عام انتخابات خیبرپختونخوا میں کون کس کے ساتھ جڑے گا

عام تاثر یہی ہے کہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں اتحاد نہ بھی ہوا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور ہوگی۔

تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو اس کے اثرات خیبرپختونخوا کی حدتک ہی ہوں گے (فوٹو ایکسپریس)

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد نہ بھی ہوا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور ہوگی۔دونوں پارٹیوں کی سربراہی ملاقات سے اس تاثرکو مزید تقویت ملتی ہے۔ تاہم ان دونوں جماعتوں کیلئے آئندہ الیکشن میں ساتھ چلنا اتنا آسان نہیں، جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔ اگرتحریک انصاف کی بات کی جائے تو اس میں شامل ہونے والوں کی اکثریت کا مقصد آئندہ الیکشن کیلئے ٹکٹ کا حصول ہے۔

اس بات کا اندازہ آئندہ عام انتخابات کے موقع پر ہو بھی جائے گا جب ٹکٹ نہ ملنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بہت سے لوگ تحریک انصاف کو خیر باد کہہ رہے ہوں گے۔ ان حالات میں اگر تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو اس کے اصل اثرات خیبرپختونخوا کی حدتک ہی ہوں گے۔ جماعت اسلامی کااصل مورچہ خیبرپختونخوا ہی ہے اس لیے جو لین دین ہوگی وہ اسی صوبے میںہوگی۔خیبرپختونخوا کی حد تک صورت حال یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی شرائط کو تسلیم کرلیا گیا ہوتا تو کافی عرصہ قبل ہی ایم ایم اے بحال ہوچکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ جماعت اسلامی ،جے یو آئی ہو یا تحریک انصاف ،ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار تو ہے لیکن اپنی شرائط پر۔ ظاہر ہے کہ وہی شرائط جو جے یو آئی کو پیش کی گئی تھیں وہی شرائط تحریک انصاف کے سامنے بھی رکھی جائیں گی ۔

جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کی بحالی کیلیے جے یو آئی کو جو شرائط پیش کی تھیں ان میں سب سے پہلی شرط نشستوں کی تقسیم کی تھی۔جماعت اسلامی نے صوبائی اسمبلی کے 99 میں نصف سے زائد حلقے مانگے ہوئے ہیں۔ دوسری شرط یہ تھی کہ جے یو آئی بلوچستان میں بھی حکومت کو خیر باد کہہ دے ۔ تیسری شرط یہ تھی کہ جے یو آئی الیکشن میں جانے سے قبل تحریری طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ سارے معاملات طے کرے۔ اگر آئندہ عام انتخابات میں یہ دونوں پارٹیاں دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر اکثریت حاصل کرتی ہیں تو اس صورت میں حکومت سازی کیلئے کیا فارمولا ہوگا ؟

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان آئندہ عام انتخابات کے دوران مل کر چلنے اور اکثریت ملنے کی صورت میں حکومت سازی کرنے کے حوالے سے گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں مذاکرات کی کئی نشستیں ہو چکی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف جس نے ٹکٹوں کی آس رکھنے والوں کو بڑی تعداد میں اپنے ساتھ شامل کیا ہے ، کیا وہ جماعت اسلامی کی خاطر اپنے بہت سے لوگوں کو قربان کرسکے گی ؟


اس سال جماعت اسلامی کے صوبائی امراء کے انتخابات ہورہے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ صوبائی امراء اور پھر خصوصی طور پر خیبرپختونخوا میں پروفیسر ابراہیم جو جماعت اسلامی کے اس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں سخت گیر اور پرانے خیالات کا مالک تصور کیاجاتا ہے، ممکنہ طور پر پارٹی استصواب کے ذریعے تبدیل ہوجائیں اور ان کی جگہ سنبھالنے والے نئے امیر ،نئی حکمت عملی کے تحت معاملات میں نرمی پیدا کرلیں تاہم اب جبکہ انتخابی عمل شروع ہوچکا ہے، واضح طورپر نظرآرہاہے کہ خیبرپختونخوا میں پروفیسر ابراہیم ہی ایک بار پھر صوبائی امارت سنبھالیں گے۔ الیکشن کمشنر کی جانب سے جو پینل تجویزکیاگیا ہے، اس میں پروفیسر محمد ابراہیم کے ساتھ مشتاق احمد خان اور مولانا محمد اسماعیل کے نام دیئے گئے ہیں۔

