کیا تحریک انصاف رائے ونڈ مارچ کامیاب کر پائے گی

عمران خان نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی سیاسی میدان میں باہر نکلنے کی دعوت

30 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو لاہوربند کردیںگے، عمران خان۔ فوٹو؛ فائل

KARACHI:
اس وقت قوم کی نظریں تحریک انصاف کی طرف سے30 ستمبر کو لاہور میں ہونے والے رائے ونڈ مارچ پر لگی ہوئی ہیں جس کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تمام تر توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔

ایک طرف انہوں نے اس ایونٹ کو کامیاب کرانے کے لیے پورے ملک سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو کال دے رکھی ہے، دوسری طرف جماعت کی انتظامی کمیٹیوں، ذیلی تنظیموں، پارٹی ٹکٹ ہولڈرز اور امیدواروں کے لیے اس ضمن میں خصوصی اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔ انہوں نے اسے ہر صورت میں ایک تاریخی ایونٹ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ رائے ونڈ مارچ میں صرف دو دن رہ گئے ہیں جس سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان نے لاہور میں ڈیرے جما لئے ہیں اور وہ 30 ستمبر تک لاہور میں ہی قیام کریں گے۔ وہ آج 28 ستمبرکو لاہور میں ریلی کی قیادت کریں گے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارا رائے ونڈ مارچ پر امن ہوگا ۔30 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو لاہوربند کردیںگے اور اگر کارکنوں پر تشدد ہوا تو حالات کے ذمہ دار حکمران ہوں گے۔ پی ٹی آئی رائے ونڈ مارچ کو کامیاب بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ رائے ونڈ مارچ کیلئے فنڈ ریزنگ بھی ہو رہی ہے مگر اس بار فنڈ ریزنگ میں مشکلات آرہی ہیں۔ قومی وصوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے بھی فنڈز مانگے گئے ہیں۔ 2014 ء کے دھرنے میں پی ٹی آئی کے انویسٹر نے بہت پیسہ لگایا اور اضلاع کی سطح پر پارٹی تنظیموں اور ٹکٹ ہولڈرز کو لوگ لانے کیلئے فنڈز دئیے گئے تھے مگر اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پارٹی تنظیموں اور ٹکٹ ہولڈرز سے فنڈز مانگے جا رہے ہیں۔

عمران خان کے لیے ایک مشکل یہ ہے کہ ان کا جن جماعتوں پر تکیہ تھا وہ طرح دے گئی ہیں۔ ان میں طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور دوسری کے پی کے میں ان کے ساتھ اقتدارکی سانجھے دار، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی ہیں۔ اس صورت حال نے انہیں مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار بنا دیا ہے اور اس مایوسی کے عالم میں وہ ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں کہ جو اس سطح کے لیڈر کے شایان شان تصور نہیں کیے جاسکتے۔

حالات نے انہیں اس مقام پر لاکھڑ ا کیا ہے کہ اب وہ ان دونوں جماعتوں سے مایوس ہو کر پیپلزپارٹی کی بیساکھیوں کا سہارا حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی سیاسی میدان میں باہر نکلنے کی دعوت دی ہے۔ مشیر اطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو نے عمران خان کی جانب سے بلاول بھٹو کو دعوت دینا خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ خان صاحب ! بلاول بھٹو آپ کومایوس نہیں کریں گے مگر آپ کارویہ بھی اپنوں جیسا ہونا چاہیے۔ تاہم پیپلزپارٹی نے عمران خان کے رائے ونڈ مارچ کی حمایت نہیں کی۔ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے وفود نے پی ٹی آئی کی 3 ستمبر لاہور ریلی میں شرکت کی تھی لیکن اب 30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ میں کوئی بھی اپوزیشن جماعت شرکت کیلئے تیار نہیں ہے۔


