نفرت نہیں محبت کیجیے
انسان میں فطری جذبات و احساسات میں سے محبت سب سے اہم جذبہ ہے۔
انسان فطری طور پر محبت پسند ہے، لیکن اس کے باوجود دنیا میں ہر سو انسان کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہر جانب قتل و غارت، جنگ و جدل، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد برپا ہے۔ ملکوں سے لے کر افراد تک سب نفرت کی آگ جلانے میں مشغول ہیں۔ نفرت کی یہ آگ دنیا میں پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے، لیکن محبت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اس آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکانے میں مشغول ہے۔
اگر انسان اپنے فطری جذبۂ محبت کو جذبۂ نفرت پر حاوی کرنے کے لیے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنے اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر قابو نہ پاسکے۔ نفرت کی آگ بجھانے کے لیے پہلے ہر انسان کو خود اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا اور اپنی زندگی کو مثبت رجحانات کے تابع کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے دل کو دوسروں کی نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ کر دنیا کو محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
نفرت جذبۂ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ منفی رجحان دیگر ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایسے دوست و احباب کا انتخاب کرنا چاہیے جو نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کرتے ہوں، تاکہ معاشرے سے نفرت کا خاتمہ ہو اور زیادہ سے زیادہ محبت پھیلے اور منفی ذہنیت کے ایسے افراد سے مکمل اجتناب و کنارہ کشی کی جائے جو ہمیشہ نفرت پھیلانے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں۔
انسان میں فطری جذبات و احساسات میں سے محبت سب سے اہم جذبہ ہے۔ محبت کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔اسلام بھی انسان کو محبت پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان محبت کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں میں نفرت کے کانٹے نہیں، بلکہ پیار و الفت کے پھول بانٹتا ہے۔ محبت کا اظہار صرف صنف مخالف ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اولاد کے لیے بے انتہا شفقت، والدین کی خدمت، بزرگوں کی عقیدت اور دوست احباب کی رفاقت کے ان گنت رنگوں سے سجی زندگی محبت کا اظہار ہی تو ہے۔ سب سے مضبوط رشتہ جو افراد کو کنبے، سماج اور قوم بناتا ہے، وہ محبت ہی ہے۔
یہ محبت ہی تو ہے جو وطن کے لیے جان قربان کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ محبت دل کی ایسی ریاست ہے، جہاں صرف سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ موجودات کی روح میں سب سے زیادہ نمایاں عامل محبت ہے۔ ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کا آپس میں محبت کا تبادلہ انسان کی اپنی مرضی سے ماوراء ہو تا ہے،کیونکہ منشاء ایزدی ان پر مکمل طور پر محیط ہو تی ہے۔ اپنی روح میں محبت کے بے جا استعمال سے اور اپنی ہی فطرت سے محبت لانے کے لیے ہرشخص کو چاہیے کہ دوسروں کی حقیقی مدد اور معاونت کرے،تاکہ معاشرہ محبت کا گہوارہ بن جائے۔
محبت فاتح عالم ہے۔ محبت دلوں کو اسیر کرتی ہے۔ محبت زندہ قوموں کا شعار ہے۔ محبت دلوں کو حیات بخشتی ہے اور انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ہمدری اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت انسان کی فطرت میں شامل اسی طرح کا ایک جزو ہے، جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر والوں سے، ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر، گلی، گاؤں، شہر اور ملک سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے، جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام فطرت کا ترجمان ہے، اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔جس طرح اسلام دوسر ے اعمال کا حکم دیتا ہے، اسی طرح اسلام فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محبت کا حکم بھی دیتاہے، جو اللہ نے ہمارے دلوں میں القاء کی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ ترجمہ:'' اس اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔''جب کہ حدیث میں آتا ہے: ''آپس میں تحفے تحائف دو اور محبت کرو۔''لہٰذا یہ فطری عمل ہونے کے ساتھ اسلام کا مطالبہ بھی ہے۔ اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینے کے لیے ہمدردی، اخوت ،بھائی چارہ ،ایثار وقربانی جیسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ حج اور ہر نماز کے موقع پر مسلمانوں کا ایک ساتھ مل کر خالق واحد کے سامنے سربسجود ہونا بھی انسانوں کو محبت کا موقع فراہم کرنا ہی ہے۔ محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، لیکن اس فطرت کا اظہار خدا، رسول، مذہب، والدین، اولاد، بیوی، شوہر اور محبوب میں سے ہر ایک کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اصولِ محبت میں توازن اور اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ محبت میں جس کا جتنا حق ہے، اسے اس مقام پر ہی رکھا جائے اور اسلام نے جو درجہ بندی کی ہے اس کی پابندی کی جائے۔
