دفاع پاکستان کونسل کا لانگ مارچ اورنوازشریف طلال بگٹی رابطہ
نواز شریف نے کہا کہ ان کی جماعت کو بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا احساس ہے
نیٹو سپلائی کی بحالی کے فیصلے کے خلاف دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام کوئٹہ سے چمن تک لانگ مارچ کیاگیا جس کی قیادت مولانا سمیع الحق نے کی۔ لانگ مارچ کے شرکاء نے چمن جوکہ سرحدی علاقہ ہے پر جاکر دھرنا دیا۔ لانگ مارچ کوئٹہ سے شروع ہوا۔
شرکاء نے رات کو یارو کے مقام پر پڑائو ڈالا۔ اگلے دن لانگ مارچ کے شرکاء ایک نئے جذبے اور جوش وولولے کے ساتھ چمن سرحدی علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ چمن پہنچنے کے بعد لانگ مارچ کے ہزاروں شرکاء نے سرحدی علاقے پر دھرنا دیا۔ اس موقع پر شرکا سے دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوںنے خطاب بھی کیا مقررین جن میں مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالقادر لونی، مولانا میرحمزہ، مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا شیخ محمد یعقوب، مولانا عبدالمتین اخونزادہ، مولانا محمد حنیف، مولانا محمود الحسن قاسمی اور دیگر شامل تھے نے حکومت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے ملک کے 18کروڑ عوام کی رائے کو پس پشت ڈال کر صرف تین عورتوں کے ذریعے نیٹو سپلائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا جس پر حکمرانوںکو شرم آنی چاہیے، یہ ملک کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چمن کے سرحدی علاقے پر آکر ملا عمر اور افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق دفاع پاکستان کونسل کے اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں سب سے اہم کلیدی کردار جمعیت علماء اسلام(نظریاتی)نے ادا کیاجس کے رضاکاروں نے نہ صرف لانگ مارچ کے کوئٹہ سے چمن تک سیکورٹی کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھے بلکہ لانگ مارچ میں جمعیت کے کارکنوں کی تعداد بھی ہزاروںمیں تھی۔ تاہم لانگ مارچ کے دوران کوئٹہ اور چمن تک نیٹو کی سپلائی معطل رہی اور درجنوں ٹریلر محفوظ مقامات پر کھڑے کردیئے گئے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
دوسری جانب کوئٹہ سے تقریباً20کلو میٹر کے فاصلے پر واقع کچلاک کے مقام پر عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے کو نامعلوم افراد نے اس وقت نشانہ بنایا جب جلسہ شروع ہونے والا تھا۔ پارٹی کی صوبائی قیادت سٹیج پر تھی۔ اے این پی کے جلسہ گاہ کے قریب ہی ایک سائیکل میں بم نصب کیاگیاتھا جو زوردار دھماکے سے پھٹا جس کے نتیجے میں6افراد جن میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی نائب صدر ملک قاسم بھی شامل تھے جاں بحق ہوگئے
جبکہ پارٹی کے صوبائی صدر اورنگزیب کاسی، ان کی اہلیہ سمیت 24افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اسی واقعہ کے خلاف اگلے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹرڈائون ہڑتال کی گئی جبکہ پارٹی کی سطح پر تین روز تک سوگ منایاگیا۔ اس واقعہ کی کسی گروپ یا تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم صوبے کی تمام سیاسی وقوم پرست جماعتوں جن میں پی پی پی مسلم لیگ(ن)، پشتونخواملی عوامی پارٹی، جے یوآئی(ف)جے یو آئی(ن)جے یو آئی(س) نیشنل پارٹی، بی این پی(مینگل)جے ڈبلیو پی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور دیگر نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت نے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر مختلف امور پر غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئٹہ شہر اور گردونواح میں پولیس اور لیویز تھانوں کی سطح پر گھروں اور مکینوں کے جاری سروے کو جلد مکمل کیاجائے گا، رہائش گاہوں اور رہائشیوں کا جامع ڈیٹابیس تیار کیاجائے گا جس کیلئے نادرا کی معاونت حاصل کی جائے گی جبکہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کا مکمل سروے کرکے ان کا ڈیٹا بھی تیار کیاجائے گا،
