ادبی تاریخ لکھتے ہوئے اسے ادبی تحقیق نہیں بنادینا چاہیے

فیض کو چھوڑ کرنظریے نے باقی ترقی پسند شاعروں کو برباد ہی کیا

 معروف نقاد اورشاعر ڈاکٹر تبسم کاشمیری سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
''ہم ایسے وقت میں جلسہ میں پہنچے تھے جب نظم پڑھی جاچکی تھی ۔ اب اس پر بحث ہو رہی تھی۔ نظم کی ایک نقل ملک راج آنند کو پیش کی گئی۔ انھیں کیا خبر کہ شاعر کون ہے۔ نظم پڑھ کر گویا ہوئے کہ یہ نظم بتارہی ہے کہ اس کا لکھنے والا بیس اکیس کی عمر کا نوجوان ہے۔

اس پر جلسہ میں ایک زبردست قہقہہ پڑا۔ یہ تبسم کاشمیری کی نظم تھی۔ اس وقت اس عزیز کی یہی عمر تھی۔ میں ملک راج آنند کی تقریر سے پہلے ہی متاثر تھا ، اب اور قائل ہوگیاکہ کمال صاحب نظر ہے۔ شعر پڑھ کر شاعر کی عمر بتادیتا ہے۔ ''

یہ قصہ ممتاز ادیب انتظارحسین کی لاہور سے متعلق یادداشتوں ''چراغوں کا دھواں ''میں بیان ہوا ہے، جس میں بات ہو رہی ہے انگریزی کے معروف ہندوستانی ادیب ملک راج آنند کی حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں آمد کی۔

بیس اکیس سال کا نوجوان اب 76 برس کا ہے اور نظمیں اب بھی لکھ رہا ہے۔ حلقہ ارباب ذوق کی مجلسیں اور پاک ٹی ہاؤس کا ادب پرور ماحول اسے رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ قیوم نظر کا ذکر خاص طور سے کرتے ہیں کہ ان کے جیسا زندہ دل آدمی زندگی بھر نہ دیکھا، جن کے زور دار قہقہوں کی آواز دور تک سنائی دیتی۔ حلقہ کا وہ اجلاس خوب یاد ہے، جس میں احمد مشتاق نے وہ غزل پڑھی جس کے یہ دو اشعار انھوں نے ہمارے گوش گزار کئے:

میں طلب کے اجنبی رستوں پہ پھیلی دھوپ میں
سر پر تیرے درد کی چادر لیے پھرتا رہا

تم کہو کیا تھا تمھاری کم نمائی کا سبب
مجھ کو تو یہ پاؤں کا چکر لیے پھرتا رہا

یہ شعر ہی نہیں یہ بھی یاد ہے کہ ان دنوں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی او ر وائی ایم سی اے ہال میں ہونے والے اجلاس میں وقفے وقفے سے اعجاز بٹالوی انگیٹھی کے کوئلوںکو جھنجھوڑنے آتے تاکہ دھیمی ہوتی آنچ پھر سے تھوڑا زور پکڑے۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے 1940ء میں امرتسر میں آنکھ کھولی۔ 47ء میں خاندان راولپنڈی آباد ہوگیا۔ والد، کاروباری آدمی تھے۔ مسلمان فوجیوں سے ان کے روابط ہجرت کے ہنگام کام آئے، اس لیے ان کا گھرانہ بغیر کوئی صعوبت اٹھائے پاکستان پہنچ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بڑا نازک دور تھا، اس لیے عام طور پر اس جگہ آباد ہونے کو فوقیت دی جاتی جہاں ذات برادری کے لوگ موجود ہوتے تاکہ مشکل پڑے تو کوئی تو یاوری کو موجود ہو۔ ان کے خیال میں، امرتسرکی کشمیری برادری لاہور سے بھی زیادہ راولپنڈی میں آباد ہوئی۔

مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد لاہور آگئے۔ اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔ علم الدین سالک استاد تھے، جن سے بہت کچھ جانا۔ کالج کے سامنے ادیبوں کا پرانا ٹھکانہ عرب ہوٹل موجود تھا وہاں بھی آنا جانا رہتا۔ بچپن میں بچوں کے جن رسالوں میں نظمیں شائع ہوتی رہیں، ان میں قومی کتاب خانہ کا رسالہ ''ہدایت'' بھی تھا، جس کے ایڈیٹر بچوں کے نامور ادیب نظر زیدی تھے۔ لاہور آئے تو اس رسالے کا دفتر کالج کے قریب پایا تو ادھربھی جانے لگے۔ نظرزیدی سے ملتے۔ ان کی سادگی اور خلوص نے بیحد متاثرکیا۔

