بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کا ماحول
جنگ کسی ایک ملک کے لیے تباہی نہیں لاتی اس کا نقصان دونوں ممالک کو ہوتا ہے
کیا واقعی بھارت میں موجود ہندواتہ کی بنیاد پر سیاست کرنے والی بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ حتمی طور پر جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں جنگ کی باتیں کرنا آسان جب کہ عملی جنگ کرنا مشکل امر ہے۔
جنگ کسی ایک ملک کے لیے تباہی نہیں لاتی اس کا نقصان دونوں ممالک کو ہوتا ہے۔ بظاہر تو لگتا ہے جیسے بھارت نے عملاً پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس کے ردعمل میں پاکستان کے اندر بھی جنگ سے نمٹنے کے اقدامات اور میڈیا کی جنگ نظر آنے لگی ہے ۔
بھارت جو اپنے دستور کی بنیاد پر سیکولر ہے، چنانچہ اسے سیکولر سیاست کے دائرۂ کار میں ہی آگے بڑھنا ہے۔ لیکن اب بڑی تیزی سے بھارت کی سیکولر سیاست ایک مذہبی سیاست یا ہندواتہ کی سیاست کے طور پر ابھر رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں موجود مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہندواتہ کی سیاست میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی کو سخت گیر جماعت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن نریندر مودی کی حیثیت بی جے پی میں دیگر راہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر اور مسلم دشمنی کی حامل ہے۔
گجرات میں بطور وزیر اعلی جو کچھ ان کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا وہ بھارت کی تاریخ کا شرمناک پہلو ہے۔ اس وقت نریندر مودی کی حکومت میں بھارت کی سفارتکاری کا پہلا بنیادی نکتہ محض پاکستان پر الزام تراشی کی سیاست ہے۔ بھارت میں کوئی بھی واقعہ دہشتگردی کے تناظر میں ہو تو چند منٹوں میں ہی بھارتی حکومت اور میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ڈال دیا جاتا ہے۔
تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بھارت میں جو بھی دہشتگردی ہے اس کے تانے بانے کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے جا ملتے ہیں۔ بھارت اپنی رائے پھیلانے والے انفرادی اور اجتماعی اداروں کی مدد سے بھارتی عوام میں اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ دہشتگردی کی بنیادی وجہ پاکستان ہے۔ اس میں ایک اور منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سول قیادت کے مقابلے میں پاکستان کی عسکری قوت بنیادی طور پر بھارت دشمنی کا ایجنڈا رکھتی ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی کہانی سامنے آئی ہے اس سے بھارت داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بڑے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو نوجوانوں کی سطح پر بھارت کی جارحیت کے خلاف مزاحمتی عمل سامنے آیا ہے وہ یقینی طور پر بھارت کے لیے حیران کن ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ ماضی کی طرح طاقت کے استعمال سے اس مزاحمتی عمل کو کچل دیا جائے گا۔ لیکن وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی مزاحمت نے بھارت کو ایک بڑی مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
اس وقت کشمیری نوجوان سخت بھارتی عتاب میں ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیمی اداروں سے مزاحمت کی بنا پر نکالا جا رہا ہے۔ جو بھی نوجوان کشمیر کی جدوجہد کی حمایت اور بھارتی جارحیت کی بات کرتا ہے تو اسے بھارت کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ کشمیریوں کی داخلی جدوجہد ہے، لیکن بھارت حالیہ کشمیری مزاحمت کو بھی پاکستان کی حمایت سے جوڑ کر اس کے خلاف مخالفانہ مہم چلا رہا ہے۔اس وقت بھارت سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے یا اس پر بڑا دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