پولیس فورس کو مزید فعال اور متحرک بنانے کیلئے انہیں تربیت، جدید اسلحہ اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں مزید خفیہ کیمرے نصب کئے جائیں گے، پولیس کو جی ایس ایم لوکیٹر جلد فراہم کردیئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پولیس اور دیگر فورسز کے گشت کو مزید بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیاہے۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں نواز شریف اورجے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہواہے۔ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے میاں نواز شریف کوکوئٹہ آنے کی دعوت دی ہے جسے انہوںنے قبول کرلیاہے۔ ٹیلی فونک رابطے کے دوران میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دھرائی ہے کہ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور امن پسند ہیں، آمروںنے بلوچستان میں احساس محرومی پیدا کیاہے۔
نواب اکبر خان بگٹی کا قتل ملکی تاریخ کا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ اس واقعہ نے عوام کے دلوں کو زخمی اور دکھی کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ان کی جماعت کو بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا احساس ہے۔ بلوچستان کے عوام نواب بگٹی کی شہادت کے بعد سے ابھی تک غم میں نڈھال ہیں۔ آنے والے انتخابات میں عوام نے ہمارا ساتھ دیا اور ہماری پارٹی برسراقتدار آئی تو ہم نواب بگٹی کے قاتلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں گے، جو لوگ اس وقت ملک سے باہر مقیم ہیں، انہیں واپس لائیں گے۔ جب تک نواب بگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی، اس وقت تک بلوچستان کے عوام کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے سیاسی اتحاد پر بھی اتفاق کیا جس کا حتمی فیصلہ عید کے بعد ہوگا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق میاں نواز شریف کی باتیں اپنی جگہ پر بہت اچھی اور ٹھوس ہیں تاہم انہوںنے بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی بلانے کا بھی فیصلہ کیا تھا لہٰذاانتخابات سے قبل وہ بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی اپنی جماعت کے زیر اہتمام بلائیں، اس میں وہ تمام سیاسی جماعتوں، قوم پرستوں اور سٹیک ہولڈرز کو مدعو کریں۔ نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بلوچستان کے مسئلے کو اولین ترجیح دیں گے تو اس سے قبل انہیں ایسے مثبت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ باور ہوسکے کہ وہ واقعی بلوچستان کے حوالے سے درد رکھتے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ انتخابات میں وہ کتنی کامیابی حاصل کرکے اپنی حکومت بناتے ہیں ان کا اے پی سی بلانے کا یہ اقدم یقینا ایک مثبت راہ کو ہموار کرنے میں انتہائی مؤثر اور مددگار ثابت ہوگا۔
شرکاء نے رات کو یارو کے مقام پر پڑائو ڈالا۔ اگلے دن لانگ مارچ کے شرکاء ایک نئے جذبے اور جوش وولولے کے ساتھ چمن سرحدی علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ چمن پہنچنے کے بعد لانگ مارچ کے ہزاروں شرکاء نے سرحدی علاقے پر دھرنا دیا۔ اس موقع پر شرکا سے دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوںنے خطاب بھی کیا مقررین جن میں مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالقادر لونی، مولانا میرحمزہ، مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا شیخ محمد یعقوب، مولانا عبدالمتین اخونزادہ، مولانا محمد حنیف، مولانا محمود الحسن قاسمی اور دیگر شامل تھے نے حکومت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے ملک کے 18کروڑ عوام کی رائے کو پس پشت ڈال کر صرف تین عورتوں کے ذریعے نیٹو سپلائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا جس پر حکمرانوںکو شرم آنی چاہیے، یہ ملک کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چمن کے سرحدی علاقے پر آکر ملا عمر اور افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق دفاع پاکستان کونسل کے اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں سب سے اہم کلیدی کردار جمعیت علماء اسلام(نظریاتی)نے ادا کیاجس کے رضاکاروں نے نہ صرف لانگ مارچ کے کوئٹہ سے چمن تک سیکورٹی کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھے بلکہ لانگ مارچ میں جمعیت کے کارکنوں کی تعداد بھی ہزاروںمیں تھی۔ تاہم لانگ مارچ کے دوران کوئٹہ اور چمن تک نیٹو کی سپلائی معطل رہی اور درجنوں ٹریلر محفوظ مقامات پر کھڑے کردیئے گئے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
دوسری جانب کوئٹہ سے تقریباً20کلو میٹر کے فاصلے پر واقع کچلاک کے مقام پر عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے کو نامعلوم افراد نے اس وقت نشانہ بنایا جب جلسہ شروع ہونے والا تھا۔ پارٹی کی صوبائی قیادت سٹیج پر تھی۔ اے این پی کے جلسہ گاہ کے قریب ہی ایک سائیکل میں بم نصب کیاگیاتھا جو زوردار دھماکے سے پھٹا جس کے نتیجے میں6افراد جن میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی نائب صدر ملک قاسم بھی شامل تھے جاں بحق ہوگئے
جبکہ پارٹی کے صوبائی صدر اورنگزیب کاسی، ان کی اہلیہ سمیت 24افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اسی واقعہ کے خلاف اگلے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹرڈائون ہڑتال کی گئی جبکہ پارٹی کی سطح پر تین روز تک سوگ منایاگیا۔ اس واقعہ کی کسی گروپ یا تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم صوبے کی تمام سیاسی وقوم پرست جماعتوں جن میں پی پی پی مسلم لیگ(ن)، پشتونخواملی عوامی پارٹی، جے یوآئی(ف)جے یو آئی(ن)جے یو آئی(س) نیشنل پارٹی، بی این پی(مینگل)جے ڈبلیو پی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور دیگر نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت نے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر مختلف امور پر غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئٹہ شہر اور گردونواح میں پولیس اور لیویز تھانوں کی سطح پر گھروں اور مکینوں کے جاری سروے کو جلد مکمل کیاجائے گا، رہائش گاہوں اور رہائشیوں کا جامع ڈیٹابیس تیار کیاجائے گا جس کیلئے نادرا کی معاونت حاصل کی جائے گی جبکہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کا مکمل سروے کرکے ان کا ڈیٹا بھی تیار کیاجائے گا،
پولیس فورس کو مزید فعال اور متحرک بنانے کیلئے انہیں تربیت، جدید اسلحہ اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں مزید خفیہ کیمرے نصب کئے جائیں گے، پولیس کو جی ایس ایم لوکیٹر جلد فراہم کردیئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پولیس اور دیگر فورسز کے گشت کو مزید بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیاہے۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں نواز شریف اورجے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہواہے۔ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے میاں نواز شریف کوکوئٹہ آنے کی دعوت دی ہے جسے انہوںنے قبول کرلیاہے۔ ٹیلی فونک رابطے کے دوران میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دھرائی ہے کہ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور امن پسند ہیں، آمروںنے بلوچستان میں احساس محرومی پیدا کیاہے۔
نواب اکبر خان بگٹی کا قتل ملکی تاریخ کا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ اس واقعہ نے عوام کے دلوں کو زخمی اور دکھی کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ان کی جماعت کو بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا احساس ہے۔ بلوچستان کے عوام نواب بگٹی کی شہادت کے بعد سے ابھی تک غم میں نڈھال ہیں۔ آنے والے انتخابات میں عوام نے ہمارا ساتھ دیا اور ہماری پارٹی برسراقتدار آئی تو ہم نواب بگٹی کے قاتلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں گے، جو لوگ اس وقت ملک سے باہر مقیم ہیں، انہیں واپس لائیں گے۔ جب تک نواب بگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی، اس وقت تک بلوچستان کے عوام کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے سیاسی اتحاد پر بھی اتفاق کیا جس کا حتمی فیصلہ عید کے بعد ہوگا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق میاں نواز شریف کی باتیں اپنی جگہ پر بہت اچھی اور ٹھوس ہیں تاہم انہوںنے بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی بلانے کا بھی فیصلہ کیا تھا لہٰذاانتخابات سے قبل وہ بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی اپنی جماعت کے زیر اہتمام بلائیں، اس میں وہ تمام سیاسی جماعتوں، قوم پرستوں اور سٹیک ہولڈرز کو مدعو کریں۔ نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بلوچستان کے مسئلے کو اولین ترجیح دیں گے تو اس سے قبل انہیں ایسے مثبت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ باور ہوسکے کہ وہ واقعی بلوچستان کے حوالے سے درد رکھتے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ انتخابات میں وہ کتنی کامیابی حاصل کرکے اپنی حکومت بناتے ہیں ان کا اے پی سی بلانے کا یہ اقدم یقینا ایک مثبت راہ کو ہموار کرنے میں انتہائی مؤثر اور مددگار ثابت ہوگا۔