بھارت کا ’’واٹر بم‘‘

آپ میرے گزشتہ کالموں کو پڑھ لیں، میں نے کبھی بھارت کے خلاف جذباتی گفتگو نہیں کی،


علی احمد ڈھلوں September 28, 2016
[email protected]

بھارت کے پاس ایٹم بم، بھوک بم، غربت بم، آزادی کی تحریکوں کابم ، ناخواندگی بم اور مذہبی بم کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ''واٹر بم ''بھی موجود ہے جسے وہ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر چلانے کی بسا اوقات دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ یہ ایسا بم ہے جسے اگر واقعتاً بھارت استعمال کر لے تو پاکستان ''Slow Poisoning'' کا شکار ہو کر اگلے دس برسوں میںقحط زدہ ممالک میں شامل ہو سکتا ہے جس کا مکمل انحصار بارشوں پر ہوگا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کچھ اصول و ضوابط طے کیے گئے جس میں دوممالک کے درمیان پانی کے مسائل کو بھی سر فہرست رکھا گیا۔

ان قوانین کے مطابق ملکوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، ایک اپر رائن(Upper Rhine) اور دوسرا لوئیر رائن (Lower Rhine) سمندر کی سطح سے اوپر والے ممالک کو اپر رائن کہا گیا اور سمندری سطح سے نیچے والے ممالک کو لوئیر رائن کہا گیا۔ یہ قانون بنایا گیا کہ دریاؤں پر لوئیر رائن ممالک کا اپر رائن ممالک سے زیادہ حق ہوگا ۔ پاکستان نے ہیگ میں قائم عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کی بھی کوشش کی لیکن ہندوستان اپنا کیس کمزور سمجھتے ہوئے وہاں جانے کے لیے راضی نہ ہوا۔

1951ء میں امریکا کے ایٹمی توانائی کمیشن کے سابق سربراہ ڈیوڈ لیلی ایتھال نے پاک و ہند کے دورہ کے بعد ایک میگزین میں مضمون لکھا اور مشورہ دیا کہ نئے ڈیم اور نہری نظام کو اس طرح بنایا جائے کہ دونوں ممالک مناسب پانی حاصل کر سکیں اور اس کے لیے ورلڈ بینک معاونت کرے۔دونوں ممالک نے اس تجویز کے تحت بات چیت کا آغاز کیا لیکن دونوں کے نقطہ نظر میں اتنا اختلاف تھا کہ کوئی سمجھوتہ ہوتا نظر نہ آتا تھا بلکہ 1955ء میں وزیراعظم سہروردی کے دور میں نوبت جنگ کی دھمکیوں تک آپہنچی۔

آخر کار ورلڈ بینک نے خود ایک پلان بنا کر دیا جس پر کئی سال کی گفت و شنید کے بعد مارچ 1960ء میں کراچی میں معاہدے پر دستخط کر دیے گئے۔ اس کے تحت تین مشرقی دریاؤں، راوی، بیاس اور ستلج پر ہندوستان کا مکمل حق ہے جب کہ تین مغربی دریاؤں، سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کرلیا گیا ۔ پاکستان کے وہ علاقے جو مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوا کرتے تھے ان میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے مغربی دریاؤں کے پانی کو مشرقی دریاؤں کی طرف موڑا گیا۔ اس کے لیے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا، پانچ بیراج اور سات لنک کنال بنائی گئیں۔

ان کے اخراجات کے لیے انڈین بیسن ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کر دیا گیا جس میں امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا نے حصہ ڈالا۔ مغربی دریا جو پاکستان کے حصے میں آتے ہیں ، ہندوستان کو گھریلو استعمال زراعت اور ہائیڈرو الیکٹرک جنریشن کے لیے ان کے استعمال کی اجازت ہے۔لیکن بھارت نے اپنے اور پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر تابڑ توڑ ڈیمز بنانا شروع کر دیے ہیں تاکہ دریاؤں کے رُخ موڑ دیے جائیں اور پاکستان کو صرف سیلابی پانی ہی نصیب ہو۔

آپ میرے گزشتہ کالموں کو پڑھ لیں، میں نے کبھی بھارت کے خلاف جذباتی گفتگو نہیں کی، ہمیشہ دلائل سے بات کی اور کوشش کی دونوں ممالک کے درمیان ان قوتوں کو تلاش کیا جائے جو امن کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ ڈالتی آئی ہیں جب کہ دونوں ملکوں کے عوام جنگ نہیں امن کے حق میں ہیں۔ لیکن بھارت جب بھی ''واٹر بم'' کے استعمال کی بات کرتا ہے جیسے وہ آجکل راگ الاپ رہا ہے تو یقین مانیں کہ مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کا غصہ دیدنی ہوتا ہے اور پھر امن کی بات کرنا تو ویسے ہی گناہ لگتا ہے۔ میں نے 'ورلڈ واٹر پرابلمز' کے حوالے سے دنیا کے بہت سے مضامین کو پڑھا اور ردرجنوں ایسے دریاؤں کو تلاش کیا جو کئی ممالک کے درمیان سے بہتے ہوئے سمندر میں جا گرتے ہیں۔