ان کا دوپہرمیں چائے کے ساتھ آدھا بن کھانا خوب یاد ہے اور ان کے خیال میں شاید وہ پورا بن افورڈ نہ کرسکتے تھے ۔ اس زمانے میں نظم باقاعدگی سے کہنے لگے۔ اخترشیرانی کی رومانوی شاعری نے ان کو پکڑا۔ اس کے بعد فیض کے گرویدہ ہو گئے۔''دست صبا'' کسی دوست سے مستعارلی اور راتوں رات ہاتھ سے نقل کرکے کتاب لوٹا دی۔ اردو شاعری، باقاعدہ لگ کر پڑھنے کا آغاز اس زمانے میں ہوتا ہے، جب ایم اے میں ''جدید ارود شاعری میں علامت نگاری ''کے موضوع پرمقالہ لکھا۔



1964ء میں ایم اے کیا۔ 68ء سے 81ء تک پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں پڑھایا۔ اس کے بعد جاپان چلے گئے۔ چوبیس برس اوساکا یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں اردو کے پروفیسر رہے۔ ''جاپان میں اردو ''کے نام سے کتاب لکھی۔ جاپانی شاعروں و ادیبوں کو مضامین کے ذریعے متعارف کرایا۔ وہیں ناول ''قصبہ کہانی ''لکھا، جس میں ہیرو، ان کے خیال میں کوئی شخص نہیں بلکہ شہر ہے۔

یہ ناول ان کو پسند ہے، کہتے ہیں کہ کچھ تو اس پراعتراضات نے انھیں مزید فکشن لکھنے سے روکے رکھا، دوسرے مصروفیات آڑے آتی رہیں۔ جاپان کی یاد ان کو اس لیے بھی آتی ہے کہ وہاں کام کرنے کو وافر وقت میسر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ بھی وہیں بیٹھ کر لکھی۔ شعر و شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ وطن واپسی پر دو ڈھائی سال ایجوکیشن یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ 2008ء سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔

اردو ادب کی تاریخ لکھنے کے تجربے سے متعلق پوچھنے پر بتایا ''ہمارے یہاں ادبی تاریخ کو ادبی تحقیق سمجھا جاتا ہے، میں اس خیال سے متفق نہیں۔ تاریخ میں حقائق کا استعمال ضرور ہونا چاہیے، تفصیلات، تعلیقات میں ہوں لیکن اسے متن کا حصہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے، اس میں صرف ادب پر بحث کریں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ''تاریخ ادب اردو'' اچھی کتاب ہے، لیکن اس میں انھوں نے تفصیلات زیادہ جمع کردی ہیں، مثلاً اس میں میر پر پونے دو سو صفحے ہیں، ایک کتاب اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، یہ تو کتاب کے اندر کتاب جیسی بات ہے۔ تاریخ لکھنے کے لیے نئے سرے سے ادب کو پڑھا۔ جاپان میں میرے پاس وقت بہت تھا۔ ارتکاز دستیاب تھا۔

میری کتاب میں ادب کی روایتی تنقید نہیں۔ اسے ادبی تاریخ ہی نہیں، تہذیبی تاریخ کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے، اس میں تاریخ کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ ادبی تنقید کے ساتھ ساتھ فلسفہ، بشریات، نفسیات اور دیگر علوم کی روشنی میں بھی ادب کو دیکھا گیا ہے۔ اس پرمحنت بہت کی۔ مثلاً دکنی تہذیب کے بارے میں چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھیں اور پھر انھیں لکھتے وقت استعمال کیا۔ زبان پر بڑی توجہ دی، کوشش کی کہ ڈل نہ ہو اور پڑھنے والے اسے دلچسپی سے پڑھ سکیں۔ پہلی جلد 1857تک ہے، اس سے آگے لکھنے کے لیے خاکہ بنا لیا ہے، مواد اکٹھا کرلیا ہے، اور یقینا اسے مکمل کرنے کا خیال ہے۔ ''

