بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہ کیا جائے۔
KARACHI:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہ کیا جائے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔
کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ بلکہ کشمیر کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ریفرنڈم میں اپنی رائے دے کر پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی اسی امر پر زور دیا گیا تھا، لیکن 70 سال سے کشمیری عوام اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
اس کے برعکس بھارت کے ظالم حکمرانوں نے ان قراردادوں پر عمل کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کی بجائے کشمیر کے عوام کی تین نسلوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور تمام سیاسی اخلاقی تقاضوں اور بین الاقوامی قوانین کو نظر اندازکرکے بھارت کشمیر کو بڑی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔
برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کے لیے جو فارمولا بنایا تھا۔اس کے تحت مسلم اکثریت کی حامل ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا تھا، لیکن بھارتی حکمرانوں نے جبروتشدد اور مکاری سے کام لیتے ہوئے جموں وکشمیر پر قبضہ کرلیا اوراس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں واویلا مچایا اور بالآخر عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ کشمیری عوام ریفرنڈم کے ذریعے جس کے ساتھ الحاق کا وعدہ کریں گے وہ بھارت کو قبول ہوگا، مگر بھارت مکروفریب اور ظلم و ستم سے کام لیتا رہا اورکشمیری عوام کو استصواب رائے سے محروم رکھا گیا۔
کشمیری عوام کو داد دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اپنے حق رائے دہی پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ 70 برس کے دوران ان کی جدوجہد آزادی اور پاکستان سے الحاق کی خواہش روزبروز شدت اختیارکرتی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ کشمیری شہید اور زخمی ہوئے۔ پاکبازکشمیری عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں ماورائے عدالت ہلاک کردیا گیا۔
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی 70 برس کے دوران کئی نشیب وفراز سے گزرتی رہی مگر بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزدی کو کچلنے میں ہمیشہ ناکام رہا۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو حالیہ دنوں میں اس وقت ایک نئی توانائی میسر آئی اور مشعل آزادی اتنی تیزی سے بھڑکا کہ اس سے آج پورا بھارت متاثر دکھائی دے رہا ہے اور وہ تھی جولائی کو 21 سالہ برہان وانی کی شہادت۔ بھارتی فوج نے اس مجاہد کو ماورائے عدالت شہید کیا۔
اس کے ردعمل میں کشمیری عوام کی جدوجہد نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا اور پورا مقبوضہ کشمیر آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا اور وادی میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرانے لگے۔ آزادی کی اس نئی لہر کو کچلنے کے لیے بھارتی فوج نے بیہمانہ تشدد شروع کردیا۔ اس دوران 100 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیاجاچکا ہے، ہزاروں افراد پیلٹ گنوں سے نابینا اور معذور ہوچکے ہیں۔ ریاست میں تقریباً دو ماہ سے مسلسل کرفیو جاری ہے۔
اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے اور صورتحال دن بدن مخدوش ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف کے اس خطاب پر لگی تھیں جو انھوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے 71 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے کرنا تھا۔
وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے خطاب کے دوران اسٹرٹیجک، سماجی اور معاشی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تشویش ناک پہلوؤں پر مبذول کرائی اور اس کے ساتھ ساتھ مظلوم کشمیری عوام کا مقدمہ بھی مدلل، مدبرانہ اور متوازن انداز سے پیش کرکے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا۔
وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دنیا اپنے وعدے پورے کرے۔ یہ تنازعہ طے کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تحقیقات کرائی جائیں۔ کشمیرکی نئی نسل ناجائز تسلط کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ برہان وانی کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ بھارتی فوج ظالمانہ اور بہیمانہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔ بیرون سرپرستی میں پاکستان میں عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم دہشتگردی کے خلاف کامیابی سے صبر آزما ہیں۔
ہم ایٹمی تجربات محدود کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار اور ذمے دار جوہری ریاست ہونے کے حوالے سے نیوکلیئرسپلائی گروپ کی رکنیت کے اہل ہیں۔ ہم اپنے پڑوس میں ہتھیاروں کے ذخائر کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب کو بین الاقوامی سفارتی حلقوں اور میڈیا میں زبردست پذیرائی ملی ہے اور پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے وزیراعظم کے خطاب کو مدلل، ٹھوس اور جرأت مندانہ قرار دیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں بھارت کو مذاکرات کی بھی پیشکش کی مگر اس نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے بھونڈے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے حوالے سے بھارتی قیادت، سفارت کاروں اور میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ شاید انھیں یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف عالمی برادری کے سب سے بڑے فورم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی صاف گوئی اور جرأت مندی کے ساتھ بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی قیادت کو مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو معتبر بنانے کی غرض سے مذاکرات کی دعوت دے کر صحیح معنوں میں ساری دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان امن پسند ریاست ہے اور وہ امن کی خاطر کسی بھی شائستہ کوشش کے لیے تیار ہے۔
اب دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ بظاہر امن وآتشی، جمہوریت، سیکولرازم اور انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والا بھارت دراصل توسیع پسندانہ، جارحانہ اورعسکری عزائم کا حامل ملک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام پر جو ظلم وستم کررہا ہے وہ اس کے ماتھے پر بدنامی اور رسوائی کا ایسا داغ بناچکا ہے جو دورکرنا مودی سرکار کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی۔
میرا خیال ہے بھارتی قیادت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ڈھائی ماہ کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو زخمی، درجنوں کو شہید اور سیکڑوں کو معذور کرنے کے باوجود وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کمزورنہیں کرسکا ہے۔ قبل ازیں اڑی میں اپنے فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کو بیرونی دہشتگردی سے جوڑنے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے۔ اڑی میں دہشتگردی کے خود ساختہ ڈرامے پر بھارت نے پاکستان کو اپنے موقف سے پیچھے کرنے کے حربے کے طور پر اختیار کیا۔ جو الٹا اس کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بن گیا۔
پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے مسئلہ کشمیر پر دنیا بھر میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ غالباً وزیراعظم نوازشریف نے اسی سوچ کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے حالیہ دورے کو کشمیر سے منسوب کیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کا یہ دورہ تاریخی اور کامیاب رہا۔ انھوں نے اس دورے کے دوران چین، ترکی، ایران، جاپان اور بعض دیگر ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انھیں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون سے بھی ملاقات کرکے انھیں کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔
دورے کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین، ترکی،اٹلی اور سوڈان سمیت متعدد ممالک نے پاکستان کے موقف کی کھل کرتائید کی ہے۔اب عالمی برادری اس حقیقت سے آگاہ ہوچکی ہے کہ مسئلہ کشمیر پورے جنوبی ایشیاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بھارت پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے مگر بھارت ہمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیارکرنے کے لیے بہانے تراشتا رہا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیرکی جدوجہد آزادی کو طاقت ظلم وستم اورجبر کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا اور پورے خطے کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے جہاں پاکستان اورکشمیر کا مقدمہ جرأت مندانہ انداز سے پیش کیا ہے، وہیں پاکستان میں ان کے ان مخالفین کے ارمانوں پر بھی اوس پڑگئی ہے جو انھیں مودی کا دوست ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ وزیراعظم کے خطاب سے ان کی طوطا کہانی پر منوں مٹی پڑ گئی ہے اور وہ ان کا خطاب سن کر انھیں داد دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے اب اپوزیشن کے حلقوں کو یہ زیب نہیں دے گا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کو ایسا گھٹیا طعنہ دیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہ کیا جائے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔
کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ بلکہ کشمیر کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ریفرنڈم میں اپنی رائے دے کر پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی اسی امر پر زور دیا گیا تھا، لیکن 70 سال سے کشمیری عوام اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
اس کے برعکس بھارت کے ظالم حکمرانوں نے ان قراردادوں پر عمل کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کی بجائے کشمیر کے عوام کی تین نسلوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور تمام سیاسی اخلاقی تقاضوں اور بین الاقوامی قوانین کو نظر اندازکرکے بھارت کشمیر کو بڑی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔
برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کے لیے جو فارمولا بنایا تھا۔اس کے تحت مسلم اکثریت کی حامل ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا تھا، لیکن بھارتی حکمرانوں نے جبروتشدد اور مکاری سے کام لیتے ہوئے جموں وکشمیر پر قبضہ کرلیا اوراس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں واویلا مچایا اور بالآخر عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ کشمیری عوام ریفرنڈم کے ذریعے جس کے ساتھ الحاق کا وعدہ کریں گے وہ بھارت کو قبول ہوگا، مگر بھارت مکروفریب اور ظلم و ستم سے کام لیتا رہا اورکشمیری عوام کو استصواب رائے سے محروم رکھا گیا۔
کشمیری عوام کو داد دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اپنے حق رائے دہی پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ 70 برس کے دوران ان کی جدوجہد آزادی اور پاکستان سے الحاق کی خواہش روزبروز شدت اختیارکرتی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ کشمیری شہید اور زخمی ہوئے۔ پاکبازکشمیری عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں ماورائے عدالت ہلاک کردیا گیا۔
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی 70 برس کے دوران کئی نشیب وفراز سے گزرتی رہی مگر بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزدی کو کچلنے میں ہمیشہ ناکام رہا۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو حالیہ دنوں میں اس وقت ایک نئی توانائی میسر آئی اور مشعل آزادی اتنی تیزی سے بھڑکا کہ اس سے آج پورا بھارت متاثر دکھائی دے رہا ہے اور وہ تھی جولائی کو 21 سالہ برہان وانی کی شہادت۔ بھارتی فوج نے اس مجاہد کو ماورائے عدالت شہید کیا۔
اس کے ردعمل میں کشمیری عوام کی جدوجہد نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا اور پورا مقبوضہ کشمیر آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا اور وادی میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرانے لگے۔ آزادی کی اس نئی لہر کو کچلنے کے لیے بھارتی فوج نے بیہمانہ تشدد شروع کردیا۔ اس دوران 100 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیاجاچکا ہے، ہزاروں افراد پیلٹ گنوں سے نابینا اور معذور ہوچکے ہیں۔ ریاست میں تقریباً دو ماہ سے مسلسل کرفیو جاری ہے۔
اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے اور صورتحال دن بدن مخدوش ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف کے اس خطاب پر لگی تھیں جو انھوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے 71 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے کرنا تھا۔
وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے خطاب کے دوران اسٹرٹیجک، سماجی اور معاشی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تشویش ناک پہلوؤں پر مبذول کرائی اور اس کے ساتھ ساتھ مظلوم کشمیری عوام کا مقدمہ بھی مدلل، مدبرانہ اور متوازن انداز سے پیش کرکے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا۔
وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دنیا اپنے وعدے پورے کرے۔ یہ تنازعہ طے کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تحقیقات کرائی جائیں۔ کشمیرکی نئی نسل ناجائز تسلط کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ برہان وانی کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ بھارتی فوج ظالمانہ اور بہیمانہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔ بیرون سرپرستی میں پاکستان میں عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم دہشتگردی کے خلاف کامیابی سے صبر آزما ہیں۔
ہم ایٹمی تجربات محدود کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار اور ذمے دار جوہری ریاست ہونے کے حوالے سے نیوکلیئرسپلائی گروپ کی رکنیت کے اہل ہیں۔ ہم اپنے پڑوس میں ہتھیاروں کے ذخائر کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب کو بین الاقوامی سفارتی حلقوں اور میڈیا میں زبردست پذیرائی ملی ہے اور پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے وزیراعظم کے خطاب کو مدلل، ٹھوس اور جرأت مندانہ قرار دیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں بھارت کو مذاکرات کی بھی پیشکش کی مگر اس نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے بھونڈے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے حوالے سے بھارتی قیادت، سفارت کاروں اور میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ شاید انھیں یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف عالمی برادری کے سب سے بڑے فورم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی صاف گوئی اور جرأت مندی کے ساتھ بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی قیادت کو مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو معتبر بنانے کی غرض سے مذاکرات کی دعوت دے کر صحیح معنوں میں ساری دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان امن پسند ریاست ہے اور وہ امن کی خاطر کسی بھی شائستہ کوشش کے لیے تیار ہے۔
اب دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ بظاہر امن وآتشی، جمہوریت، سیکولرازم اور انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والا بھارت دراصل توسیع پسندانہ، جارحانہ اورعسکری عزائم کا حامل ملک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام پر جو ظلم وستم کررہا ہے وہ اس کے ماتھے پر بدنامی اور رسوائی کا ایسا داغ بناچکا ہے جو دورکرنا مودی سرکار کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی۔
میرا خیال ہے بھارتی قیادت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ڈھائی ماہ کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو زخمی، درجنوں کو شہید اور سیکڑوں کو معذور کرنے کے باوجود وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کمزورنہیں کرسکا ہے۔ قبل ازیں اڑی میں اپنے فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کو بیرونی دہشتگردی سے جوڑنے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے۔ اڑی میں دہشتگردی کے خود ساختہ ڈرامے پر بھارت نے پاکستان کو اپنے موقف سے پیچھے کرنے کے حربے کے طور پر اختیار کیا۔ جو الٹا اس کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بن گیا۔
پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے مسئلہ کشمیر پر دنیا بھر میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ غالباً وزیراعظم نوازشریف نے اسی سوچ کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے حالیہ دورے کو کشمیر سے منسوب کیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کا یہ دورہ تاریخی اور کامیاب رہا۔ انھوں نے اس دورے کے دوران چین، ترکی، ایران، جاپان اور بعض دیگر ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انھیں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون سے بھی ملاقات کرکے انھیں کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔
دورے کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین، ترکی،اٹلی اور سوڈان سمیت متعدد ممالک نے پاکستان کے موقف کی کھل کرتائید کی ہے۔اب عالمی برادری اس حقیقت سے آگاہ ہوچکی ہے کہ مسئلہ کشمیر پورے جنوبی ایشیاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بھارت پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے مگر بھارت ہمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیارکرنے کے لیے بہانے تراشتا رہا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیرکی جدوجہد آزادی کو طاقت ظلم وستم اورجبر کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا اور پورے خطے کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے جہاں پاکستان اورکشمیر کا مقدمہ جرأت مندانہ انداز سے پیش کیا ہے، وہیں پاکستان میں ان کے ان مخالفین کے ارمانوں پر بھی اوس پڑگئی ہے جو انھیں مودی کا دوست ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ وزیراعظم کے خطاب سے ان کی طوطا کہانی پر منوں مٹی پڑ گئی ہے اور وہ ان کا خطاب سن کر انھیں داد دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے اب اپوزیشن کے حلقوں کو یہ زیب نہیں دے گا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کو ایسا گھٹیا طعنہ دیں۔