2014ء کے دھرنے میں عمران خان کے پارٹنر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی ان کاساتھ چھوڑگئے ہیں۔ دونوں جماعتوں میں پھر دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ عوامی تحریک نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ناراضی کے سوال پر عمران خان کے جواب کو غیر مہذب اور غیر ذمہ دارانہ قراردیا ہے اور اب عوامی تحریک نے باقاعدہ طور پر رائے ونڈ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ عمران خان کی سولوفلائٹ سیاسی تنہائی کاشکار ہوگئی ہے۔ دوجماعتیں عوامی تحریک اور مسلم لیگ (ق) سب سے زیادہ اینٹی نواز تصور کی جاتی ہیں مگر وہ بھی عمران خان کی موومنٹ میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں اوران کی پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے۔

دوسری طرف پنجاب حکومت نے بھی تمام صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے موثر اور فول پروف حکمت عملی طے کر لی ہے۔ پہلے مسلم لیگ (ن) نے ڈنڈا فورس اور جانثار فورس کے مسلح دستے تیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے واضح طور پر پارٹی کارکنوں کو ایسی سر گرمیوں سے روک دیا ہے۔ اب حکومت نے تحریک انصاف کو فری ہینڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ واضح کیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی بھی کوشش کو سختی کے ساتھ ناکام بنا دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پولیس کو بھی خصوصی ہدایات جاری کردی ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر یہ گمان کیا جارہا ہے کہ 30 ستمبرکادن کسی ناخوشگوار واقعہ کے ظہور پذیر ہوئے بغیر امن وامان کے ساتھ ہی گزر جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) پی پی 7ٹیکسلا کا ضمنی الیکشن بھی جیت گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کی نشست چھین لی ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں اس نشست پر پی ٹی آئی کے صدیق خان جیتے تھے اور وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان الیکشن ہار گئے تھے۔ پی پی 7ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوار نے ساڑھے پانچ ہزار ووٹ حاصل کئے اور تقریباْ اتنے ہی ووٹوں سے پی ٹی آئی کے امیدوار عمار صدیق خان ہارے ہیں۔ رواںماہ 19ستمبر کو چیچہ وطنی این اے 162کا ضمنی الیکشن بھی پی ٹی آئی ہارگئی تھی اورمسلم لیگ (ن) کے چودھری طفیل جٹ واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے تھے۔

پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم صحیح طرح نہیں چلائی اور ان کی توجہ کامرکز ریلیاں رہی ہیں۔ اگر ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار جیت جاتے تواس سے انہیں سیاسی طور پر زیادہ فائدہ ہوتا اور حکومت کی سبکی ہوتی۔ پی ٹی آئی نے اس پہلو کو نظرانداز کیا پی ٹی آئی بلدیاتی اور آزادکشمیر کے انتخابات میں بھی بری طرح ہار چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پی پی7 ٹیکسلا کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک محمد عمر فاروق کی شاندار کامیابی پر انہیں مبارکباددی ہے اورکہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی واضح برتری سے جیت عوام کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔ عوام نے دھرنا اور احتجاجی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔ اپنی ہی جیتی ہوئی نشست ہارنے والوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

دھرنے والے انتشار کی سیاست چھوڑ کر ملک کی ترقی میں حکومتی کوششوں کا ساتھ دیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینٹر پرویز رشید پانچ روزہ دورہ چین کے بعد واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں اور وہ اپنی حکومت اور پارٹی قیادت کے دفاع کیلئے حسب معمول متحرک ہوگئے ہیں۔ پرویز رشید کا کہناہے کہ'' نوازشریف ملکی ترقی کیلئے کوشش کر رہے ہیں لیکن عمران خان کراچی سے پشاور تک لوگوں کا ہلہ گلہ کرنے کیلئے رائے ونڈ جمع کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ساڑھے تین سالوں میں جوسیاست کی ہے اسے ہم نے صبروتحمل سے برداشت کیا۔ سیاست اور اپنی پارٹی کو تباہ کرنے کا جو ہنر عمران خان کو آتا ہے وہ اور کسی کو نہیں آتا۔ ہم 2018 ء کے عام انتخابات میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی عوام کو دکھائیں گے''۔

ضمنی انتخابات میں مسلسل شکست پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پی ٹی آئی کو انتخابی سیاست پر توجہ دینا ہوگی اور سیاسی تنہائی ختم کرنے کیلئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
Load Next Story