ایم کیو ایم میں پڑنے والی دراڑ نے پی پی پی کو متحرک کردیا

مقامی قیادت شہری علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کوشاں

مقامی قیادت شہری علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کوشاں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
متحدہ قومی موومنٹ کی لندن اور پاکستان قیادت کے درمیان بڑھتے فاصلوں کے باعث سکھر میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکن اور ووٹر تذبذب کا شکار نظر آرہے ہیں۔

پارٹی ذمے داروں اور کارکنوں نے چپ سادھ لی ہے۔ شہری سطح پر مضبوط ووٹ بینک رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی بحران اور دھڑے بندیوں کے بعد سکھر میں اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے پیپلزپارٹی سرگرم ہوگئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ نے اپنے دو روزہ دورے میں شہریوں سے ملاقاتوں اور اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کا گویا ریکارڈ قائم کردیا۔ سید مراد علی شاہ کی سندھ کے تیسرے بڑے شہر پر خصوصی توجہ سے پیپلزپارٹی کا مورال بلند ہوا ہے۔ سکھر کی سیاست میں واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔

وہ بیوروکریسی جو سید خورشید شاہ کے قریب نظر آتی تھی، اب ان کی توجہ مراد علی شاہ، ان کے قریبی دوست سابق رکن سندھ اسمبلی، سید جاوید شاہ، رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ اور میئر سکھر بیرسٹر ارسلان شیخ پر مرکوز ہوچکی ہے۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ کے صاحب زادوں اور سید جاوید علی شاہ کی جانب سے جس بھرپور انداز میں وزیر اعلیٰ کا استقبال کیا گیا، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں پیپلزپارٹی کے تنظیمی سیٹ اپ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ مذکورہ شخصیات کے حمایت یافتہ افراد کو اہم عہدوں پر فائز کیا جاسکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے حالیہ دورے میں فوڈ اسٹریٹس اور دیگر مقامات پر عوام سے ملاقاتیں کیں اور پروٹوکول کے بغیر ان کے درمیان رہے، جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی جوکل تک شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ سے پیچھے تھی، اب واضح طور پر آگے نظر آرہی ہے۔ رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کی جانب سے سکھر ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں سید مراد علی شاہ نے جہاں دیگر امور پر اظہار کیا، وہیں 2013 کے عام انتخابات میں پی ایس 1 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کی شکست اور متحدہ قومی موومنٹ کی کامیابی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا، باہمی اتفاق نہ ہونے کے باعث ایک اہم نشست ہم نے گنوا دی، آئندہ انتخابات میں یہ سیٹ دوبارہ حاصل کی جائے گی۔ اس موقع پر ضلع سکھر اور گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، وزراء اور ذمے داروں کی ایک فوج وزیر اعلیٰ کے گرد نظر آئی۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ کسی طرح وزیر اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرلی جائے۔

پیپلزپارٹی کے بعض اہم راہ نما بیوروکریسی اور کارکنوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے بے حد قریب ہیں۔ سید خورشید شاہ کے سیاسی مخالف سمجھے جانے والے سید جاوید شاہ کو وزیر اعلیٰ کے نزدیک تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ اُنھوں نے ضلع کونسل میں اپنے صاحب زادے کے لیے وائس چیئرمین کی سیٹ حاصل کی ہے۔ یوں لگتا ہے، پی پی سکھر میں ہونے والی تنظیم سازی میں شہری سطح پر سینیٹر اسلام الدین شیخ اور ضلع کی سطح پر جاوید شاہ کا پلڑا بھاری رہے گا۔


سکھر میں منعقدہ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت ملکی دفاع کے لیے مسلح افواج اور اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، ملکی سالمیت پر دو رائے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا، ہر سیاسی پارٹی کو قانون کے دائرے میں رہنا ہوگا، 22 اگست کو پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں، 22 اگست کو کہا گیا کہ سی ایم ہاؤس پر حملہ ہونے والا ہے، جس پر ہم نے کہا، جی بسم اللہ، جسے سی ایم ہاؤس آنا ہے وہ آجائے، لیکن بعد میں ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ میڈیا چینلز پر حملہ ہوگیا ہے۔ سید مراد علی شاہ کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے متحدہ کے بانی کو مسترد کردیا ہے، سندھ اسمبلی میں بھی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی پر بحث ہوچکی ہے۔

کئی محکموں میں بدعنوانی کی شکایات موصول ہورہی ہیں، تحقیقات بھی جاری ہیں، کرپٹ افراد کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ بلدیاتی نمائندوں کو عوام کی خدمت کے لیے تمام اختیارات دیے ہیں، سندھ کے حالات میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ سکھر میرا اپنا شہر ہے، شہر میں جاری ترقیاتی کاموں میں کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے میونسپل کارپوریشن کی خستہ حالی کے پیش نظر کمشنر سکھر کو ہدایت دی کہ وہ میئر کے دفتر کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں ۔

سکھر کی سیاست میں سید خورشید احمد شاہ نمایاں ترین نام ہیں۔ اپنے آبائی علاقے کے دوروں کے موقعے پر وہ ذرائع ابلاغ کی توجہ کا محور رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے یہاں قیام کے دوران تو پس منظر میں رہے، مگر ان کے جانے کے فوراً بعد سید خورشید شاہ نے دبنگ انداز سے انٹری دی۔ انھوں نے پاک بھارت کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، پاک بھارت جنگ چھڑی، تو یہ تیسری عالمی جنگ بن جائے گی، جو پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی، مودی سرکار پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔

بھارت ایک بڑے ایجنڈے پر کام کررہا ہے، مگر ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، پاکستان اس وقت عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے، سب سیاسی جماعتیں ملکی مفاد میں ایک ہیں، ملکی بقاء پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں، پاک فوج آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کا بے جگری سے مقابلہ کررہی ہے، وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر ضرور کیا، مگر یہ مسئلہ ایسے حل نہیں ہوگا، وزیر اعظم کو اپنے خطاب میں بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے تھا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت، بھارت کی براہمداغ بگٹی کی حمایت اور سازشوں سے پردہ ہٹانا چاہیے تھا۔

موجودہ حالات میں سکھر میں پی پی کی تنظیم سازی کا عمل انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایک سبب تو ایم کیو ایم میں پڑنے والی دراڑ ہے، دوسری وجہ نئے وزیر اعلیٰ کی سکھر میں بڑھتی دلچسپی ہے، جس نے پی پی پی سکھر کے ذمے داروں کو متحرک کر دیا ہے۔
Load Next Story