اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا
قوم کو جنگ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جنگ اگر بری ہوتی توخدائے رحیم و کریم اسے مکروہ قرار دے دیتا۔
لاہور:
قوم کو جنگ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جنگ اگر بری ہوتی توخدائے رحیم و کریم اسے مکروہ قرار دے دیتا۔ جنگ اگر سراپا شر ہوتی تو رحمت اللعالمینؐ نے خود جنگوں میں حصہ نہ لیا ہوتا۔ قوم کو کسی بھی ممکنہ جنگ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جارحیت ہماری طرف سے نہیں ہورہی۔
بھارت کے غیر متعصب صحافی خود لکھ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے تقریباً نکل چکا ہے۔ اُنکی بے مثال جدوجہد جس مقام تک پہنچ چکی ہے وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔کشمیری نوجوانوں نے وحشت اور بربریت کے ہر طوفان کا مقابلہ کیا ہے مگر ان کے عزم اور حوصلے ذرا بھی متزلزل نہیں ہوئے۔معروف صحافی اوربھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن سنتوش بھارتیہ نے اپنے دوست نریندر مودی کو خط لکھا ہے کہ ''کشمیر میں زمین ہمارے پاس ہے کیونکہ ہماری فوج وہاں ہے لیکن لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔
80سال کے شخص سے لے کر 6سال کے بچے کے دل میں اتنا غصّہ اور نفرت ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کرہندوستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ لوگ پیلٹ گن سے زخمی ہوئے ہیں اور پانچ سو سے زیادہ کی آنکھیں چلی گئی ہیں۔آج پورے کشمیر میں کوئی بھی شخص ہندوستان کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔
کیا پاکستان پورے ساٹھ لاکھ لوگوں کو بھارت کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے؟۔ یہ تحریک ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی 1942میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان چھوڑو تحریک تھی۔ ہر پیڑ اور ہر موبائل ٹاور پر پاکستان کا جھنڈا ہے''۔ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پرکیا ہم اپنی شہہ رگ اور مظلوم کشمیریوں کو بھارت کے خونی پنجوں سے بچانے کے لیے اپنی ذمے داری ادا کریں گے؟
وزیرِ اعظم نوازشریف کے بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کو دکھا نے پرمودی تلملا اٹھاہے ، وہ ہذیانی کیفیّت کا شکار ہے۔اس کیفیّت میں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق ان کے سروس چیفز کی روزانہ میٹنگیں ہورہی ہیں، اسلام آباد سے ان کے سفارتکار اپنی فیملیز کو بھارت بھیج چکے ہیں۔عسکری ماہرین کے مطابق ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
مودی سرکار کے لیے واحد حربہ یہ ہے کہ اُوڑی کے ڈرامے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے۔ اس سلسلے میں بھارت پاکستان کی سرزمین پر سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے، soft targetsکو نشانہ بناسکتا ہے،کراچی اور بلوچستان میں اپنے کارندوں کے ذریعے دہشت گردی کو مزید ہوا بھی دے سکتا ہے اور پانی پر شرارت کرسکتا ہے۔
جنگ بلاشبہ ایک ہولناک چیز ہے جو اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لاتی ہے مگر جنگ ہم پر تھوپ دی جائے تو پھر اس سے گریز کیسا اور خوف کیسا؟ جنگ بلاشبہ تباہی کا نام ہے مگر دنیاکے صاحبانِ دانش اور قوموں کے معمار اِسمیں امکانات کے بیشمار پہلو دیکھتے ہیں، جنگ کی کوکھ سے پائیدار امن جنم لیتا ہے۔ جنگ میں قومیں اپنے عمل کا حساب اور احتساب کرتی ہیں۔