محبت انسان کے لیے سکون کا باعث ہے اور یہ سکون اپنے محبوب کو یا د کرنے سے حاصل ہو تا ہے۔ انسان ہر وقت اپنے محبو ب کی یا د میںہی کھونا پسند کرتا ہے۔ انسان کو جس سے محبت ہو اس کو اکثر یا د کرتا ہے۔ قرآن مجید میںایمان والوںکے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کو سکون اللہ کی یا د میں ملتاہے، کیونکہ ان کی سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے ہوتی ہے۔ کسی کے سامنے اپنی خواہشات کو قربان کردینے اور محبوب کی یاد میں کھوئے رہنے کا نام محبت ہے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے۔
کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔ محبت سے آشنا ہونے والا انسان ایسے مرض کا شکار ہوجاتا ہے، جس کو کوئی دوسرا انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ہوا کیا ہے۔ انسان کھویا کھویا سا رہتا ہے، دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے، لیکن اس کی بیماری کوئی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ تو انسان کی انسان سے محبت کا احوال ہے اور اگر انسان کو اپنے خالق سے محبت ہوجائے تو اس کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔ انسان کو ہر کام میں صرف اپنے خالق کی مرضی پر عمل کرنے کی ہی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔
سب سے اہم خدا تعالیٰ کی محبت کو پانا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اس کے احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ مخلوق سے محبت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہی ہے، کیونکہ مخلوق کو خدا تعالیٰ کا کنبہ کہا گیا ہے اور مخلوق سے محبت کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ ہی تو فرماتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ نفرت کے جذبات کو رفع کر کے محبت کے جذبات کو فروغ دے۔اگر خدا کی محبت حاصل کرنا چاہتا ہے تو خدا کی مخلوق سے محبت کرے۔
اگر انسان اپنے فطری جذبۂ محبت کو جذبۂ نفرت پر حاوی کرنے کے لیے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنے اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر قابو نہ پاسکے۔ نفرت کی آگ بجھانے کے لیے پہلے ہر انسان کو خود اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا اور اپنی زندگی کو مثبت رجحانات کے تابع کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے دل کو دوسروں کی نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ کر دنیا کو محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
نفرت جذبۂ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ منفی رجحان دیگر ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایسے دوست و احباب کا انتخاب کرنا چاہیے جو نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کرتے ہوں، تاکہ معاشرے سے نفرت کا خاتمہ ہو اور زیادہ سے زیادہ محبت پھیلے اور منفی ذہنیت کے ایسے افراد سے مکمل اجتناب و کنارہ کشی کی جائے جو ہمیشہ نفرت پھیلانے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں۔
انسان میں فطری جذبات و احساسات میں سے محبت سب سے اہم جذبہ ہے۔ محبت کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔اسلام بھی انسان کو محبت پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان محبت کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں میں نفرت کے کانٹے نہیں، بلکہ پیار و الفت کے پھول بانٹتا ہے۔ محبت کا اظہار صرف صنف مخالف ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اولاد کے لیے بے انتہا شفقت، والدین کی خدمت، بزرگوں کی عقیدت اور دوست احباب کی رفاقت کے ان گنت رنگوں سے سجی زندگی محبت کا اظہار ہی تو ہے۔ سب سے مضبوط رشتہ جو افراد کو کنبے، سماج اور قوم بناتا ہے، وہ محبت ہی ہے۔
