جنگ بھارت سے نہیں ہند توا سے ہے
دونوں اطراف ترقی کا سفر بلا روک ٹوک ہو۔ انسان ایسی المناک تباہی سے محفوظ ہو جائیں۔
ISLAMABAD:
تاریخ کی آنکھیں کبھی کبھی اور کہیں کہیں دھندلی ضرور رہ جاتی ہیں۔ وجہ ہمیشہ مورخ کے وہ ذاتی جذبات جو تاریخ رقم کرتے ہوئے حالات و واقعات کو مکمل درستگی اور سچائی کے ساتھ تحریر کرنے میں مزاحم رہے۔ مورخین اکثر و بیشتر انسانی حسیات سے مغلوب ہو جاتے ہیں ان کا جھکاؤ کسی خاص شخص یا شخصیات کی جانب نہ ہو، ممکن نہیں۔ لہٰذا اگر کہا جائے کہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی ایک نقطہ نظر کو پڑھنا چاہیے تو غلط نہ ہو گا میں ''ہندوتوا'' پر ماضی قریب میں دو چار بار بحث کر چکا، وجہ یہ جاننے کی خواہش تھی کہ ہم بھارت کے پڑوسی ہونے کے ناتے ان سے مراسم کی کون سی قسم کو ترجیح دیں کہ امن قائم رہے، جنگ ٹلتی رہے۔
دونوں اطراف ترقی کا سفر بلا روک ٹوک ہو۔ انسان ایسی المناک تباہی سے محفوظ ہو جائیں جس کی بظاہر ہر وجہ جنون کہلاتا ہے میں آج بھی یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں انڈیا کے معاملے میں ''ہندوتوا'' کو سمجھنا ہو گا۔ ہمیں تاریخ کی دھندلی آنکھوں کو حقیقت کے واشنگ پاؤڈر سے صاف کرنا ہو گا۔ ''ہندوتوا'' سے میری مراد ہندو دھرم ہرگز نہیں۔ مذاہب عالم میں ایک یا ایک سے زیادہ خداؤں کا تصور موجود لیکن تمام اخلاقی اقدار کی پاسداری کا درس دیتے ہیں۔
امن و شانتی سبھی کا نکتہ اولین ''ہندوتوا'' ہندو مذہب نہیں بلکہ یہ ہزار ہا سال سے ایسی تنگ نظری کا شاخسانہ ہے جس میں یا تو آپ اعلیٰ ذات کے ہندو ہوں۔ ورنہ کمتر درجے کے کوہلی، بھیل، شودر، وہ اس کے درمیان کسی کو نہیں مانتے یعنی کسی اور مذہب، قوم، ذات، برادری کو سوا ارب آبادی کا ملک بھارت ہندوتوا کی فرسودہ سوچ میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ عرصہ دراز تک رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ ''بھگوان برہہما'' نے دھرتی پر کچھ خاص انسانوں کو ابدی برتری عطا کی ہے۔ چنانچہ جینے کے تمام حقوق بھی صرف انھی کے پاس ہیں۔ دھرتی پر باقی انسان انھی خاص انسانوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے۔ زمین پر کوئی مذہب سچا نہیں ہندو دھرم کو چھوڑ کر۔ کوئی تہذیب، ثقافت انھیں اس طبقۂ اشرافیہ کا رہن سہن ہی جینے کا اصل ڈھنگ ہے۔ ہندوتوا میں باقی انسان یا تو اپنے پچھلے جنم کی سزا کاٹنے کے لیے پیدا کیے گئے یا اشرافیہ کی خدمت چاکری کے لیے اب اگر ان مغضوب الغضب لوگوں میں سے کوئی یا کہیں سے حکم عدولی کی شکایت آئی تو اسے سزا دو۔
پہلی فرمائش بھگوان سے کہ وہ سزا دے۔ وہاں سے تاخیر پر یہ خود دیں گے۔ انڈیا میں ہر مقام پر۔ ہر صوبے، شہر میں ہندوتوا کی یہ سوچ غالب ہے، بہت پڑھے لکھے لوگ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ۔ اس فلاسفی پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ مختصر بات کو جامع انداز میں کہا جائے تو ''صرف ہم اور کوئی نہیں'' کچھ نہیں کہنا ہو گا۔ یہی وجوہات رہیں۔ متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کی۔ جس میں اب تین ممالک ہیں اسی سوچ نے ایک مشترکہ سماج کو پنپنے نہیں دیا اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی انڈیا کی ترقی میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اپنے ملک سے باہر پڑوسی بھی اسی رویے کا شکار ہیں۔
انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلا دیش، افغانستان، ایران، چین۔ ہمسایہ ممالک ہیں لیکن ہندوتوا ہمسائیگی کو نہیں مانتا۔ وہ تو دوسرے کی کم مائیگی کا قائل ہے یعنی آپ اسے بڑا تسلیم کریں۔ قبلہ و کعبہ مانیں۔ وہ جو چاہے سو کرے کوئی دخل دینے والا نہ ہو۔ اپنا فیصلہ کرنے کا اسے اختیار، آپ کے فیصلے بھی وہی کرے گا۔ اگر آپ نے اس کی بات نہ مانی تو اسے بہت سے فن آتے ہیں۔ وہ چانکیہ بھی ہے چالاکی، مکاری، جہل، فریب، گھٹی میں شامل، ورنہ جنگ بھاری پڑگیا تو کچل دے گا اس پر بھاری پیر پڑگیا تو آپ کو بھگوان سمان یعنی بھگوان جیسا مان لے گا۔ معافی تلافی کرلے گا۔
آپ کے پاؤں پکڑ کر اپنے کان پکڑ کر توبہ کر لے گا۔ لیکن دل جس میں ہندوتوا گھسا ہے وہاں کسی موقعے پر بدلنے کی شدید خواہش رکھے گا۔ اپنے آپ کو سیکولر کہلوانے والا بھارت، کشمیر میں بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے، ایسے ایسے مظالم جن کی اذیت کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔ بوڑھوں، بچوں پر ڈھا رہا ہے۔ کیا اب بھی دنیا کی سپر پاورز انڈیا کو سیکولر مانیں گے؟ یورپ کی خود ساختہ مہذب اقوام ان دنوں خاموش کیوں ہیں۔ تعجب ہوتا ہے شدید حیرانگی ہے مسلمانوں کو دہشتگرد قوم قرار دینے والے امریکی بھی چپ ہیں۔ کیونکہ آپ اسی ''ہندوتوا'' کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
ہندوتوا کی فلاسفی صرف انڈیا میں نہیں پورے خطہ ارض پر اسی سوچ کی حکمرانی ہے۔ جس تہذیب کا آپ دعویٰ کرتے ہیں وہ آپ کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ عراق، افغانستان، ویت نام آپ کے تمدن کا شاہکار ہیں جنھیں آپ نے برباد کر دیا۔ ایسی افواہوں پر جو مبنی بر سچ نہیں تھیں۔ لاکھوں انسانوں کو آپ نے مارا نہیں، خون پیا ہے انسانیت کا اور پی رہے ہیں شام میں، کشمیر میں اور دنیا کے ہر اس خطے میں جہاں آپ کے مفادات پورے ہوتے ہوں۔ کیونکہ ہندوتوا جس کی شاید جزوی سی وضاحت میں کر سکا۔ کے سب سے بڑے پیروکار آپ ہیں آپ کی جملہ ترقی معاشرت، اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ دنیا سے اسلام کا مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے، انسان اگر کہیں آپ کے علاوہ آباد ہیں تو آپ کے غلام بن کر رہیں۔ اور آپ اس نقطہ نظر کے سب سے بڑے داعی ہیں کہ آپ و اتحادیوں کے علاوہ باقی دنیا آباد ہی آپ کی خدمت کے لیے کی گئی ہے۔
میں انسانی تہذیب و ترقی کا بدترین حال دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ قومیں زیادہ بہتر ہے جہاں تعلیم کی کمی ہے۔ وہ معاشرے زیادہ متمدن ہیں جہاں انسان کم آگہی رکھتا ہے وہاں لوگ بھیڑیے نہیں خون آشام نہیں۔ انسانیت کی بو باس آج بھی وہیں محسوس ہوتی ہے جہاں آپ جیسی سپر پاورز نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کبھی انڈین معاشرہ حکومت ہمیں تسلیم کرے گا۔
یہ فنکاروں کی آمد و رفت، امن کے طائفے، تجارت، ثقافت کے سلسلے کامیاب نہ ہوں گے، ڈھونگ بن کر رہ جائیں گے۔ کیونکہ وہاں ہندوتوا ناگ بن کر بیٹھا ہے اور وہ نہیں مرنے والا۔ چنانچہ گاہے بگاہے سرحدی جھڑپیں اور کبھی کبھار سائرن یا زیادہ سے زیادہ وزیراعظم کی سلامتی کونسل میں تقریر جس میں ان پر ایک عجیب طرح کا بوجھ یہ بھی تھا کہ جملے گن کر بولنے ہیں جن میں دشمن کو للکارنا بھی ہے اور پیار کی خفیہ سی بانسری بھی ہونی چاہیے۔