جنگ میں محافظوں اور شہریوں کا خون گرتا ہے جس سے قوموں کی نشوونما ہوتی ہے،جنگ قوموں کو متحد کرتی ہے۔ راقم کو سو فیصد یقین ہے کہ طبلِ جنگ بجتے ہی کراچی سے خیبروخنجراب تک پوری قوم یک جان ہوگی۔کوئی سندھی ہوگا نہ پنجابی ، نہ پٹھان نہ بلوچ ، نہ مہاجر نہ گلگتی، نہ بلتی اور نہ کشمیری ہر صوبے ہر شہر اور گاؤں میںصرف اور صرف پاکستانی نظر آئیں گے جنکے ہاتھوں میں اپنی پارٹی ،گروہ، فرقے یا برادری کا نہیں صرف اور صرف پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہوگا۔
جنگ میں قربانی کے جذبوں کو فروغ ملتا ہے اورحرص وھوس کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ اس ملک کے کروڑوں شہری گواہ ہیں کہ 1965 کی جنگ میں وطنِ عزیز سے کرپشن،بدعنوانی ، چوربازاری، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ ختم ہوگئی تھی۔۔ فضاء میں ہرطرف پاکیزگی چھاگئی تھی۔۔ ہر جگہ ہمدردی اور بھائی چارے کا ماحول تھا۔
برسوں پرانا وہ ماحول پھر پلٹ کر آئیگا اور وہی فضاء پھر سے قائم ہوجائیگی ۔۔ قوم کے شاعر، ادیب اور تخلیق کار پھر سے اپنے اپنے قلم لے کر میدان میں اتریں گے۔۔ پھر وطن سے محبت کے گیت تخلیق ہونگے۔ پھر شہیدوں کے لیے نغمے گائے جائیں گے، قوم کے مجاہدوں اور غازیوں کے لیے گائے ہوئے ترانوں سے ہوائیں اور فضائیں گونج اُٹھیں گی۔ مایوسی اور بے یقینی کا شکار نوجوان پھر سے مادرِ وطن کی محبت سے سرشار ہوجائیں گے اور اس بے ثمر اور فرسودہ نظام کی ہر علامت منہدم ہوجائیگی اور نئے سرے سے ایک بہتر نظام کی بنیادیں اُٹھائی جائینگی۔
بھارت کے موجودہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان کے بارے میں خطرناک عزائم سے ہمیں باخبر رہنا چاہیے اور حکمِ الٰہی کے مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں یعنی مکمل تیاری ہونی چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری برّی، فضائی اور بحری افواج کے بہادر اور جانباز افسر اور جوان دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادینے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔ 1965میں دشمن ، وطنِ عزیز پر حملہ آور ہوا تو لاہور کے شہری دفاعِ وطن کے لیے لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر محاذِ جنگ کی جانب دوڑ پڑے تھے۔ اب حملہ ہوا تو ملک کے ہر شہر اور دنیا کے ہر کونے سے پاکستان کے بیٹے للکار تے ہوئے نکلیں گے کہ:۔
؎ اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا۔ تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں۔
مودی نے دھمکی دی ہے کہ ''پاکستان کو تنہا کردیں گے'' اس کے مقابلے کے لیے پورا فارن آفس اور تمام سفارتکار دفاعِ وطن کے جذبے سے سرشار ہوکر میدان میں نکلیں اور اپنے روایتی افسرانہ طریقے سے نہیں، مشنری جذبے کے ساتھ دنیا کی تمام اہم حکومتی، سیاسی اور صحافتی شخصیات کو دلائل کے ساتھ بھارت کا بھیانک چہرہ دکھائیں اور وہ ڈوزیئر ضروردکھائیں جو بانکی مون کو وزیرِاعظم نے دکھایا تو وہ تڑپ اُٹھاتھا۔
ملک کے ہر طبقے نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر دفاع ِ وطن کو ترجیحِ اوّل بنانا شروع کردیا ہے۔ کیا دشمن ملک کے ساتھ اتنے کشیدہ حالات میں بھی میڈیا حیا نہیں کریگا اوربھارتی پروگرام دکھانا بند نہیں کریگا؟ ۔ کیا حالات کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے عمران خان صاحب بھی اپنارویّہ تبدیل کرنے پر آمادہ ہونگے؟ انھیں ملک کے سینئر سیاستدانوں نے سمجھایا ہے کہ سیاسی مخالفوں کے گھروں پر جاکر للکارنا اور نعرے بازی کرنا ہماری اقدار کے منافی ہے، اگر اب بھی وہ مجمع اکٹھا کرنے پر مُصر ہیں تو بہتر ہے کہ وہ اس کی جگہ چند میل آگے لے جائیں اور قصوربارڈر پر جاکر بھارت کو پیغام دیں کہ دشمن کے خلاف ہم سب ایک ہیں۔
