ثقافتی یلغار
خواتین کے رسائل میں چھپنے والی تحریروں میں گہرائی تھی، جو اب ڈراما لکھنے والوں کے ہاں ملتی نہیں
خواتین کے رسائل میں چھپنے والی تحریروں میں گہرائی تھی، جو اب ڈراما لکھنے والوں کے ہاں ملتی نہیں، کسی ایک بھی ڈرامے میں پاکستانی اقدار کا ذکر نہیں، صرف گلیمر اور تعلقات کی بدصورتی ہی توکل دنیا نہیں۔
پاکستانی ڈراموں نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی حیثیت اوراہمیت منوائی اور خصوصاً ماضی میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ اسی لیے اب یہ شعبہ سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار بن گیا ہے کبھی زمانہ تھا اشفاق احمد، بانوقدسیہ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، یونس جاوید، انور سجاد، حسینہ معین کے لکھے ہوئے ڈرامے آتے تھے اور ملک ہی نہیں ملک کے باہر بھی انھیں پسند کیا جاتا تھا۔ پاکستانی ڈرامے انڈیا کے پونا انسٹیٹیوٹ تک میں دکھائے اور پڑھائے جاتے تھے۔
عہد مشرف نے ڈرامے کو ایک اور طرح کا رخ عطا کیا اور عروج پر موجود ڈراما نہ صرف لکھنے والے بڑے ناموں سے محروم ہوا، بلکہ نئے لکھنے والے اورخصوصاً خواتین ڈائجسٹوں کی افسانہ نگاروں کے ڈرامے جو اکثر انھی کے ناموں اورافسانوں پر مبنی اورکسی بڑی سوچ اور پیغام سے محروم تھے۔ اس نئے دور میں صرف عمیرہ احمد کا نام سامنے آیا، باقی سب مصنفین نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور بھارت میں چلنے والے سیریل اور سوپ کی نقل میں اپنی پوری روایات کو طاق میں رکھ دیا۔
ماضی میں ڈراما نگاری اوراس سے منسلک لوگوں کا مقصد لوگوں میں سماجی، معاشرتی تاریخی تہذیبی اسلامی اور رویوں کو اجاگرکرنا ہوتا تھا۔چنانچہ پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامے سے محظوظ ہوتا حتیٰ کہ بھارت تک میں وہ ڈرامے دیکھے اور پسند کیے جاتے۔ جس طرح ہرچیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اسی طرح ٹی وی منفی پہلو رکھتا تھا لیکن بحیثیت مجموعی اسے پسندیدگی سے دیکھنا جاتا لوگوں کے لیے شام ڈھلتے ہی یہ تفریح کا سامان مہیا کرتا تھا۔ پی ٹی وی اس حوالے سے اپنی خصوصی پہچان رکھتا تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب اسکرین پر بہن اور بیٹی کے سر سے دوپٹہ نہیں اترا تھا اور پھر ماں کے سر سے آنچل غائب ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ماں اور بیٹی کے کردار میں پہچان سے قاصر ہونے لگے کہ ماں کون ہے اور بیٹی کون؟ دونوں ہی اپنے اپنے معاملات میں مصروف دکھائی دینے لگیں۔
اہل دانش نے اس تبدیلی کے پیچھے کئی محرکات گنوائے ہیں، کوئی جمہوری آمروں کو قصور وار ٹھہراتا ہے توکوئی جمہوریت پر شب خون مارنے والے حکمرانوں کو ان عوامل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اتنا ہی بے رحم ہے کہ اس کے سامنے گھریلو رشتوں کے تقدس کو پامال ومجروح کردیا گیا اور وہ خاموش تماشائی بنا رہا یہ کام بالعموم سرکاری سرپرستی میں ہوا۔
ہماری معاشرتی اقدار نے ذرایع ابلاغ کے اس ذریعے 180 درجے کا موڑ لیا۔ عورت کو اس طرح موضوع بنایا کہ یوں لگ رہا ہے، عورتوں کے ساتھ زیادتی دنیا میں صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہے، یہاں کی ہر شادی شدہ عورت اپنے میاں سے بے وفائی پرآمادہ ہے، صرف سستی تسکین کے لیے سبھی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں نہ کوئی اصول نہ ضابطہ نہ رہنمائی نہ سلیقہ بڑے بڑے گھر بڑے امیر اور پھر بڑی بڑی سزائیں ساری قوم کو ایک عجیب عذاب میں مبتلا کردیا، یہ تفریح ملی نہ ٹریٹ۔ ملا تو یہ کہ معاشرے کے ڈھانچے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر ذرایع ابلاغ کی رپورٹ چشم کشا انکشاف بیان کرتی ہیں کہ عورت پر ظلم وتشدد سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہو رہا ہے اہل مغرب کے لیے یہ خود سے ایک سوالیہ نشان ہے بات گھوم گھما کر عورت پر تشدد سے شروع ہوئی پاکستانی معاشرے میں حقوق نسواں کے استحصال کا نعرہ لگا کر ختم ہوتی ہے۔
عورت کے دائرے سے نکل کر بات کی جائے تو دولت کی ہوس کو نمایاں کیا جارہا ہے جو شاید پاکستان کے ایک فیصد طبقے کا ہی معیار زندگی ہے۔ نتیجتاً معاشرے کا فرد انتشار پریشانی کا شکار نظرآتا ہے۔چنانچہ جو ڈرامے کبھی تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے،اب مضطرب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ایک ہفتے میں 100 سے زائد ڈرامے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں باقی شعبوں کی طرح میڈیا بھی مال بنانے کی لت کا شکار ہے۔ جہاں سے جو ملتا ہے اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ٹیلی ویژن چینلز وائس آف امریکا کو فروخت کیا ہوا ہے، ان پر باقاعدہ ان کے طے شدہ پروگرام آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے آج جب کہ ہر ہفتے کم و بیش 100 ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں کوئی بڑا کام،کوئی بڑا نام،کوئی بڑی سوچ جو ملک و ملت سے جڑی ہو جو معاشرے کو بنانے سنوارنے میں معاون ہو۔
ماشا اللہ کہیں کوئی ایسا ڈراما سامنے آجائے ڈراموں میں نہ توکسی پاکستانی قدرکا ذکرہے، نہ اس کی ترویج کی کوشش۔ جیساکہ بھارت کے ہرڈرامے کا محور مرکزہے صرف گلیمر اور مرد عورت کے تعلقات کی خرابی اور بدصورتی ہی توکل دنیا کے موضوعات نہیں۔
پاکستانی ڈراموں نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی حیثیت اوراہمیت منوائی اور خصوصاً ماضی میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ اسی لیے اب یہ شعبہ سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار بن گیا ہے کبھی زمانہ تھا اشفاق احمد، بانوقدسیہ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، یونس جاوید، انور سجاد، حسینہ معین کے لکھے ہوئے ڈرامے آتے تھے اور ملک ہی نہیں ملک کے باہر بھی انھیں پسند کیا جاتا تھا۔ پاکستانی ڈرامے انڈیا کے پونا انسٹیٹیوٹ تک میں دکھائے اور پڑھائے جاتے تھے۔
عہد مشرف نے ڈرامے کو ایک اور طرح کا رخ عطا کیا اور عروج پر موجود ڈراما نہ صرف لکھنے والے بڑے ناموں سے محروم ہوا، بلکہ نئے لکھنے والے اورخصوصاً خواتین ڈائجسٹوں کی افسانہ نگاروں کے ڈرامے جو اکثر انھی کے ناموں اورافسانوں پر مبنی اورکسی بڑی سوچ اور پیغام سے محروم تھے۔ اس نئے دور میں صرف عمیرہ احمد کا نام سامنے آیا، باقی سب مصنفین نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور بھارت میں چلنے والے سیریل اور سوپ کی نقل میں اپنی پوری روایات کو طاق میں رکھ دیا۔