اس وقت دُنیا میں 250 سے زائد دریا اور جھیلیں جب کہ تقریباً 300 آبی ذخائر ایسے ہیں جو بیک وقت ایک سے زائد ممالک کی حدود میں واقع ہیں۔ دْنیا کے مجموعی تازہ پانی کا 60 فی صد ان دریاؤں اور جھیلوں میں بہتا ہے۔ جب کہ دْنیا کی 40 فی صد آبادی اِن دریاؤں اور جھیلوں کے پانی سے استفادہ کرنیوالے علاقوں میں مقیم ہے۔ دنیا کے کم و بیش 148 ممالک ان بین الاقوامی دریاؤں اور جھیلوں میں شراکت دار ہیں، جب کہ 21 ممالک کلی طور پر ان دریاؤں اور جھیلوں کی حدود میں واقع ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق تاحال بین الاقوامی دریاؤں کے 60فیصد میںکوئی مشترکہ انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود پانی کے مشترکہ وسائل پر گذشتہ صدی کے دوران مختلف اقوام کے درمیان محض سات معمولی جھڑپیں ہوئیں۔ جب کہ اسی عرصہ میں پانی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے 300 معاہدے طے پائے اور آج ان معاہدوں پر نہ صرف عمل ہو رہا ہے بلکہ ان دریاؤں کا استعمال انسانی ترقی کے لیے قابل عمل بنایا جا رہا ہے۔ آپ دریاے ڈینیوب ( Denube) کی مثال لے لیں۔

دریائے ڈینیوب ایک درجن سے زائد ممالک جن میں ہنگری ، رومانیہ، آسٹریا ، سلوینیا، کروشیا ، سلواکیہ ، بلغاریہ، جرمنی، جمہوریہ چیک، مالدووا، سربیا، یوکرائن ، بوسنیا ،اٹلی، سوئیٹزرلینڈ، البانیہ اور پولینڈ وغیرہ شامل ہیں سے گزرتا ہے۔ دریائے ڈینیوب ایک ڈیلٹا بناتا ہوا بحرِ اسود میں جاگرتا ہے۔ یہ ڈیلٹا یورپ کا مرطوب زمین پر مشتمل دوسرا بڑا خطہّ ہے۔ یہ دریادو ہزار 780 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی گزرگاہ جرمنی کے بلیک فاریسٹ سے بحر اسود تک پھیلی ہوئی ہے۔ کل8 لاکھ 17 ہزار مربع کلومیٹرپر اِس دریا کے آبی اثرات ہیں۔

19ویں صدی کے آغاز تک جہاز رانی اور دیگر مقاصد کے لیے دریائے ڈینیوب کے استعمال پر لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ جب اس دریا کے اردگرد واقع ممالک سیاسی اور عسکری گروہ بندی کا شکار ہوئے تو اِن لڑائی جھگڑوں میں اضافہ ہوگیا ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس دریا کے پانی کی تقسیم خطّے میں تنازعہ کی بڑی وجہ نہیں تھی بلکہ عسکری اور تجارتی مقاصد کے لیے دریائے ڈینیوب کا استعمال تاریخ کے مختلف ادوار میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اِن تنازعات کی نوعیت بدل گئی اور اب ان میں سے بیشترکا تعلق سیلاب کی روک تھام اور آلودگی جیسے مسائل سے جڑ گیا۔ یورپی باسیوں کے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ اِن مسائل کوکامیابی سے حل کرنے کے لیے دریائے ڈینیوب کے ارد گرد واقع ممالک کے درمیان 70 سے زائد دوطرفہ یا کثیر فریقی معاہدے طے پائے۔

یہ دریا ہمارے دریائے سندھ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ دونوں دریاؤں میں بہنے والے پانی کی مقدار بھی تقریباًیکساں ہے۔ دریائے سندھ کی طرح دریائے ڈینیوب کا بالائی علاقہ بھی ایک پہاڑی ندی کی مانند ہے، جہاں پانی کا درجہ حرارت کم اور رفتار بہت تیزہے۔ وسطی ڈینیوب دھیما پڑنا شروع ہوتا ہے جب کہ اس کا پھیلاؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ زیریں ڈینیوب وسیع و عریض سیلابی میدانوں پر مشتمل ہے جہاں اس کی رفتار اور بھی کم ہو جاتی ہے۔دوسری جنگِ عظیم سے قبل یورپی کمیشن دریائے ڈینیوب کے انتظام کا ذمے دار تھا۔ لیکن اِس جنگ کے اختتام پر 1948 ء میں بلغراد میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں وفود کی اکثریت نے، جن کا تعلق مشرقی علاقے میں واقع ممالک پر مشتمل بلاک سے تھا، دریا کے کنٹرول کو گزرگاہ کے استعمال کے حوالے سے ہر ملک کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا۔

بلغراد کنونشن نے کمیشن کو جزوی قانون سازی کے اختیارات بھی دیے، تاہم اس قانون سازی کا دائرہ محض جہازرانی اور جانچ پڑتال کے عمل تک محدود تھا۔ تاریخی طور پر کمیشن کی سب سے بڑی ذمے داری دریا میں جہاز رانی کے لیے سازگار حالات کو یقینی بنانارہا ہے۔پھر کئی اور معاہدے ہوئے۔ آج تمام ممالک اس دریا کے پانی کو خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں اور جہاں کہیں کوئی مسئلہ درپیش آئے تو تمام فریقین آپس میں بیٹھ کر اُس مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔

دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ اپر رائن ممالک لوئر رائن کو پانی کے معاملے پر دھمکیاں دیتے ہوں لیکن بھارت نہ جانے ایسا کیوںکرنے پر تلا ہوا ہے اور واٹر بم کا استعمال کرنے کو ترجیح کیوں دیتا ہے ، حالانکہ یہ اس کے اختیار میں بھی نہیں لہٰذااس وقت بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کو دھمکانے کے لیے کسی اور بم کا استعمال کرے پانی کی جنگ پاکستان پہلے بھی جیت چکا ہے اور آیندہ بھی جیت جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں