شاعر‘ شاعری اور تنقیدی معاملہ
یہ توڑ جوڑ کسی مکینکل سطح پر نہیں ہوتی۔ یعنی جب آپ کسی گیجٹ کے پرزے کھول کر الگ کرتے ہیں۔
شاعروں میں یہ عارضہ بہت عام ہے کہ ان کے کام کے بارے میں اچھا اچھا بلکہ بہت اچھا نہ کہا جائے تو کہنے والے کی صورت بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ میرا یقین ہے کہ اگر پہلے قدم پر تنقید دیانتدارانہ ہو اور دوسرے قدم پر تخلیق کار حوصلے اور کشادہ دلی سے کام لے تو تنقید جوڑنے کا کام کر سکتی ہے۔ ہمارے ادبی سماج نے اپنے قول و عمل سے تنقید کے لفظ کو توڑنے کے معانی کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ ادبی تنقید فن پاروں کو پہلے قدم پر اندر سے توڑتی ضرور ہے لیکن اگلے قدم پر اسے ایک اور سطح پر نئے سرے سے جوڑ دیتی ہے۔
یہ توڑ جوڑ کسی مکینکل سطح پر نہیں ہوتی۔ یعنی جب آپ کسی گیجٹ کے پرزے کھول کر الگ کرتے ہیں تو اس گیجٹ کوقابل استعمال بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ تمام پرزے بالکل اسی طرح جوڑے جائیں' جیسے پہلے جڑے ہوئے تھے۔ فن پارے کے عناصر کو جب اندر سے کھولا جاتا ہے تو وہ اپنی اصل حالت میں برقرار نہیں رہ پاتے۔ لسانیات کی اصطلاحوں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کی مدد سے اسے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ گیجٹ (مثال کے طور پر ہیڈ فون) سگنی فائر ہے' ایک جسمانی شکل رکھتا ہے۔
اس گیجٹ کا جو کام ہے' وہ سگنی فائیڈ ہے جس کی کوئی جسمانی شکل نہیں ہے یعنی سمعی اشارے سننا، اس کا ایک اور مقصد بھی ہے' یعنی طرز زندگی کو باسہولت اور معیاری بنانا۔گیجٹ جو معنی ظاہرکرتا ہے وہ یک رخی نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معنی یا سگنی فائیڈ کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔لیکن پرزے علیحدہ کیے جانے کے بعد اگر انھیں بالکل اسی طرح نہ جوڑا جائے تو یہ پرزے مل کر بھی کوئی معنی تشکیل نہیں دیتے۔اس کے باوجود یہ پرزرے یا عناصر اپنی اصل حالت میں برقرار رہتے ہیں اور انھیں جب بھی درست طور پر جوڑا جائے گایہ اپنا مخصوص معنی ظاہر کر دیں گے۔
اس کے برعکس فن پارہ جب اندر سے ٹوٹتا ہے اور اس کے عناصر الگ الگ ہوتے ہیں' تو ان عناصرکے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ سگنی فائیڈ کی پرتیں کتنی گہرائی تک اتری ہوئی ہیں۔فن پارے کے معمولی اورغیر معمولی عناصرکا تجزیہ ہی اسے نئی معنوی سطح پر استوار کرتا ہے۔ یعنی فن پارہ اندر سے توڑے جانے کے بعد اصلی یعنی ظاہری صورت یاسگنی فائیڈ کی بجائے ان صورتوں کو ظاہر کرنے لگتا ہے جو پہلے مخفی یابہ ظاہر موجود نہیں تھے۔اس لیے تنقید کے عمل کو اکابرپرستی' خوشامد پسندی اور دوست داری سے جوڑنا اسے روبہ عمل لانے سے روکنا ہے۔اردو تنقید اس کا شکار رہی ہے۔
شعرا کے فن کا گہرا اور تنقیدی تجزیہ مکمل توجہ اور وقت مانگتا ہے۔تنقیدی شعور اور سنجیدگی نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں ہوتا۔ چناں چہ ہمارے بزرگ شعرا نہ صرف یہ کہ خود کوسب سے بڑا شاعر کہنے اورکہلوانے لگتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سرٹیفکیٹ کا اجرا شروع کردیتے ہیں۔شاعری اب ان کے لیے ریل گاڑی بن گئی ہے جس میں انھوں نے اپنی منشا کے مطابق فرسٹ اور تھرڈ کلاس کے ڈبے لگا دیے ہیں۔ فنون تو جزیرہ بھی نہیں ہے' فنون تو سمندر بھی نہیں ہے' فنون تو پوری کائنات ہے۔ فنون کا ہر شعبہ ایک الگ کائنات ہے۔ اگر ادیب و شاعر وسعت ِنظری کے حامل ہوں' تو وہ کبھی لفظ اور لفظ کی کائنات کو اتنی غیرسنجیدہ اور سطحی رویوں کا شکار نہ بنائیں۔
شاعری کی کائنات کو ریل سمجھنے والے خواہ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں کیوں نہ ہوں' وہ اپنی محدود حیثیت خود متعین کر رہے ہوتے ہیں۔ شاعروں کو ریل کے ڈبوں میں چڑھائی جانے والی جنتا بنانے کا رویہ ختم کیا جانا ضروری ہے۔ اب تنقیدی شعور رکھنے والی نئی سنجیدہ نسل بزرگوں کی وراثت سے پلٹ رہی ہے۔ جس طرح غزل میں جدید رجحانات نے روایت کو ایک حد تک محدود کر دیا ہے اسی طرح تنقید' فن کے تجزیے اور فن کی قدر کو دریافت کرنے کے سلسلے میں بھی بزرگوں کی لیگیسی اب زیادہ معتبر نہیں رہی ہے۔
فن کے تعین قدر پرکافی سے زیادہ مباحث ہوچکے ہیں، لیکن جو نکتہ نظرانداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فن پارے پر قدر کا فیصلہ باہر سے نہیں تھوپا جاسکتا۔ فن پارے سے اگر قدرکی دریافت نہیں ہو سکتی تو باہر سے کسی قسم کا فیصلہ صادر کرنا ایک بے کار مشق ہے۔ یہ فن پارہ ہی ہے جو اپنی قدر خود متعین کرتا ہے اور خود کو اپنے اندر ہی سے رد بھی کرتا ہے۔ ادبی' سیاسی' ثقافتی متون کی شناخت کا قضیہ بھی اسی نکتے سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ غالب اور ذوق کے مابین قدر کا فیصلہ نقاد نہیں کرتا بلکہ یہ متون خود اپنی قدر متعین کرتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ نقاد ہی کرتا' تو ذوقؔ کو غالبؔ کے مقام پر بٹھایا جا چکا ہوتا۔
نقاد' ادبی متون میں موجود لسانی' ثقافتی اور جمالیاتی رشتوں کی سچائی و کذب بیانی کو نشان زد کرتاہے۔ قاری کی توجہ ان باریکیوں کی طرف مبذول کراتا ہے جن تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ قدر کا فیصلہ اور قدر کی دریافت دو مختلف چیزیں ہیں۔ جھگڑا بھی ان میں تفریق نہ کیے جانے کے سبب رونما ہوتا ہے۔ نقاد قدر کا فیصلہ نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے۔ اس کا وظیفہ فن پارے کے اندر سے اس کی قدر دریافت کرنا ہے۔ یہ کام فیصلے والے کام سے مشکل اور باریک ہے۔ اس کے لیے نقاد کو فن پارے کے اجزا کی تفہیم کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سماجیات کا تقاضا ہے کہ فرد کی صلاحیتوں اور امکانات کو جانچنے کے لیے معاشرے کے دیگر افراد کی صلاحیتوں اور امکانات کو مدنظر رکھا جائے۔ شاعر بطور فرد عام معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لیکن بطور شاعر شعرا کے مخصوص سماج سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی شاعر کی شعری صلاحیتوں اور امکانات کو اس کے ہم عصر شعرا کی صلاحیتوں اور امکانات کے تناظر میںبہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جمود اور ارتقا کا باہم متخالف سیٹ ایک ایسی کسوٹی ہے جو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ شاعر اپنے شعری سفر میں کہیں پڑاؤ ڈالے مگن ہے یا مسلسل حرکت میں ہے اور حرکت بھی آگے کی طرف ہے نہ کہ پیچھے کی طرف' یا حرکت تو ہے لیکن بے سمت اور بے ترتیب' جسے بے معنویت سے معنون کیا جا سکتا ہو۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر شاعر اچھا شعر کہہ رہا ہو تو اس کے باوجود یہ عمل جمود کا شکار ہو سکتا ہے۔ اگرکسی شاعر کی شاعری اچھی تو ہو لیکن اس میں مسلسل ارتقا کا رجحان نہ ہو' تو یہ جمود کی علامت ہے۔ یعنی جمود کے باوجود اچھی شاعری ممکن ہے تاہم اس کی زندگی اپنے اندر نہ تو وسعت کی حامل ہوتی ہے نہ طوالت کی۔ یہ کہیں بھی ایک پتھر کی مانند طاق نسیاں کا شکار ہو سکتی ہے۔