تمثال، نوحے تخت لہورکے، کاسنی بارش میں دھوپ، بازگشتوں کے پل پر، اور ،پرندے، پھول، تالاب، شعری مجموعے ہیں۔ نظمیں اب بھی لکھ رہے ہیں۔ دو برس پہلے انھوں نے پنجابی نظم لکھی تو اس میں رواں ہوگئے اور ہوتے ہوتے ان کی تعداد اتنی ہوگئی کہ کتاب کا ڈول ڈالا جاسکے۔ پنجابی میں نظم کہنے کے تجربے سے متعلق بتایا:

میں کبھی گاؤں میں نہیں رہا۔ دیہاتی زندگی کا تجربہ نہیں۔ اس لیے وہاں کی زبان بھی نہیں جانتا۔ پنجابی نظمیں شہری تہذیب میں رہنے والے شخص کے تجربات کی کہانی ہیں ۔ شاہ حسین اور بلھے شاہ پسند ہیں، اس لیے ان سے اثر قبول کیا ہے۔ جس طریقے سے جذبات واحساسات پنجابی میں ادا ہوتے ہیں، اردو میں نہیں ہوسکتے۔ نظموں میں جنس کا احساس اور تجربہ بہت کھلا ڈلا ہے، جو جدید پنجابی شاعری میں نہیں، اور یہ تجربہ اردو میں بیان نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے لگا کہ تخلیقی اظہار کی صحیح سمت پنجابی ہے۔ ''

شاعری کے تراجم سے بھی دلچسپی ہے۔ پابلو نرودا کی طویل نظم ''ماچوپچو کی بلندیاں ''کا تعارف و ترجمہ اور اوکتاویو،پاز کی نظموں کا ترجمہ کیا۔ نرودا کی نظموں کے اردو میں ہونے والے تراجم ان دنوں مرتب کر رہے ہیں۔ ان کی علمی شخصیت کا معتبر حوالہ تنقید نگاری ہے۔ شعریات اقبال، اقبال اور نئی قومی ثقافت، لا=راشد،جدید اردو شاعری میں علامت نگاری، نئے شعری تجزیے،ادبی تحقیق کے اصول، یہ کتابیں ان کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہیں۔



80 تنقیدی مضامین پر مشتمل مجموعہ زیراشاعت ہے۔ نقادوں میں سب سے بڑھ کر محمد حسن عسکری سے متاثر ہیں۔ انھیں اردو کا سب سے بڑا نقاد گردانتے ہیں، جن کا ان کے خیال میں ذہنی افق بہت وسیع تھا۔ ان کے بقول،' اردو ادب میں یوپی اور پنجاب والوں کے درمیان ادبی محاذ پرلڑائی چلتی رہی ہے، عسکری صاحب تمام تر تعصبات سے بالا تر تھے، ان کی سب سے گہری دوستی ڈاکٹر آفتاب اور ڈاکٹر اجمل سے تھی اوردونوں ہی پنجابی تھے۔ '

فراق کی تنقید بھی اچھی لگتی ہے۔ ''اندازے '' انھیں بہت پسند ہے، وہ کہتے ہیں ''اگرکوئی نقاد شاعری پر لکھے اور پڑھنے والوں کو اسے محسوس بھی کرائے تو وہ بڑا نقاد ہے، اور یہ کام فراق نے ''اندازے'' میں کیا ہے۔ مصحفی پرکتاب میں ان کا بڑا شاندار مضمون ہے، جس میں انھوں نے لکھا کہ مصحفی کا کلام ایک تصویر خانہ یا پکچر گیلری ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ منیر نیازی کو میں نے ایک دفعہ مصحفی کے یہ دوشعر سنائے:

بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا
پانی میں نگاریں کف پا اور بھی چمکا

جوں جوں کہ پڑیں منہ پہ ترے مینہ کی بوندیں
جوں لالۂ تر حسن ترا اور بھی چمکا

یہ شعر سن کرمنیر نے فرمائش کی یار! اس کے مجھے اور بھی شعر سناؤ۔'' ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ''مصحفی اور اس کا عہد'' کے موضوع پر 1973ء میں ڈاکٹریٹ کیا۔

خواب کیا ہوں گے؟

زمانہ اس کو بیتا ہے کہ میں نے خواب دیکھے تھے
ہوا کے، روشنی کے، رنگ کے کچھ خواب دیکھے تھے
میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا
میں ان خوابوں کے ساحل پر
کھڑا رہتا تھا پہروں تک
مری آنکھوں سے ہر دم روشنی کے پھول گرتے تھے
فلک پہ بادلوں کے قافلے آہستہ چلتے تھے
فضا میں دھیمے دھیمے رنگ کا بادل برستا تھا
پرندوں کے پروں پر رنگ کی جب پھوار پڑتی تھی
تو ان کی پھڑپھڑاہٹ سے
مرے خوابوں پہ خوشبو کے ہزاروں رنگ گرتے تھے
مگر جب بچپنے کی سرحدوں پہ دھوپ چمکی تھی
جوانی دھول بننے لگ گئی جب کالے رستوں پر
تو پھرخوابوں کے ساحل پر
نہ کوئی پھول گرتا تھا نہ بادل ہی برستا تھا
جدھر بھی دیکھتا تھا میں انوکھے لوگ ملتے تھے
انوکھے راستوں کے پیچ و خم میں پاؤں تھکتے تھے
ہوائے گرم تھی اور خوف کے صد رنگ چھنٹے تھے

ہر اک منزل پہ وحشت کے ڈراؤنے خواب آتے تھے
مگر وہ اب خواب کیسے تھے لڑکپن میں جو دیکھے تھے
یہ اکثر میں نے سوچا ہے وہ سارے خواب کیسے تھے
وہی جو ہم سے پہلے آنے والے لوگ تکتے تھے
وہی خواب اب ہمارے ننھے منے بچے تکتے ہیں
اور اکثر میں نے سوچا ہے کہ ان کے جواب جل جائیں گے
ظالم دھوپ سے اک دن
پھر اس کے بعد ان کے ننھے بچے روشنی کے رنگ کے
اور خوشبوؤں کے خواب دیکھیں گے
تو ان کے خواب کیا ہوں گے؟

٭٭٭

شہر کے وسط میں آگ

شہر کے وسط میں آگ لگی ہے
پیاری اور معصوم آشائیں گھر کے کونوں کھدروں میں
محفوظ پناہیں ڈھونڈ رہی ہیں
آشاؤں کے پھول سے چہرے
بازو ہاتھ اور چاند سے پاؤں
سب کے سب بے شکل ہوئے ہیں
بدہیئتی پر چیخ رہے ہیں
اونچے نیچے نئے پرانے کہنہ گھر اور کہنہ گلیاں
آگ کی بے پایاں حدت سے
خون کی مانند سرخ ہوئی ہیں
بچے ماؤں کی چھاتی سے
خوف کے مارے چمٹ گئے ہیں
بوڑھے لوگوں کی آنکھوں میں
گھائل صدمے تیر رہے ہیں
اور جوانوں کے جسموں میں اک سناٹا اترگیا ہے
سب گلیوں کی تار آنکھوں میں
جبر کے آنسو جھانک رہے ہیں
اور گھروں کے پرانے آنگن
جن میں جانے کتنی نسلیں کھیل چکی ہیں
آگ کے خوف سے زرد، زمیں میں اندر دھنستے جاتے ہیں
اونچی نیچی دیواروں کا کہنہ ملبہ گرتا ہے تو
جانے کتنی عروسی صبحیں، جانے کتنی عروسی راتیں
ملبے کے نیچے دبتی ہیں
کتنی خوشیوں کے پنجر ہیں، ملبے میں جو دبے ہوئے ہیں
سسک سسک کر چلاتے ہیں
ان کی آنکھ کا آخری آنسو
ان کے جسم کی آخری چیخ اب گونج رہی ہے
جانے کب سے شہر کے وسط میں آگ لگی ہے
جانے کب سے شہر کے وسط میں مَیں تنہا ہوں
بوڑھی گلیوں کے شہ رگ سے خون کے آنسو بہتے ہیں
پیاری خوشیوں کے ملبے کے سب رستوں پہ ڈھیر لگے ہیں
ان گلیوں کی جلتی بجھتی راکھ کو چہرے پر ملتا ہوں