بھارت کا خیال ہے کہ وہ اپنی عالمی سفارتکاری کی بنیاد پر پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لا سکتا ہے۔ بھارت کی سفارتکاری کا پاکستان مخالف بنیادی نکتہ یہ ہی ہے کہ پاکستان بھارت میں بطور ریاست دہشتگردی کرنے یا اسے طاقت فراہم کرنے یا معاونت کرنے میں براہ راست ذمے دار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت عالمی دنیا کو یہ ہی باور کروا رہا ہے کہ دوستی اور دہشتگردی کا ایجنڈا ایک ساتھ نہیں چل سکتا۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس وقت جو عالمی اور علاقائی صورتحال ہے اس کا فائدہ اٹھا کر ہم پاکستان کے خلاف عالمی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ہم عالمی دنیا کو بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں پر دباؤ میں لا سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ امریکا سمیت عالمی دنیا بھارت کو چھوڑ کر ہماری حمایت میں پیش پیش ہوگا، پوری طرح ممکن نہیں۔بھارت میں جاری ہندواتہ یا انتہا پسند سمیت پاکستان مخالف سیاست کے دو مناظر اہم ہیں۔ اول راشٹریہ ہندو کرانتی دل جو بی جے پی کی اتحادی تنظیم ہے نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس جو میڈیا میں بھرپور انداز سے دکھائی گئی ہے، میں وزیر اعظم نواز شریف کے سر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے لگائی ہے۔
اس پریس کانفرنس کی مدد سے جنونی بھارتیوں کو وزیر اعظم نواز شریف کے قتل کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگرچہ یہ جنونی ہندوؤں کی پریس کانفرنس تھی، لیکن اس کے ردعمل میں میں بھارتی حکومت، وزیر اعظم اور دیگر سیاسی زعما کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ اس جنونی سیاست کو حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوئم، بھارت کا میڈیا پاکستان اور مسلم دشمنی میں بہت آگے تک جاتا ہے۔
اس بار بھی جنگی جنون پیدا کرنے میں بھارتی میڈیا پیش پیش ہے۔ اس وقت پاکستان مخالف زہریلی مہم چلائی جا رہی ہے وہ بھی توجہ طلب ہے۔ پاکستان کی جمہوریت، ترقی، سول ملٹری تعلقات،بھارت مخالف ایجنڈا، اقلیتوں کے خلاف اقدامات سمیت بلوچستان اور کراچی میں انسانی حقوق کی صورتحال کی خرابی کو تواتر سے اجاگر کر کے سیاسی تعصب پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو بداعتمادی یا تعلقات کی خرابی نظر آ رہی ہے اس میں ایک فریق بھارت بھی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلی جنس کا باہمی گٹھ جوڑ بھی خرابیوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کو اپنے لفظوں، اقدامات، پالیسیوں اور حکمت عملیوں سے مفاہمت کی سیاست کے رنگ کو بالادستی دینی چاہیے۔ لیکن ایسا ہمیں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس میں یقینا کچھ عوامل پاکستان سے بھی ہونگے جو رکاوٹ بن رہے ہیں، لیکن جو جنگی جنون کا ماحول بھارت میں موجود مودی حکومت نے بنایا ہوا ہے اس کو ہر سطح پر روکنے کی ضرورت ہے۔ یقینا جو موڈ مودی سرکار کا ہے وہ پورے بھارت کا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کا اظہار ہمیں مودی سرکار کے خلاف بھارتی میڈیا میں کم نظر آتا ہے۔
بھارت کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ اگر اس کے پاکستان سے کچھ تحفظات ہیں تو یہ مسائل یکطرفہ نہیں ہیں۔ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی ان سے بہت سے مسائل، شکایات اور تحفظات ہیں۔ دو طرفہ مسائل اور تحفظات کے حل کی پہلی سیڑھی ایک دوسرے پر اعتماد سازی اور بات چیت کے ماحول کو بڑھانے سے ہی ممکن ہو گی۔
لیکن اگر پاکستان کو یہ تاثر ملے کہ بھارت کی پالیسی پاکستان پر دباؤ ڈالنے، عالمی سفارتکاری کی مدد سے پاکستان پر پابندیاں لگوانے، کراچی اور بلوچستان میں مداخلت، یا پاکستان کو بطور ریاست دہشتگردی میں سہولت کار کے طور پر پیش کرنا ہے، تو پھر مفاہمت کا ایجنڈا بہت پیچھے چلا جائے گا۔ بھارت جو ترقی کا ایک بڑا ایجنڈا رکھتا ہے اسے بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ ترقی اور انتہا پسندی کے ایجنڈے کو مشترکہ طور پر آگے نہیں بڑھا سکتا۔
کیونکہ جب آپ کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو بعض اوقات وہ آپ کے مخالفین کے ساتھ ساتھ خود آپ کے خلاف بھی استعمال ہو جاتا ہے، کیا بھارت کی حالیہ قیادت اس بحران کو سمجھنے کا ادراک رکھتی ہے تو اس کا جواب کافی مبہم ہے، جو ہمارے ساتھ ساتھ خود بھارت کے لیے بھی خطرہ ہے۔