بلوچستان کے معاملے میں کھلم کھلا ہرزہ سرائی نے اس کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔ یہ بات قابل غور اور دلچسپ ہے کہ ابھی چند ماہ قبل ہی برہمداغ کی جانب سے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیاگیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ گزشتہ سال برہمداغ کی جنیوا میں بلوچستان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے ہمراہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے تھے جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ برہمداغ اپنی جلا وطنی کو ختم کرکے وطن واپس آجائے گا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ ممکن ہے کہ ان کی بعض شرائط نہ مانی جاسکی ہوں یا اس کے کوئی اور اسباب و عوامل درمیان میں آگئے ہوں۔

لیکن بعد کے وقتوں میں صورت حال تبدیل ہوگئی اور پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ برہمداغ نے صلح سمجھوتہ کرنے کی راہ کو ترک کرکے صوبے کے بلوچ عوام پر مشتمل اضلاع میں رائے شمار کرانے کا مطالبہ پیش کردیا اور اس طرح بھارت کی شہ پر ایک نیا سیاسی شوشہ چھوڑ دیا جس نے اس کا رہا سہا بھرم بھی ختم کردیا اور بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام محب وطن عوام پر یہ راز بالکل فاش ہوگیا کہ وہ اپنے بھارتی آقاؤں کی بولی بول رہا ہے۔ اب بھارت میں سیاسی پناہ لینے کے اس کے تازہ ترین فیصلے سے سیاسی بات چیت اور مفاہمت کے دروازے بھی بند ہوگئے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بھارتی اور افغان حکومت کی ملی بھگت کا سلسلہ برسوں پرانا ہے اور سرحد پار افغانستان میں پاکستان دشمن باغیوں کی نہ صرف پناہ گاہیں موجود ہیں بلکہ وہاں ان کی سرپرستی بھی کی جارہی ہے۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ جنیوا جانے سے پہلے برہمداغ نے اپنا ٹھکانہ سرحد پار افغانستان میں ہی بنایا ہوا تھا۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ بلوچستان میں بغاوت کے شعلے بھڑکانے کے پیچھے بھی بھارت ہی کا ہاتھ کار فرما رہا ہے۔

بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے بعد نام نہاد بلوچ قوم پرستوں نے 1948ء ،1958-59ء ،1962-63ء ،1973-77 اور 2005ء سے تاحال پانچ مرتبہ باغیانہ کارروائیاں کی ہیں۔ تاہم یہ حقیقت خوش آیند ہے کہ بلوچستان کے عوام کی بھاری اکثریت محب وطن اور پاکستان کی زبردست حامی ہے اور وہ وفاق کے دائرہ کار میں سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کے حق میں ہیں۔

بلاشبہ 2013 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچ عوام کے قومی دھارے میں شمولیت کو بڑی ربردست تقویت حاصل ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کے دور کی مخلوط حکومت بھی ایک اچھا سیاسی تجربہ تھا۔ عوامی نمایندوں کو اختیارات کی مزید منتقلی سے اور بھی بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ بلوچ عوم کا رہا سہا احساس محرومی بھی جلد ازجلد ختم کیا جائے اور مکمل اور واضح اخلاص نیت کے ساتھ انھیں قومی دھارے میں شامل ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقعے فراہم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم بلوچ عوام کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے جس کا پاکستان کے دشمن ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتے چلے آرہے ہیں ۔ رہی بات بلوچ عوام کی حب الوطنی کی تو وہ ہر قسم کے شکوک و شہبات سے بالاتر اور مثالی ہے اور بلوچستان کے نام کا ایک جزو لانیفک ہے اور انشاء اﷲ ہمیشہ رہے گا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام یک جان ہیں اور اپنے سبز ہلالی پرچم کے سائے میں ہم ایک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