پُرخلوص مشورہ آپ اپنے ڈھائی گھنٹے ضائع مت کریں

فلم کی کہانی کو یوں تو 5 منٹوں میں سمیٹا جاسکتا ہے لیکن چونکہ فلم بنانا مقصود تھا لہذا عوام کےڈھائی گھنٹے ضائع کروادیے


سید سبط حسان رضوی September 28, 2016
جب ماہرہ نے اپنے آخری مارننگ شو میں عوام سے معافی مانگنے کا ڈائیلاگ مارا ہے تو مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے ڈھائی گھنٹوں کی اذیت میں مبتلا رکھنے پر معذرت خواہ ہے!!

KARACHI: واقعی زندگی کتنی حسین ہے ۔۔۔ ڈھائی گھنٹے تک سینما گھر میں بیٹھے فلم دیکھنے کے بعد جب میں نے باہر آکر روشنی دیکھی تب مجھے یہ احساس ہوا کہ واقعی اس فلم سے پہلے زندگی کتنی حسین تھی اور اب بھی کتنی حسین ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انجم شہزاد صاحب کی ہدایات میں بننے والی فلم 'زندگی کتنی حسین ہے' نے آخر اس عید پر دیگر 2 پاکستانی فلموں کے مقابلے کم بزنس کیوں کیا؟؟

جواب صاف ہے اور وہ یہ کہ فلم کا ڈائیریکٹر خود یہ طے نہیں کر پایا کہ کیا چیز فلم میں رکھی جائے اور کسے باہر نکال پھینکا جائے۔

فلم میں سجل علی بنام ماہرہ خان جبکہ فیروز خان بنام زین احمد جلوہ گر ہوئے ہیں۔ جبرئیل احمد نامی بچے نے بنام ڈو ڈو ماہرہ اور زین کے بیٹے کا کردار نبھایا ہے۔ ہاں بس اتنے ہی مرکزی کردار ہیں فلم میں۔ بقیہ دیگر کرداروں کو جس طرح فلم میں کہیں نا کہیں فٹ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے میں بھی اس ریویو میں ایسا ہی کروں گا۔

شروعات سے ہی فلم کی کہانی مبہم اور دیگر فلموں سے متاثر نظر آتی ہے۔ سجل یعنی ماہرہ خان اور فیروز یعنی زین کی اپنے دوستوں کے ہاں پہلی ملاقات اور بے جا لڑائی، پھر اچانک 7 سال بعد دونوں کی شادی شدہ زندگی اور پھر بھارتی فلم عاشقی 2 کی طرح لڑکا لڑکی کے درمیان کی نوک جھوک اور چیخ و پکار میں سجل اور فیروز کی اداکاری کہیں گم سی ہوگئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ فلم کے بہت سے مقامات پر آپ کو مختلف فلموں کے چھوٹے چھوٹے مناظر دیکھنے کو ملیں گے، مثلاً راک اسٹار وغیرہ وغیرہ۔

شادی کے بعد 7 سالوں تک دونوں میاں بیوی کو لڑائی کے بعد دوبارہ ملانے میں ان کا بیٹا ڈوڈو اہم کردار ادا کرتا ہے اور اختتام تک وہ یہی کرتا رہے گا۔

فیروز خان یعنی زین احمد اپنے باپ کا سپنا پورا کرنے کے لیے فلم میکر بننا چاہتا ہے، اسی سپنے کی خاطر وہ 50 لاکھ روپے کا قرضہ لیتا ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ قرضہ کہاں سے لیتا ہے اِس کا اندازہ فلم کے اختتام تک نہیں ہوتا۔ ظالما آ آ آ گنگناتے اور باچتے ہوئے شفقت چیما صاحب زین سے پیسوں کا تقاضہ کرتے دکھائی دئیے ہیں۔ فلم کی کہانی کو یوں تو 5 منٹوں میں سمیٹا جاسکتا ہے لیکن درحقیقت فلم بنانا مقصود تھی پھر چاہے ڈھائی گھنٹوں میں لوگ کوئی اہم سین کیوں نا تلاش کرتے رہیں۔ ہگگی، کسّی اور میاں صاحب کا ذکر فلم میں بار بار سننے کو ملا ہے مگر رومانویت کا یی عنصر فلم میں شامل کرنے میں بھی انجم شہزاد صاحب ناکام نظر آئے ہیں۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں فلم کے تمام پہلوؤں پر۔۔۔