ماضی میں ڈراما نگاری اوراس سے منسلک لوگوں کا مقصد لوگوں میں سماجی، معاشرتی تاریخی تہذیبی اسلامی اور رویوں کو اجاگرکرنا ہوتا تھا۔چنانچہ پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامے سے محظوظ ہوتا حتیٰ کہ بھارت تک میں وہ ڈرامے دیکھے اور پسند کیے جاتے۔ جس طرح ہرچیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اسی طرح ٹی وی منفی پہلو رکھتا تھا لیکن بحیثیت مجموعی اسے پسندیدگی سے دیکھنا جاتا لوگوں کے لیے شام ڈھلتے ہی یہ تفریح کا سامان مہیا کرتا تھا۔ پی ٹی وی اس حوالے سے اپنی خصوصی پہچان رکھتا تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب اسکرین پر بہن اور بیٹی کے سر سے دوپٹہ نہیں اترا تھا اور پھر ماں کے سر سے آنچل غائب ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ماں اور بیٹی کے کردار میں پہچان سے قاصر ہونے لگے کہ ماں کون ہے اور بیٹی کون؟ دونوں ہی اپنے اپنے معاملات میں مصروف دکھائی دینے لگیں۔
اہل دانش نے اس تبدیلی کے پیچھے کئی محرکات گنوائے ہیں، کوئی جمہوری آمروں کو قصور وار ٹھہراتا ہے توکوئی جمہوریت پر شب خون مارنے والے حکمرانوں کو ان عوامل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اتنا ہی بے رحم ہے کہ اس کے سامنے گھریلو رشتوں کے تقدس کو پامال ومجروح کردیا گیا اور وہ خاموش تماشائی بنا رہا یہ کام بالعموم سرکاری سرپرستی میں ہوا۔
ہماری معاشرتی اقدار نے ذرایع ابلاغ کے اس ذریعے 180 درجے کا موڑ لیا۔ عورت کو اس طرح موضوع بنایا کہ یوں لگ رہا ہے، عورتوں کے ساتھ زیادتی دنیا میں صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہے، یہاں کی ہر شادی شدہ عورت اپنے میاں سے بے وفائی پرآمادہ ہے، صرف سستی تسکین کے لیے سبھی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں نہ کوئی اصول نہ ضابطہ نہ رہنمائی نہ سلیقہ بڑے بڑے گھر بڑے امیر اور پھر بڑی بڑی سزائیں ساری قوم کو ایک عجیب عذاب میں مبتلا کردیا، یہ تفریح ملی نہ ٹریٹ۔ ملا تو یہ کہ معاشرے کے ڈھانچے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر ذرایع ابلاغ کی رپورٹ چشم کشا انکشاف بیان کرتی ہیں کہ عورت پر ظلم وتشدد سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہو رہا ہے اہل مغرب کے لیے یہ خود سے ایک سوالیہ نشان ہے بات گھوم گھما کر عورت پر تشدد سے شروع ہوئی پاکستانی معاشرے میں حقوق نسواں کے استحصال کا نعرہ لگا کر ختم ہوتی ہے۔
عورت کے دائرے سے نکل کر بات کی جائے تو دولت کی ہوس کو نمایاں کیا جارہا ہے جو شاید پاکستان کے ایک فیصد طبقے کا ہی معیار زندگی ہے۔ نتیجتاً معاشرے کا فرد انتشار پریشانی کا شکار نظرآتا ہے۔چنانچہ جو ڈرامے کبھی تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے،اب مضطرب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ایک ہفتے میں 100 سے زائد ڈرامے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں باقی شعبوں کی طرح میڈیا بھی مال بنانے کی لت کا شکار ہے۔ جہاں سے جو ملتا ہے اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ٹیلی ویژن چینلز وائس آف امریکا کو فروخت کیا ہوا ہے، ان پر باقاعدہ ان کے طے شدہ پروگرام آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے آج جب کہ ہر ہفتے کم و بیش 100 ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں کوئی بڑا کام،کوئی بڑا نام،کوئی بڑی سوچ جو ملک و ملت سے جڑی ہو جو معاشرے کو بنانے سنوارنے میں معاون ہو۔
ماشا اللہ کہیں کوئی ایسا ڈراما سامنے آجائے ڈراموں میں نہ توکسی پاکستانی قدرکا ذکرہے، نہ اس کی ترویج کی کوشش۔ جیساکہ بھارت کے ہرڈرامے کا محور مرکزہے صرف گلیمر اور مرد عورت کے تعلقات کی خرابی اور بدصورتی ہی توکل دنیا کے موضوعات نہیں۔