تعلیم یافتہ معاشرہ

سندھ کی عمومی صورت تک لگتا ہے کہ تہذیب انسانی پیچھے پلٹ رہی ہے اور معاشرہ اجتماعیت سے انفرادیت کی جانب محو سفر ہے۔

تعلیمی اداروں میں ایک خوف اور دباؤ کی فضا ہے اور سکون عنقا ہے۔ فوٹو : فائل

بدلتے وقت کے ساتھ ہمارے سماج کی بنیادی اخلاقیات بھی ''جدیدیت'' کے رنگ میں بے رنگی کی مجذوبیت میں غرق ہوچکی ہے۔

ملک کی مجموعی صورت حال سے سندھ کی عمومی صورت تک یوں لگتا ہے کہ تہذیب انسانی پیچھے پلٹ رہی ہے اور معاشرہ اجتماعیت سے انفرادیت کی جانب محو سفر ہے۔ معاشرے میں تعلیم یافتہ ہونے کا دعوے دار فرد شرف انسانی سے ہی نا آشنا محسوس ہوتا ہے اور عملاً ''تعلیم یافتہ ماحول'' کا لطیف احساس ہونے کے بجائے معاشرے میں ایک کثافت اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

طلبہ وطالبات کی ایک کثیر تعداد ہر سال مختلف تعلیمی مدارج سے فارغ التحصیل ہونے کی اسناد حاصل کر کے اعداد و شمار میں اضافے کا سبب تو ضرور بن رہے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ معاشرے کے لیے کارآمد کتنے طلبہ ہوتے ہیں؟ معاشرتی ناہمواری کا مسئلہ ترقی پذیر ممالک سمیت پوری دنیا میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کا عام شہری اپنے بنیادی معاشرتی اقدار سے بے زار اور باغی نہیں۔ صرف تعلیم کی وجہ سے ہی انسانیت سوز واقعات کے باوجود فرد کا باہمی تعلق اور احساس باقی رہتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں تعلیم یافتہ افراد کا جائزہ لیں تو سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے۔

دراصل تعلیم کی پختگی تبادلہ خیال اور کتب بینی سے دماغ تازہ دم ہوتے ہیں، مکالمے کی فضا ہی درس گاہوں کو دانش کدوں میں تبدیل کرتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کی عدم موجودگی میں کیا آج کے طالب علم کی کوئی حقیقی اور متفقہ تعریف کی جا سکتی ہے؟ یہ سوال اساتذہ اور اہل دانش کو دعوت فکر دے رہا ہے۔ کیا درس گاہوں کی ذمہ داری صرف فیکٹریوں، کارخانوںاور دفاترکے لیے ملازمین اور مزدور فراہم کرنا ہی رہ گیا ہے؟ اعلا فکری صلاحیتوں کی نمو اجتماعی طور پر کہاں ہے؟ ایسے میں کرشماتی طور پر چند طلبا میں اعلا صلاحیتوں کا ظہور ہو جائے تو وہ صرف ''خداداد'' وصف ہی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اساتذہ کا کمال تو کثرت کے پیمانے پر ہی تسلیم کیا جائے گا۔




تعلیمی اداروں میں ایک خوف اور دبائو کی فضا ہے اور سکون عنقا ہے۔ طلبا و اساتذہ کو ہمہ وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کسی بھی موضوع پر اظہار رائے سے کوئی بھڑک نہ جائے اور پھر دھونس دھمکیوں، اسلحہ اور تشدد سے مزاج پرسی نہ کی جائے۔ حتیٰ کہ اس ماحول کی بنا پر بہت سی نصابی ضروریات ہی سرے سے تشنہ رہ جاتی ہیں اور اساتذہ خوف فساد خلق سے خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں تعلیم یافتہ معاشرے کا خواب ہم کس خانے میں رکھ سکتے ہیں۔

سول سوسائیٹی کا اصطلاحی نعرہ پچھلے چند سالوں میں جس طرح عام کیا گیا ہے اس نے تو ازخود معاشرتی طبقات میں مزید ایک طبقے کا اضافہ کیا ہے جس کے نزدیک معتبری اور توقیری صرف انہی کی عظمت ہے جو مخصوص بود و باش سے تعلق رکھتے ہوں۔ شاید ان کے نزدیک وہ ''ماں'' جو ''بی اماں'' کی طرح کی کسی محمد علی جوہر اور شوکت علی جیسے تاریخ ساز افراد کی پرورش کر رہی ہے۔۔۔ جو مزدورکدال چلانے سے پسینے میں شرابور ہے۔۔۔ جو ہنر مند ہاتھوں سے مٹی کے ظروف بنا رہا ہے، وہ بھی اس معاشرے کا حصہ نہیں۔

ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ علم کا تعلق اسناد سے نہیں، تہذیب، اقدار، اخلاق، فکر و انسانی جذبوں کی پاس داری، حق گوئی اور سچ سے ہے۔ ایک فرد جو باقاعدہ مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں لیکن شعور کی دولت سے مالا مال ہے، دوسری طرف ایک فرد کسی معتبر ادارے کی سند کا حامل اگر شعور علم کی حقانیت سے بے خبر ہو تو کیا دونوں کو ایک ہی مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں، تعلیمی نظام کا مقصد معاشرے کو صرف ڈگری اور اسناد یافتہ افرادی قوت یا روزگار کی فراہمی نہیں بلکہ ان کے عقل وشعور کے احساس کو اجاگر کرنا ہے، جس کے بعد ان کے اور ایک غیر تعلیم یافتہ فرد کے فہم اور کردار میں واضح طور پر تمیز کی جاسکے۔

تعلیم یافتہ معاشرے کے لیے ہماری موجودہ صورت حال کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں۔ اساتذہ سے لے کر تعلیمی ادارے اور نصاب سے لے کر تعلیمی امور میں سیاسی مداخلت تک تمام چیزیں عام طلبا کو علم سے بہرہ ور کرنے کے بجائے فقط ایک سند یافتہ فرد میں تبدیل کر رہی ہیں۔ اپنی جڑوں سے دور فقط مغربیت اور اپنی روایات واقدار سے دوری تعلیم کے نام پر کچھ اور ہی منظر کشی کر رہی ہے۔ ہماری خواندگی کے اعداد و شمار خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن معیار کے پیمانے پر تعلیم یافتہ معاشرے کا خیال ابھی اپنی منزل سے بہت دور ہے۔
Load Next Story