مائینڈ سیٹ تبدیل کریں
دو سال قبل راقم کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں لیکچر کے لیے بلایا گیا تو شرکاء نے بار بار پوچھا کہ '' باقی ادارے موٹروے پولیس کیطرح نیک نام کیوں نہیں ہوسکتے؟''۔ راقم کا جواب تھا ''موٹروے پولیس نے ایمانداری اور خوش اخلاقی کو اپنی بنیاد 'core values' قرار دے رکھا ہے اس کا ہر ملازم دل سے سمجھتا ہے کہ دیانتداری اس کا ایمان، خوش اخلاقی اس کی پہچان اور مسافروں کی مدد اس کی شان ہے اور وہ قانون بلا تخصیصی اور بلا خوف قانون نافذ کرتے ہیں۔باقی ادارے ان خصوصیات کو اتنا اہم اور اتنا مقدّس بنالیں تو وہ بھی نیک نامی حاصل کرسکتے ہیں''۔
انھی خصوصیات کی بناء پر یواین اونے موٹروے پولیس کوکرپشن فری ادارہ قرار دیا اور کئی بین الاقوامی ادارے اسے پورے ساؤتھ ایشیا کا ماڈل ادارہ قرار دے چکے ہیں۔ پوری قوم کے لیے فخر کی علامت موٹروے پولیس کے افسروں نے قانون کی خلاف ورزی پر ایس ایس جی کے دو نوجوان افسروں کو روکا تو انھیں چاہیے تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اُسی طرح جرمانہ ادا کردیتے جسطرح کئی وزراء کئی سینئر آرمی افسر ،سینئربیوروکریٹ، موٹروے کے اپنے آئی جی ، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور خود وزیرِاعظم بلاچون وچرا ادا کرتے رہے ہیں۔
جب بھی کسی قانون شکن نے ان پر بدتمیزی کاالزام لگایا تحقیق کرنے پروہ جھوٹا ثابت ہوا، غیرملکی بھی مانتے ہیں کہ موٹروے پولیس کے افسران بہت Courteous ہیں، رشوت نہیں لیتے اور گاڑی خراب ہوجائے تو فوراً پہنچ کر مدد کرتے ہیں ۔مگر نوجوان کپتانوں نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر قانون نافذ کرنے والے ملازموں کو تشدّد کا نشانہ بنایا اور انھیںاغواء کرکے اٹک قلعے میں لے گئے۔ ناچیزکوحقائق بتائے گئے تو بہت دکھ ہوا۔
اس پر میں پورا کالم لکھنا چاہتا تھا کہ زیادتی کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ مگر ملکی حالات تبدیل ہوگئے اور فضاء پر جنگ کے بادل امڈ آئے تو ارادہ بدل لیا، بلاشبہ نوجوان افسروں کی اس حرکت نے اپنے ادارے کی عزّت پر داغ لگایا ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک قابلِ فخر ادارے کا حصہ ہیںاور جلد کسی مشکل محاذ پر وطن کا دفاع کر رہے ہونگے۔
راقم جب الیٹ فورس پنجاب کا سربراہ تھا تو ایس ایس جی کے کرنل سعد اور کئی نوجوان افسر ہماری ٹیم کا حصہ تھے ۔ کیا شانداراور لاجواب افسر تھے، دلیرمگرقانون کا احترام کرنے والے ! ۔ ایس ایس جی کے جوانوں کا ہاتھ صرف ملک کے دشمنوں پر اٹھنا چاہیے، قانون نافذ کرنے والوں پر اٹھے گا تو وہ عزّت سے بھی محروم ہوجائینگے اور قوم کی دعاؤں سے بھی !۔ مشترکہ انکوائری میں بچنے کی کوئی صورت نہیں،میں نوجوان کپتانوں سے کہوں گا کہ وہ اپنا مائینڈ سیٹ تبدیل کریں اور ملک کے قانون اور دوسرے اداروں کا احترام کرنا سیکھیں۔واحدحل یہی ہے کہ زیادتی کے مرتکب افراد جاکر موٹرویپولیس کے تینوںافسروں سے معافی مانگیں،ہمیں امیّد ہے کہ وہ ملکی حالات کے پیشِ نظر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کردیںگے۔