کریم کے جوتے
موجودہ حکمرانوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی بھی طرح اُن کی جھولی میں سیاسی شہادت کا تبرّک آن گرے۔
MULTAN:
یہ 60ء کی دہائی کا ذکر ہے ، یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو خود تو بولتا ہی تھا ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اِس کا '' طُوطی '' بھی بولتا تھا ۔ گو کہ 64 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوچکی تھیں ، لیکن ابھی یہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہی تھا ۔ پرنٹ میڈیا ایوبی آمریت کے نشانے پر تھا ۔ لہذا ریڈیو اور فلم ہی وہ ذرایع تھے جو عوام کی تفریحی سرگرمیوں کی تسکین و فرو غ کا ذریعہ تھے ۔ ریڈیو سستا اور مقبول ترین عوامی رسائی کا ذریعہ ہوا کرتا تھا ۔ریڈیو کے بعض پروگرام تو اتنے مقبول تھے کہ اُنہیں خاندان کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا ۔ مثلاً اتوار کی صبح ساڑھے آٹھ بجے ایک پروگرام '' حامد میاں کے ہاں '' اگر نہ سُنا جائے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ آج اتوار ہے ۔ ہفتے کی رات نو بجے '' اسٹوڈیو نمبر 9 '' کے نام سے ایک گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل ڈراما نشر ہوتا تھا تو سڑکوں پر ٹریفک کا شور کم ہوجاتا تھا ۔ اِسی طرح منگل کی رات مزاحیہ خاکوں پر مبنی ایک پروگرام '' دھنک '' نشر ہوا کرتا تھا ۔ اِس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اِس پروگرام میں نشر ہونے والے بعض خاکے ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گئے تھے ۔
میری عمر کے لوگوں کو آج بھی یہ خاکے یاد ہوں گے ۔ اِسی دھنک پروگرام میں ایک مزاحیہ خاکہ '' کریم کے جوتے'' بھی نشر ہوا تھا ۔ اور اتنا مقبول ہوا کہ ضرب المثل کے طورپر عوام اِس کا حوالہ دینے لگے تھے ۔ عوامی اصرار پر بار بار نشر ہونے والے اِسی خاکے کے لیے مجھے یہ پوری تمہید باندھنا پڑی ۔'' کریم کے جوتے'' نامی خاکے میں اِس کے مرکزی کردار ، کریم کے پھٹے پُرانے اور بوسیدہ ، اُن جوتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن سے پورا شہر واقف ہوتا ہے ۔ اور بیچارہ کریم بمشکل جب نئے جوتے خرید لیتا ہے تو اُس کے لیے اپنے پُرانے جوتوں سے جان چھڑانا عذاب بن جاتا ہے ۔ کریم اپنے پُرانے جوتے شہر کے جس مقام پر بھی پھینک کر آتا ہے ۔ اُسی روز یا اگلے روز شہر کا کوئی بھی '' نیک آدمی '' رضاکارانہ طور پر کریم کے یہ پُرانے جوتے اُٹھا کر ازراہ ہمدردی کریم تک پہنچا دیتا ہے کہ ''بھیا آپ کے یہ جوتے فلاں مقام پر پڑے ہوئے تھے ، شاید آپ وہاں بھول آئے تھے ، ا،س لیے میں اِنہیں آپ تک پہنچانے کے لیے اُٹھا لایا ہوں ۔'' بعض اوقات تو کریم کہیں جوتے پھینک کر آتا اور اُس کے گھر لوٹنے سے قبل ہی جوتے کریم کے گھر پہنچ جاتے ۔
آخر میں کریم اِن جوتوں کو نیٹی جیٹی کے پُل سے سمندر بُرد کردیتا ہے ، لیکن سمندر میں تیراکی کرنے والا ایک شخص اِنہیں پہچان کر جوتے پھر کریم تک پہنچا دیتا ہے ۔ یہ خاکہ اتنا مقبول ہوا کہ جب کسی چیز سے آدمی کی جان نہ چھوٹے تو لوگ کہا کرتے تھے کہ '' یار یہ تو میرے لیے کریم کے جوتے بن گئی ہے۔'' یوں سمجھیں کہ کریم کے جوتوں کا قصہ '' میں تو کمبل چھوڑ رہا ہوں ، لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔'' اِس محاورے کا متبادل محاورہ بن گیا تھا ۔ آج بھی اُس زمانے کے لوگ کبھی کبھی اِس کا حوالہ دے بیٹھتے ہیں ، لیکن نئی نسل اِن خاکوں اور حوالوں سے ناواقف ہے ۔ میری تو تجویز ہے کہ پی ٹی وی ، ریڈیو اور خود اپنے ٹیلی ویژن کے اِن کلاسکس پروگراموں کو دوبارہ نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ، ڈرامائی تشکیل کرے اور نئی نسل کو بھی اپنے اِس ثقافتی ورثے سے روشناس کروانے کا اہتمام کرے ۔ ذکر ہو رہا تھا '' کریم کے جوتوں کا ''۔ گزشتہ تین سال سے میں موجودہ حکومت کے اقدامات اور روّیوں کا جب بغور مطالعہ کرتا ہوں تو بار بار میرے ذہن پر کریم کے جوتے نہ جانے کیوں بجنے لگتے ہیں ۔