1) مارننگ شوز آنسو اور ریٹنگ؟؟؟

جی ہاں آنسو! ماہرہ کی زین سے علیحدگی کے بعد وہ کام تلاش کرنے ایک مارننگ شو کے پروڈیوسر کے پاس جاتی ہے۔ پروڈیوسر کا کردار علی خان نے نبھایا ہے جس کا موٹو عورت کے آنسو اور غربت کو بیچنا ہے۔ یہاں اسکرپٹ رائٹر سمیت ڈائریکٹر نے بڑےعام سے انداز میں تمام مناظر کو پیش کیا ہے جو کسی بھی طور پرکشش نہیں۔ علی خان پروڈیوسر کم خود اس شو کے ہوسٹ زیادہ لگ رہے ہیں۔

2) چیما کریکٹر؟؟

یہ کریکٹر آپکو ماضی میں لے جائے گا جہاں مولا جٹ ٹائپ اور شفقت چیما کی دیگر فلمیں بنا کرتی تھیں۔ یوں کہہ لیں کے فلم میں بھونڈی کامیڈی کا سہرا اس کریکٹر کو دیا گیا ہے۔

3) فلم کی موسیقی ، عکس بندی اور ڈائیلاگز

مجموعی طور پر فلم میں 7 گانے شامل ہیں۔ گوکہ کچھ گانے بے وقت فلم کاحصہ بنے ہیں لیکن فلم کی موسیقی قدرے بہتر ہے۔ ڈائلاگز پر مزید کام کیا جاسکتا تھا جبکہ فلم کی عکس بندی بھی اطمینان بخش تھی۔

4) زین احمد اچانک فلم میکر بن گیا؟؟

شروعات میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرنے والا ایک لڑکا ڈرامے میں کام کی آفر کو رد کردیتا ہے، وہی شخص اختتام میں ایک مبہم حادثے کے بعد ایک جھونپڑی میں ملنگوں کی سی حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کا بیٹا ڈو ڈو اس سے ملنے آتا ہے اور اچانک اسے اپنا ٹائپ رائٹر یاد آتا ہے۔ بس اِس موقع پر وہ فلم لکھ ڈالتا ہے، اور یہ کہانی فوری طور پر منظور بھی ہوجاتی ہے جس کے لیے 20 لاکھ کا چیک اس کے ہاتھ میں تھمادیا جاتا ہے۔ فلم دیکھ کر ان مناظر پر آپ کو صرف الجھن ہوگی کیونکہ ان میں کچھ نیا تو نہیں مگر احمقانہ ضرور دکھائی دیگا۔

5) دوستوں اور رشتہ داروں کا بے معنی کردار

حیرت انگیز طور پر ماہرہ اور زین کے دوست ان سب معاملات میں تماش بینوں کے کردار میں نظر آئے، شاید وہ اپنی حسین زندگی میں اپنے دوستوں کی بدترین زندگی کا سایہ نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے!!

''میں آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں''

یقین مانیے کہ جب ماہرہ نے فلم میں اپنے آخری مارننگ شو میں آکر عوام سے معافی مانگنے کا یہ ڈائیلاگ مارا ہے تو مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے مخاطب ہو اور کہہ رہی ہو کہ ڈھائی گھنٹوں کی اذیت میں مبتلا رکھنے پر معذرت خواہ ہے!!

انجم شہزاد کی ہدایات میں بنی پچھلی فلم ماہ میر عوام کی عدم دلچسپی کے باعث فلاپ ہوئی تھی لیکن اس کا آسکر کے لیے نامزد ہونا خوش آئند ہے۔ مگر فلم 'زندگی کتنی حسین ہے' چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ انجم شہزاد اب بھی ڈرامہ انڈسٹری اور ماضی کے گنڈاسا کلچر سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں