پارٹی میں میز کرسی سمیت شمولیت
اللہ اس نیک سیرت انسان کو محفوظ رکھے۔ سازشی لوگ اسے ایک داغ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور سیاستدان بے تکلف حسب ضرورت جماعتیں بدلتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سیاسی معمول بن چکا ہے کہ اب کوئی اسے برا بھی نہیں سمجھتا بلکہ لطف لیتا ہے، ایسی جماعتیں اب شاذ و نادر ہی رہ گئی ہیں جس کو چھوڑنا سیاست کو چھوڑنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ ایسی جماعتوں کی نظریاتی پختگی اس حد تک پہنچ چکی ہوتی ہے کہ نظریاتی لوگوں کو اس کے سوا کوئی دوسری جماعت نظر ہی نہیں آتی، دین و ایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ عوام اسے قبولیت بخشیں یا نہ بخشیں اس میں شامل لوگ کسی بات سے بددل نہیں ہوتے۔ جماعتیں بدلنے کے ایک موسم میں ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس تو ذاتی وسائل بھی ہیں، برادری بھی ہے،کسی پاپولر جماعت میں شامل ہو جائیں تو انھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور جواب دیا کہ ایک زمانے میں ابوجہل اور ابو لہب بھی بہت پاپولر تھے۔
اس پر ان کو میں نے ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ وہ نظریات کی جماعت کے ساتھ تھے ،کسی جماعت کے قابل قبول نظریات کے ساتھ نہیں تھے تو بات ہو رہی تھی جماعتوں کے بدلنے کی، گزشتہ دنوں لاہور کے ایک سیاستدان نے صرف جماعت ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بدل لیا۔ انھوں نے لاہور شہر کے ایک مہنگے علاقے میں اپنی ایک عمارت اور اس میں رکھی ہوئی میز کرسی سمیت ڈاکٹر قدیر خان کی جماعت تحفظ پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔ خبر یہ چھپی کہ جناب امیر البحر (ریٹائرڈ ایڈمرل) جاوید اقبال صاحب اپنی عمارت اور اس میں موجود کرسی میز سمیت تحریک انصاف کو چھوڑ کر تحریک تحفظ پاکستان میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی یہ عمارت تحریک انصاف کا دفتر تھی اور عمران خان یہاں آ کر جس کرسی پر بیٹھا کرتے تھے انھوں نے جناب ڈاکٹر قدیر خان کو اسی کرسی پر بٹھایا، یوں وہ پہلے سیاستدان بن گئے جو اپنے ذاتی دفتر اور میز کرسی سمیت کسی دوسری جماعت میں شامل ہو گئے۔
ورنہ ہم آپ اب تک تو یہی سنتے رہے کہ فلاں لیڈر اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت فلاں پارٹی میں شامل ہو گئے یا فلاں سجادہ نشین اپنے ہزاروں مریدوں سمیت کسی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ دفتر اور میز کرسی کے سامان سمیت پارٹی بدلنے کا یہ پہلا موقع تھا اور اس میں خبریت بس یہی ہے ورنہ پارٹی بدلنا اب کوئی خبر نہیں رہی،الا یہ کہ کوئی بہت ہی بڑا لیڈر یا پارٹی کا سربراہ ایسی حرکت کرے اور یہ ایک بڑی خبر بن جائے۔ یہ سیاستدان جن کا اسم گرامی جناب جاوید اقبال ہے کسی خاص سیاسی حیثیت کے بغیر ہی ایک دلچسپ خبر بنا گئے ہیں۔ کسی بڑے ہی سیاسی ہنر مند نے انھیں یہ دلچسپ مشورہ دیا ہے یا ہو سکتا ہے ان کی کوئی پرانی دوست تندوتیز لہر ان کے جہاز کا رخ موڑ سکتی ہو، وہ عمر بھر ان لہروں کے حکمران رہے ہیں اور لہریں اپنے امیر البحر یعنی سمندر کے سردار کو کیسے بھول سکتی ہیں۔
محترم و مکرم میرے عمر بھر کے ممدوح جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کی اسم گرامی کے سلسلے میں اس مزدور صحافی نے بڑے آمرانہ خطروں کا سامنا کیا ہے اور بڑی نوکریاں تک چھوڑی ہیں، محض اس لیے کہ مجھ سے نہ جانے کتنے ہزار میل دور بھوپال میں پیدا ہونے والے اس نئے پاکستانی نے حب وطن سے مغلوب ہو کر ایٹم بم بنا دیا جس کی ایک نادر داستان ہے جب ان کے بارے میں سیاست میں آنے کی خبریں ملیں تو مجھے سب اندازہ ہو گیا کہ ان کے خلاف ایک گہری سازش شروع کر دی گئی ہے، پاکستان جیسے دشمنوں کے نشانے پر موجود ملک کے لیے ایٹم بم سے بڑی خدمت اس دنیائے اسباب میں اور کیا ہو سکتی ہے۔ قوم نے ان کی اس خدمت کو سر آنکھوں پر لیا اور ان کا نام ایک قومی جذبے اور ولولے کی علامت بن گیا۔ سیاست کی دنیا تو ان کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں تھی۔ میں نے عمر بھر سیاست کی وقایع نگاری کی ہے اور میں اس کے اسرار و رموز اور نتائج کو کسی حد تک جانتا ہوں، اس لیے میں نے کوشش کی کہ وہ اس سازش سے بچ نکلیں لیکن منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے اور اس صورت حال پر کیا صادق آتا ہے کہ
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے لیکن کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی تھا۔
ایک درد مند پاکستانی کی طرح وہ ملکی مسائل بلکہ مصائب پر اظہار تشویش کرتے رہے اور ان کی باتوں کو بہت اہمیت دی گئی لیکن مجھے نہ جانے کیوں یہ خطرہ رہا کہ وہ رفتہ رفتہ عملی سیاست کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور ان کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف جو ایک اور سازش تیار کی گئی ہے وہ کامیابی کی طرف رواں ہے۔ جنرل مشرف نے ان سے جو بیان لیا اور جو ان کی زبانی ٹی وی پر نشر ہوا، یہ اس سازش کی ایک ابتدائی کڑی تھی، اس کے بعد کچھ اور ہنر مند لوگ اس سازش کے کارندے بن گئے اور ایک مکروہ دن ایسا آیا کہ ہمارا یہ سچ مچ کا ہیرو ان کی سازش کا شکار ہو گیا۔ اسے بھی آپ یہی سمجھیں کہ ایں ہم اندر عاشقی بالائے غمائے دگر کہ عاشقی میں یہ بھی دوسرے غموں میں ایک اور غم سہی۔ میں اپنے ایٹم بم بنانے والے لیڈر کا رضا کار تھا۔ لیکن قدرت کو یہی منظور تھا۔ اللہ اس نیک سیرت انسان کو محفوظ رکھے۔ سازشی لوگ اسے ایک داغ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس پر ان کو میں نے ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ وہ نظریات کی جماعت کے ساتھ تھے ،کسی جماعت کے قابل قبول نظریات کے ساتھ نہیں تھے تو بات ہو رہی تھی جماعتوں کے بدلنے کی، گزشتہ دنوں لاہور کے ایک سیاستدان نے صرف جماعت ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بدل لیا۔ انھوں نے لاہور شہر کے ایک مہنگے علاقے میں اپنی ایک عمارت اور اس میں رکھی ہوئی میز کرسی سمیت ڈاکٹر قدیر خان کی جماعت تحفظ پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔ خبر یہ چھپی کہ جناب امیر البحر (ریٹائرڈ ایڈمرل) جاوید اقبال صاحب اپنی عمارت اور اس میں موجود کرسی میز سمیت تحریک انصاف کو چھوڑ کر تحریک تحفظ پاکستان میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی یہ عمارت تحریک انصاف کا دفتر تھی اور عمران خان یہاں آ کر جس کرسی پر بیٹھا کرتے تھے انھوں نے جناب ڈاکٹر قدیر خان کو اسی کرسی پر بٹھایا، یوں وہ پہلے سیاستدان بن گئے جو اپنے ذاتی دفتر اور میز کرسی سمیت کسی دوسری جماعت میں شامل ہو گئے۔
ورنہ ہم آپ اب تک تو یہی سنتے رہے کہ فلاں لیڈر اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت فلاں پارٹی میں شامل ہو گئے یا فلاں سجادہ نشین اپنے ہزاروں مریدوں سمیت کسی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ دفتر اور میز کرسی کے سامان سمیت پارٹی بدلنے کا یہ پہلا موقع تھا اور اس میں خبریت بس یہی ہے ورنہ پارٹی بدلنا اب کوئی خبر نہیں رہی،الا یہ کہ کوئی بہت ہی بڑا لیڈر یا پارٹی کا سربراہ ایسی حرکت کرے اور یہ ایک بڑی خبر بن جائے۔ یہ سیاستدان جن کا اسم گرامی جناب جاوید اقبال ہے کسی خاص سیاسی حیثیت کے بغیر ہی ایک دلچسپ خبر بنا گئے ہیں۔ کسی بڑے ہی سیاسی ہنر مند نے انھیں یہ دلچسپ مشورہ دیا ہے یا ہو سکتا ہے ان کی کوئی پرانی دوست تندوتیز لہر ان کے جہاز کا رخ موڑ سکتی ہو، وہ عمر بھر ان لہروں کے حکمران رہے ہیں اور لہریں اپنے امیر البحر یعنی سمندر کے سردار کو کیسے بھول سکتی ہیں۔
محترم و مکرم میرے عمر بھر کے ممدوح جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کی اسم گرامی کے سلسلے میں اس مزدور صحافی نے بڑے آمرانہ خطروں کا سامنا کیا ہے اور بڑی نوکریاں تک چھوڑی ہیں، محض اس لیے کہ مجھ سے نہ جانے کتنے ہزار میل دور بھوپال میں پیدا ہونے والے اس نئے پاکستانی نے حب وطن سے مغلوب ہو کر ایٹم بم بنا دیا جس کی ایک نادر داستان ہے جب ان کے بارے میں سیاست میں آنے کی خبریں ملیں تو مجھے سب اندازہ ہو گیا کہ ان کے خلاف ایک گہری سازش شروع کر دی گئی ہے، پاکستان جیسے دشمنوں کے نشانے پر موجود ملک کے لیے ایٹم بم سے بڑی خدمت اس دنیائے اسباب میں اور کیا ہو سکتی ہے۔ قوم نے ان کی اس خدمت کو سر آنکھوں پر لیا اور ان کا نام ایک قومی جذبے اور ولولے کی علامت بن گیا۔ سیاست کی دنیا تو ان کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں تھی۔ میں نے عمر بھر سیاست کی وقایع نگاری کی ہے اور میں اس کے اسرار و رموز اور نتائج کو کسی حد تک جانتا ہوں، اس لیے میں نے کوشش کی کہ وہ اس سازش سے بچ نکلیں لیکن منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے اور اس صورت حال پر کیا صادق آتا ہے کہ
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے لیکن کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی تھا۔
ایک درد مند پاکستانی کی طرح وہ ملکی مسائل بلکہ مصائب پر اظہار تشویش کرتے رہے اور ان کی باتوں کو بہت اہمیت دی گئی لیکن مجھے نہ جانے کیوں یہ خطرہ رہا کہ وہ رفتہ رفتہ عملی سیاست کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور ان کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف جو ایک اور سازش تیار کی گئی ہے وہ کامیابی کی طرف رواں ہے۔ جنرل مشرف نے ان سے جو بیان لیا اور جو ان کی زبانی ٹی وی پر نشر ہوا، یہ اس سازش کی ایک ابتدائی کڑی تھی، اس کے بعد کچھ اور ہنر مند لوگ اس سازش کے کارندے بن گئے اور ایک مکروہ دن ایسا آیا کہ ہمارا یہ سچ مچ کا ہیرو ان کی سازش کا شکار ہو گیا۔ اسے بھی آپ یہی سمجھیں کہ ایں ہم اندر عاشقی بالائے غمائے دگر کہ عاشقی میں یہ بھی دوسرے غموں میں ایک اور غم سہی۔ میں اپنے ایٹم بم بنانے والے لیڈر کا رضا کار تھا۔ لیکن قدرت کو یہی منظور تھا۔ اللہ اس نیک سیرت انسان کو محفوظ رکھے۔ سازشی لوگ اسے ایک داغ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