مصر میں دائیں اور بائیں بازو کی چپقلش کا نیا موڑ

صدر مرسی نے اختیارات میں اضافے کا حکم نامہ واپس لے کر مصر کے سیاسی بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جو خوش آئند ہے۔

مصر میں اخوان المسلمون اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی جنگ نےعوام کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

مصر کے صدر محمد مرسی نے اپوزیشن کے پر تشدد مظاہروں' عدلیہ کی بھرپور مزاحمت اور فوج کے انتباہ کے بعد بالآخر اپنے اختیارات میں اضافے کا حکم نامہ واپس لے لیا ہے۔ تاہم وہ آئینی مسودے پر 15 دسمبر ہی کو ریفرنڈم کرانے کے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس پر حزب اختلاف کے اتحاد نے ریفرنڈم مسترد کرتے ہوئے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھنے اور حکومت سے مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے۔ صدر مرسی نے 22 نومبر کو ایک صدارتی فرمان جاری کیا تھا جس کے تحت انھیں یہ اختیار دیا گیا کہ ان کی حکومت کے فیصلوں کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا اور وہ جب چاہیں کسی جج' جرنیل یا عہدے دار کو اس کے منصب سے ہٹا سکتے ہیں۔

اس فرمان کے جاری ہوتے ہی عدلیہ کی جانب سے شدید مزاحمتی ردعمل سامنے آیا اور ججوں نے ہڑتال کر دی ۔ حزب اختلاف نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ حکومت نے ان مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے تشدد کا رخ اختیار کر لیا اور اس امرکا خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کہیں مصر میں شام کی طرز پر خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے۔ مصر میں برسراقتدار اخوان المسلمون اور بائیں بازو پر مشتمل حزب اختلاف کے درمیان نظریاتی تفاوت سے جنم لینے والی سیاسی جنگ نے مصری عوام کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ مسلمان ممالک کا یہ المیہ رہا ہے کہ حکمران زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صدر مرسی کے حامیوں کا موقف ہے کہ عدلیہ سابق صدر حسنی مبارک کے دور کے افراد پر مشتمل ہے جو منتخب صدرکو ہٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔دوسرے حلقے کا کہنا ہے کہ صدر اختیارات حاصل کرکے آمر بن جائیں گے اور پھر ان میں اور حسنی مبارک میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔


صدر مرسی نے اختیارات میں اضافے کا حکم نامہ واپس لے کر مصر کے سیاسی بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جو خوش آئند ہے مگر ریفرنڈم کرانے کے اعلان سے یہ سیاسی بحران حل ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اپوزیشن نے ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج اور مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔ اپوزیشن نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جب تک ریفرنڈم منسوخ نہیں ہوتاحکومت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ بادی النظر میں مصر میں جاری کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے امکانات نظر نہیں آ رہے کیونکہ اپوزیشن اپنے مطالبات پورے ہونے تک حکومت سے کسی طور پر سمجھوتے کے لیے آمادہ نہیں۔ فوج کے انتباہ کے بعد صدر مرسی نے اپنے اختیارات میں اضافے کا فرمان واپس تو لے لیا ہے مگر 15 دسمبر کو ریفرنڈم کا اعلان برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے سیاسی بحران کے جاری رہنے کا امکان بڑھا دیا ہے۔

مصری عوام نے اپنا خون بہا کر صدر حسنی مبارک کو اس امید پر رخصت کیا تھا کہ مستقبل کی حکومت ان کے لیے خوشی کی نوید لے کر آئے گی مگر دائیں اور بائیں بازو کی چپقلش نے اپنا رنگ دکھایا اور صدر مرسی نے ہر اہم شعبے میں بائیں بازو کو زیر کرنے کے لیے آئینی مسودہ جاری کر دیا جسے بائیں بازو نے کسی صورت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصری عوام اب زیادہ با ہوش اور پر عزم ہو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت کسی بھی حکومت کے ایسے اقدامات کو قبول کرنے پر تیار نہیں جو ان کے حقوق چھین اور آزادی سلب کر لے۔ صدر مرسی اگر مصر میں امن کے قیام اور اسے ترقی دینے کے خواہاں ہیں تو انھیں ہر اس اقدام سے گریزکرنا ہو گا جس سے عوامی حقوق کی آزادی پر آنچ ہوتی ہو۔
Load Next Story