یہ محبت ہی تو ہے جو وطن کے لیے جان قربان کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ محبت دل کی ایسی ریاست ہے، جہاں صرف سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ موجودات کی روح میں سب سے زیادہ نمایاں عامل محبت ہے۔ ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کا آپس میں محبت کا تبادلہ انسان کی اپنی مرضی سے ماوراء ہو تا ہے،کیونکہ منشاء ایزدی ان پر مکمل طور پر محیط ہو تی ہے۔ اپنی روح میں محبت کے بے جا استعمال سے اور اپنی ہی فطرت سے محبت لانے کے لیے ہرشخص کو چاہیے کہ دوسروں کی حقیقی مدد اور معاونت کرے،تاکہ معاشرہ محبت کا گہوارہ بن جائے۔
محبت فاتح عالم ہے۔ محبت دلوں کو اسیر کرتی ہے۔ محبت زندہ قوموں کا شعار ہے۔ محبت دلوں کو حیات بخشتی ہے اور انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ہمدری اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت انسان کی فطرت میں شامل اسی طرح کا ایک جزو ہے، جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر والوں سے، ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے گھر، گلی، گاؤں، شہر اور ملک سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے، جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام فطرت کا ترجمان ہے، اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔جس طرح اسلام دوسر ے اعمال کا حکم دیتا ہے، اسی طرح اسلام فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محبت کا حکم بھی دیتاہے، جو اللہ نے ہمارے دلوں میں القاء کی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ ترجمہ:'' اس اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔''جب کہ حدیث میں آتا ہے: ''آپس میں تحفے تحائف دو اور محبت کرو۔''لہٰذا یہ فطری عمل ہونے کے ساتھ اسلام کا مطالبہ بھی ہے۔ اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینے کے لیے ہمدردی، اخوت ،بھائی چارہ ،ایثار وقربانی جیسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ حج اور ہر نماز کے موقع پر مسلمانوں کا ایک ساتھ مل کر خالق واحد کے سامنے سربسجود ہونا بھی انسانوں کو محبت کا موقع فراہم کرنا ہی ہے۔ محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، لیکن اس فطرت کا اظہار خدا، رسول، مذہب، والدین، اولاد، بیوی، شوہر اور محبوب میں سے ہر ایک کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اصولِ محبت میں توازن اور اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ محبت میں جس کا جتنا حق ہے، اسے اس مقام پر ہی رکھا جائے اور اسلام نے جو درجہ بندی کی ہے اس کی پابندی کی جائے۔
محبت انسان کے لیے سکون کا باعث ہے اور یہ سکون اپنے محبوب کو یا د کرنے سے حاصل ہو تا ہے۔ انسان ہر وقت اپنے محبو ب کی یا د میںہی کھونا پسند کرتا ہے۔ انسان کو جس سے محبت ہو اس کو اکثر یا د کرتا ہے۔ قرآن مجید میںایمان والوںکے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کو سکون اللہ کی یا د میں ملتاہے، کیونکہ ان کی سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے ہوتی ہے۔ کسی کے سامنے اپنی خواہشات کو قربان کردینے اور محبوب کی یاد میں کھوئے رہنے کا نام محبت ہے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے۔
کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔ محبت سے آشنا ہونے والا انسان ایسے مرض کا شکار ہوجاتا ہے، جس کو کوئی دوسرا انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ہوا کیا ہے۔ انسان کھویا کھویا سا رہتا ہے، دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے، لیکن اس کی بیماری کوئی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ تو انسان کی انسان سے محبت کا احوال ہے اور اگر انسان کو اپنے خالق سے محبت ہوجائے تو اس کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔ انسان کو ہر کام میں صرف اپنے خالق کی مرضی پر عمل کرنے کی ہی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔
سب سے اہم خدا تعالیٰ کی محبت کو پانا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اس کے احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ مخلوق سے محبت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہی ہے، کیونکہ مخلوق کو خدا تعالیٰ کا کنبہ کہا گیا ہے اور مخلوق سے محبت کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ ہی تو فرماتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ نفرت کے جذبات کو رفع کر کے محبت کے جذبات کو فروغ دے۔اگر خدا کی محبت حاصل کرنا چاہتا ہے تو خدا کی مخلوق سے محبت کرے۔