یہ بات خوب عیاں ہے کہ اگر پروفیسر ابراہیم اور ان دونوں شخصیات کا موازنہ کیاجائے تو پروفیسر ابراہیم ان سے کئی کوس آگے ہیں۔ ان سے ہٹ کر کسی دوسری شخصیت بشمول سراج الحق کے موجودہ حالات میں آگے آنے کے امکانات انتہائی کم نظر آرہے ہیں۔ اس لیے جو لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے صوبائی امراء کے انتخابات کے ذریعے جماعت اسلامی کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی ان سے بھول ہورہی ہے۔ جماعت کی جو موجودہ قیادت ہے، یہی اگلے تین سال بھی چلے گی۔ پالیسی بھی وہی رہے گی جو اس وقت یہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

جماعت اسلامی جس نے 1997ء اور پھر 2008 ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ،اسے اب اپنی اس غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک بڑے حصہ نے اپنی قیادت کو دلایا کہ مستقبل میں وہ سیاسی حوالے سے کوئی سا بھی فیصلہ کرے تاہم کم ازکم بائیکاٹ نہ کیاجائے۔ اس بات کو جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی تسلیم کرلیا ہے جو ایک جانب تو ایم ایم اے کی بحالی کے سلسلے میں جے یو آئی کے ساتھ بات چیت اور شرائط پر مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کے ساتھ بھی اس کی بات چیت جاری ہے۔ جماعت کوئی بھی محاذ خالی نہیں چھوڑنا چاہتی۔

تاہم جماعت اسلامی کے برعکس جے یو آئی کو اس حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے کہ وہ کس سیاسی پارٹی کے ساتھ آئندہ الیکشن کے لیے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے۔ جے یو آئی کے اندر اس بات پر ایک غیر اعلانیہ اتفاق ہے کہ اے این پی اورپیپلز پارٹی سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کی جائے کیونکہ اس کا جے یو آئی کو نقصان ہوگا۔ سب سے پہلی ترجیح ایم ایم اے کی بحالی کو دی جائے۔ اگر ایم ایم اے کی بحالی نہ ہو تو اس صورت میں مسلم لیگ(ن)کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے۔

اگرچہ جے یو آئی کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اے این پی کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کی جائے تاہم دوسری جانب اے این پی کے رہنما کو یقین ہے کہ جے یو آئی اور اے این پی تاریخی طورپر ایک دوسرے کے قریب ہیں، دونوں پارٹیوں کے ورکرز ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ووٹ بھی دیتے ہیں اس لیے انھیںالیکشن کیلیے ایک ہونا چاہیے۔ یہ سوچ ابھی بہت ابتدائی سطح پر ہے تاہم اگر جے یو آئی ،جماعت اسلامی کو راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو اس صورت میں جے یو آئی کے پاس جو آپشن باقی رہ جائیں گے ان میں اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا آپشن بہت اہم ہوگا۔ اے این پی ،پیپلز پارٹی سے انتخابی معاملات طے کرنے کے موڈ میں نہیں۔ دونوں پارٹیوں میں ورکرز کی نچلی سطح پر اعتماد کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم ازکم اے این پی رسک لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ پیپلز پارٹی سے ہٹ کر جے یو آئی اور پھر اس سے بھی ہٹ کر پیپلز پارٹی شیر پائو کی طرف دیکھ رہی ہے۔
Load Next Story