فیض، راشد اور مجید امجد کی شاعری سے متعلق چند باتیں

فیض احمد فیض کی شاعری کا جمالیاتی طرز احساس بہت عمدہ ہے۔ راشد ان کی مقبولیت سے خوش نہیں ہوں گے، اس لیے انھوں نے کہا کہ فیض کی شاعری کاسمیٹک ہے، جو اگر ان کے شعری جمالیات سے اتار دیا جائے تواس میں سے کچھ نہیں نکلے گا۔ میں اس سے متفق نہیں۔ فیض کی شاعری میں مسلمانان برصغیر کی تاریخ ، عجمی تہذیب، وسط ایشیائی تہذیب ، سب کا اثر گونجتا ہے،ان سے پہلے یہی سب کچھ بڑے پیمانے پر اقبال کی شاعری میں موجود ہے۔ اردو فارسی شاعروں نے جو رنگ جمال، جمالیاتی طرز احساس اور حسن کی کیفیتیں شاعری میں پیدا کیں، ان کی معراج کو فیض پہنچے۔

وزیر آغا نے ایک مضمون میں جو ان کی کتاب ''نظم جدید کی کروٹیں'' میں شامل ہے، نظم میں انجماد کی مثال کا اطلاق فیض کی شاعری پر کیا اور لکھا کہ شروع سے آخر تک ان کی شاعری ایک جیسی ہے۔ میں اس سے متفق ہوں کہ نظریاتی آدمی تھے اور نظریہ تو تبدیل نہیں ہو سکتا۔ فیض نے نظریے اور ادب میں ایک توازن قائم کیا۔ شاعری کو فنی لوازمات سے پیش کیا۔ نعرہ نہیں بنایا کیونکہ اگر آپ پارٹی کے نعروں کو لے کر چلیں گے تو شاعری شعوری طور پر کریں گے اور وہ ناقص ہوگی۔

بعض دفعہ اچھی بھلی نظم لکھتے لکھتے فیض کو اچانک یاد آتا ہے کہ اس میں تھوڑا ترقی پسندی کا تڑکا لگانا چاہیے، جیسے ان کی نظم ''مجھ سے پہلی سے محبت مری محبوب نہ مانگ''، میں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے اچانک ٹرن لیا ہے کہ ترقی پسند کیا کہیں گے کہ رومان ہی رومان شاعر پر حاوی ہے۔ جہاں ایسا نہیں انھوں نے بہت عمدہ نظمیں کہی ہیں۔'' رقیب سے'' مجھے بہت پسند ہے۔

''منظر'' بہت خوبصورت نظم ہے جس میں کلاسیک اور جدیدیت کا امتزاج ملتا ہے۔ نظریے میں ارتقا نہیں ہوتا اس کے پیچھے لگ کر ترقی پسندوں میں فیض کے سوا سب برباد ہوئے۔ راشد مجھے شروع سے پسند تھے۔ جدید شاعری کا شعور سب سے پہلے ''ماورا'' میں سنائی دیا۔ اپنے زمانے کی بے نظیر کتاب تھی، اس نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا۔ ''ایران میں اجنبی '' ، میں شاعری کا معیار اور بھی بلند ہوگیا۔

اس میں'' ماورا'' سے باقاعدہ Departure محسوس ہوتا ہے۔ ''سلیماں سربزانو'' اور ''سبا ویراں'' جیسی نظمیں جدید شاعری میں کہاں ہیں۔ ''ماورا'' میں نوآبادیاتی دور کے نوحے ہیں۔ شاعر سیاسی حالات ، بربریت ، ارباب وطن کی بے بسی پر انتقام لینے کی بات کرتا ہے۔ خارجی دنیا سے اس کا تعلق زیادہ لگتا ہے۔ راشد نے کہا تو یہی کہ انھیں ماضی میں دلچسپی نہیں لیکن اصل میں ایسا نہیں، تہذیب وثقافت کا ڈکشن پر گہرا اثر ہے۔

