ایکسپو سینٹر میں آٹھویں عالمی کتب میلے کا انعقاد

ہمارے ہاں کتب بینی کا ماند پڑتا شوق حکومت اور اس کے مختلف اداروں کی اس طرف سے غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔

طلبہ نے میلے میں اپنی دل چسپی کے موضوعات اور نصابی ضرورت کے مطابق کتب کی خریداری کی۔ فوٹو : فائل

کتابوں اور تعلیم کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ کتابیں نہ صرف رسمی تعلیم کا ذریعہ ہیں بلکہ غیر رسمی تعلیم کے لیے بھی انہی پر انحصار کیا جاتا ہے۔

اسی لیے خصوصاً ترقی یافتہ معاشرے شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کوششوں کے ساتھ طالب علموں اور مختلف موضوعات میں دل چسپی رکھنے والے افراد میں کتب بینی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس کا مقصد رسمی تعلیم کے بعد علمی میدان میں مزید آگے بڑھنے اور نئے دور سے خود کو ہم آہنگ رکھنا ہوتا ہے۔ کتب بینی کا رجحان زمانہ طالب علمی کے دوران اور اس کے بعد بھی معلومات میں اضافے اور شعور اور آگاہی کا سفر جاری رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی ویسے ہی نہایت پست ہے اور خواندہ لوگوں میں بھی لکھنے پڑھنے کا رجحان مایوس کن ہے، جس کے نتیجے میں ہم نئے علمی رجحانات، فکر اور فلسفے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ہمارے تعلیمی نظام میں کتابوں کو فقط نصابی ضروریات کی تکمیل کا حصہ ہی سمجھا گیا ہے اور طالب علم کتب میں دل چسپی پیدا کرنے کے بجائے محض ضرورت کی حد تک ہی ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے وقتاً فوقتاً ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا رہتا ہے، جس سے معاشرے پر صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں اور معاشرہ پستی اور جہالت سے نکل کر ترقی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں کتب بینی کا ماند پڑتا شوق حکومت اور اس کے مختلف اداروں کی اس طرف سے غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ تاہم کسی نہ کسی سطح پر کتب میلوں کا انعقاد اور علمی و ادبی سرگرمیوں کی صورت میں معاشرے کو بیدار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں پچھلے دنوں پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے تحت کراچی کے ایکسپوسینٹر میں آٹھویں بین الاقوامی کتب میلے کا انعقاد کیا گیا، جس میں یوں تو ہر عمر کے افراد کی دل چسپی کے پیشِ نظر مختلف موضوعات پر کتب موجود تھیں، لیکن بہ طور خاص بچوں اور طلبہ کے ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ناشرین نے خصوصی اسٹالز لگائے، جسے بے حد پزیرائی ملی۔ اس میلے میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، ادیب و دانش ور طبقہ، خصوصاً طالب علم بڑی تعداد میں نظر آئے۔




اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے سیکڑوں طلبہ نے میلے میں اپنی دل چسپی کے موضوعات اور نصابی ضرورت کے مطابق کتب کی خریداری کی۔ اس میلے میں اساتذہ، شاعر، ادیب، بیوروکریٹس اور عام شہریوں نے دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور اسے قابل قدر کاوش قرار دیا۔ اساتذہ اور دانش وروں نے اس قسم کی تقریبات اور میلوں کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ کتاب تبدیلی کا اہم ذریعہ ہے۔ کتب میلے فکری انقلاب برپا کرنے کے ساتھ ہمارے معاشرے میں مثبت قدروں کے فروغ کا اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ کتب میلوں کی خاصیت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف قلم کاروں کی مختلف موضوعات پرکتابیں ایک ہی چھت کے نیچے دست یاب ہوتی ہیں اور باذوق افراد اپنی دل چسپی کے مطابق کتابیں خرید ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپو سینٹر میں منعقدہ عالمی کتب میلے میں غیر ملکی ناشر بھی شریک تھے۔ ان میں بھارتی، ایرانی، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے ناشر شامل ہیں۔ بین الاقوامی کتب میلے میں شیخ شوکت علی اینڈ سنز، ویلکم بک پورٹ، انجمن ترقی اردو، خانہ فرہنگ اسلامی ایران، اکادمی ادبیات پاکستان، پاکستان لا ہائوس، سندھی ادبی بورڈ، شاہ لطیف چیئر جامعہ کراچی، پیرا مائونٹ بک، لبرٹی اور نظریہ پاکستان سمیت دیگر ناشرین کے 300 سے زائد اسٹالز لگائے گئے، جن میں انگریزی اور اردو ادب میں افسانہ، ناول، سیاست، ثقافت، شاعری، قانون، فلسفہ، سوانح حیات، اسلامی کتب، بچوں اور خواتین کی دل چسپی کے موضوعات اور نصابی کتب موجود تھیں۔ میلے میں لاکھوں کتابوں کے علاوہ سی ڈیز بھی رکھی گئی تھیں، جن میں وہاں آنے والوں خصوصاً کمپیوٹر سے واقف نوجوان طبقے نے زیادہ دل چسپی لی۔ اس میلے میں مختلف اسکولوں اور کالجز کے طالب علموں نے اپنے پرنسپل اور اساتذہ کے ساتھ شرکت کی اور نہایت پر جوش نظر آئے۔

مختلف ناشرین کتب نے طلبہ اور بچوں کی دل چسپی کے پیش نظر ایکسپو سینٹر کے کتب میلے کے دوران مختلف سرگرمیوں کا انعقاد بھی کیا تھا۔ ان میں اسپکٹرم پبلشرز نے ''ٹیچرز اینڈ پرنٹس کمیونیکیشن'' پر مذاکرہ، ایمز کی جانب سے کوئز مقابلہ، ایم کے بکس انٹرنیشنل کی جانب سے ''From My Soul'' نامی کتاب کی تقریبِ رونمائی، لبرٹی بکس نے مقابلہ مصوری، انجمن خدام القران کا آئی کیو مقابلہ اور کہانیوں کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں، جسے وہاں موجود تمام افراد نے سراہا۔

نئی نسل بالخصوص طالب علموں کو کتب سے جوڑنے کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد نہایت ضروری ہے ۔ ساتھ ہی تعلیمی نظام میں کتب کو نصابی ضرورت سے بھی بڑھ کر درجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ طلبہ حقیقی ماخذ علم سے الگ نہ ہوں اور اس کی قدروقیمت سے آگاہ رہیں۔ عالمی کتب میلے کے موقع پر متعدد اسکولوں کی جانب سے اپنے کتب خانوں کے لیے ذخیرہ کتب کی خریداری کی گئی جو بلاشبہ نہایت مثبت بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسکولوں کی سطح پر طلبہ کو کتب بینی سے جوڑنے کی خاطر ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کرے ساتھ ہی تمام اسکولوں میں ایک قابل قدر کتب خانے کی موجودگی لازمی قرار دے اور اسے مطالعہ کتب سے متعلق باقاعدہ لازمی نصاب تشکیل دے جس کی کام یابی کے لیے طلبہ کتب خانوں اور کتب سے استفادہ کریں اور نچلی سطح سے ہی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوں۔
Load Next Story