عربی وعجمی روایت کا اثر نظر آتا ہے، دوسری کتاب میں وہ ایرانی تیل پر قبضے کے بارے میں استعمار کی حریصانہ نظر کی بات کرتے ہیں، استعمار کی ریشہ دوانیوںکا بتاتے ہیں۔ راشد انسانی آزادی کے موید ہیں، استعمار کی مذمت کرتے ہیں، لیکن یہ کسی کا ایجنڈا نہیں بلکہ ان کا ذہنی منشور ہے، جو پارٹی لائن کے تابع نہیں۔ یہ درست ہے کہ راشد کی شاعری کا معیار بتدریج بلند ہوا ہے۔ ''حسن کوزہ گر'' بہت شانداز نظم ہے۔ اس کے ذریعے سے انھوں نے اپنی تہذیب کے ساتھ ساتھ تخلیق کا سارا عمل بیان کر دیا ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ مجید امجد کی شاعری کا احیا ہوا ہے، وہ پہلے بھی زندہ تھے، یہ ہے کہ اب ان کا چرچا اور بھی زیادہ ہونے لگا ہے۔'' شب رفتہ'' میں بلاشبہ عمدہ نظمیں ہیں، لیکن مجھے ان کے آخری دور کی نظمیں زیادہ پسند ہیں۔ وہ زیادہ بامعنی ہیں، پہلے دورکی شاعری روایتی ہے مگر اس دورمیں اچھی شاعری بھی انھوں نے کی مثلاً ''دوام ''ہے، فلسفیانہ نظم ہے، طالب علموں کو اسے سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ '' بس اسٹینڈ ''مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ ان شاعروں میں سے ہیں، جن کا فن مسلسل ارتقا پذیر رہا۔ ڈکشن بہت خوبصورت ہے۔ غزل بھی بہت اچھی کہتے تھے۔

ناصر عباس نیر کی ان کی شاعری پر کتاب مجھے بہت اچھی لگی۔ مختار صدیقی بہت عمدہ شاعر تھے۔ سی حرفی جو پنجابی میں کہی جاتی تھی، اسے اردو میں کامیابی سے لکھ کردکھایا،'' نیلی کے سو رنگ'' میں سرمد صہبائی اسے اور بھی آگے لے گیا۔ سی حرفی میں صوفی روایت اور پنجاب کی روایت اور عشق بولتا ہے۔ اس شاعری کی اردو میں دوسری کوئی مثال نہیں۔ صفدر میر بہت عمدہ شاعر تھے۔ بہت اچھے کرافٹس مین۔ ان کی شاعری کو وہ اہمیت نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔ غزل کے شاعروں میں احمد مشتاق پسند ہے، اس کی غزل اپنی ہے، اس پر کسی کااثر نہیں، مجھے اس کی شاعری ناصر کاظمی سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ n

ہائیکو کیا ہے؟ہمارے یہاں کسی کو نہیں پتا

جاپانی بہت مہذب، نفیس اور صاف گو ہوتے ہیں۔ خودستائی نہیں کرتے۔ گھرسے باہر وہ بھلے سے الٹرا ماڈرن ہوں، لیکن گھرمیں جاتے ہی اپنے تہذیب میں رنگ جاتے ہیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، سب روایتی طریقے سے ہوتا ہے۔ ان میں کسی بھی شعبہ کا جو سربراہ ہو اس کی بات حتمی مانی جاتی ہے، اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ مجھے میرے جاپانی دوست نے بتایا کہ ہم قوم نہیں، بڑے پیمانے پرایک قبیلہ ہیں، اسی کی طرح سے ہم میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور یہ بات درست ہے۔

میں جب وہاں تھا تو ایک دفعہ بہت زبردست زلزلہ آیا۔ متاثرین کی امداد کے لیے لوگ حکومت سے پہلے آگے بڑھے۔ کھانے پینے کی اشیا کی تقسیم کے وقت لوگ بڑے ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے، خالی پیٹ صبرکا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا بڑی بات ہے ہمارے یہاں تو بھرے پیٹ لوگ ڈسپلن کا خیال نہیں کرتے اورکھانا دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جاپانی فکشن بہت زبردست ہے، مسعود اشعرکے ادارے ''مشعل'' نے کئی ناولوں کا اردو ترجمہ چھاپا ہے۔ فکشن کے مقابلے میں نظم زیادہ آگے نہیںگئی۔ اردو شاعری بلند آہنگ ہے، لیکن جاپانی شاعری میں دھیمے لہجے میں بات ہوتی ہے۔

عشق کا اظہار تیکھے نہیں نرم لہجے میں کرتے ہیں، یادوں کا اظہاربھی دھیمے طور سے ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں کسی کو پتا ہی نہیں ہائیکو کیا ہے۔ ہائیکو موسم کے مطابق لکھا جاتا ہے۔ اسے پڑھ کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کس موسم کا ہائیکو ہے۔ اس میں اردو غزل کی طرح سے جذبے اور احساس کا بیان نہیں ہوتا، موسموں کی سپرٹ اور ذات کا حوالہ آتا ہے۔ ہمارے ہاں تین مصرعوں کی مثلث، جو اردو شاعری میں موجود رہی ہے، اسے ہائیکو کا نام دے دیا جاتا ہے۔
Load Next Story