موجودہ حکمرانوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی بھی طرح اُن کی جھولی میں سیاسی شہادت کا تبرّک آن گرے تا کہ اگلے الیکشن میں اِسی جھولی کو مظلومیت کے پرچم میں تبدیل کر کے لہرایا جائے اور عوامی ہمدردی کے ووٹ سمیٹ لیے جائیں ۔حکمران اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خود وہ ، عوام کے حق میں خواہ کتنے ہی ظالم حکمران کیوں نہ ثابت ہوں ،لیکن اِس خطے کے عوام ظالم سے ظالم حکمران کے لیے یا اُنکی اولاد کے لیے ، جب ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہوجائیں تو سخاوت کے دریا بہا کر '' مظلوم '' حاکموں کے بیلٹ بکس ووٹوں سے لبالب بھر دیتے ہیں ۔ یہ برصغیر کی قوموں کا اجتماعی مزاج ہے ۔صرف پاکستان ہی نہیں ، بھارت جیسا ، دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز رکھنے والا ملک ، جہاں جمہوری نظام کا تسلسل گزشتہ 65 ء برسوں سے جاری ہے ۔ خطے کی اِس اجتماعی سائیکی سے ابھی تک چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔
موروثی حکمرانی اور سابقہ حکمرانوں کی اولاد سے اظہارِ ہمدردی ہمارے مزاج کا حصہ ہے ۔ بنگلہ دیش میں مجیب فیملی ، بھارت میں نہرو خاندان ، سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان اور پاکستان میں بھٹّو اور شریف خاندان اِس کی واضح مثالیں ہیں ۔ برما ، نیپال اور بھوٹان میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے ۔ وہ اندرا گاندھی جنہوں نے 75 ء میں ایمرجنسی لگائی اور اگلے الیکشن میں عوامی عتاب کا نشانہ بنیں ۔ جب 84 ء میں اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں بطور وزیراعظم قتل ہوئیں تو بھارتی عوام نے اُن کے صاحبزادے راجیو گاندھی کی جھولی میں اندرا ہمدردی کے اتنے ووٹ ڈالے کہ وہ اوور نائٹ میدانِ سیاست کے سُپر اسٹار بن گئے ۔ حالانکہ وہ اِس میدان کے سرے سے کھلاڑی ہی نہ تھے ۔ راجیو گاندھی خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے تو آج اِنکی بیگم سونیا گاندھی بطور '' کنگ میکر '' یا ''بادشاہ گر '' بھارت میں اپنا رول کامیابی سے پلے کر رہی ہیں اور برسرِ اقتدار ہیں ۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے اپنے والد کی ہمدردی سمیٹی تو بے نظیر نے بھٹّو صاحب کی مظلومیت کا انعام اقتدار کی شکل میں عوام سے پایا ۔ اور بے نظیر کی شہادت کا صلہ اِس ملک کے عوام نے صدر زرداری صاحب کو اقتدار کی شکل میں منتقل کر دیا ۔
زرداری صاحب نے خود کو سیاستدان تو ثابت کیا ، لیکن انھوں نے اس کا شاید خیال نہیں رکھا کہ اُن کے سیاسی اقدامات سے عوام کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثرات بھی مرّتب ہوں گے یا نہیں ؟ نتیجتاً آج ڈالر 60 روپے سے 97 پر ، قرضوں کا حجم ناقابلِ برداشت ، امن و امان ، خانہ جنگی کے قریب تر اور کرپشن کا جن بوتل سے مکمل باہر آچکا ہے ۔ لہذا اگلے انتخابات میں کارکردگی دکھانے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس سوائے '' بڑھکوں'' کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ لے دے کر اب صرف یہی راستہ باقی بچا ہے کہ کسی بھی طرح کوئی طاقتور ادارہ موجودہ عوامی مینڈیٹ کو شہید کر کے جمہوری سیٹ اپ کو ماضی کی طرح قبل از وقت چلتا کردے یا پھر عوامی ایجی ٹیشن کے ذریعے یہ کام ہوجائے ۔
تاکہ اگلے الیکشن میں عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑ کر ایک مرتبہ پھر مظلومت کے ووٹ سمیٹ لینے کی کوشش کی جائے ۔ لیکن اِس مرتبہ یہ انوکھی تبدیلی واقعی ہوئی ہے کہ سیاسی شہادت موجودہ حکومت کے لیے '' کریم کے جوتے'' بن کر رہ گئی ہے ۔ کیا اسٹیبلیشمنٹ ، کیا عوام ، کیا میڈیا ، کیا سوِل سوسائٹی اور کیا عدلیہ ، سب کے سب اِس نُکتے پر متفق ہوچکے ہیں کہ سیاسی شہادت حاصل کرنے کی ہر کوشش کو اِسی طرح ناکام بنا دیا جائے گا ، جیسے کریم کی اپنے جوتوں سے چھُٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں کو پورا شہر ناکام بنانے پر غیر اعلانیہ طور سے متفق ہوچکا تھا ۔ 88ء سے 99ء تک موجودہ جمہوری دورِ حکومت کے مقابلے میں کہیں کم ، کرپشن ، ماورائے عدالت قتل اور مالی بدعنوانیوں کو جواز بنا کر مقتدر حلقوں نے عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو چلتا کردیا تھا ۔ لیکن اِس مرتبہ یہ بڑی اچھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ موجودہ حکومت جس آئینی ادارے سے بھی '' پنگا'' لیتی ہے ، اُس کا گلا دباتی ہے ، اُس سے ٹکراؤ مول لیتی ہے ، وہی ادارہ حکومت سے تصادم مول لینے کی بجائے ہاتھ پیچھے لے جا کر '' کریم کے جوتوں '' کی طرح ، پانچ سالہ عوامی مینڈیٹ حکومت کے سامنے میز پر رکھ دیتا ہے ۔ اور بیچاری حکومت کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا کہ وہ کریم کے اِن جوتوں کو اپنے پیروں میں پہن کر ، پھر اقتدار کے ایوان میں واپس لوٹ جائے اور عنقریب ہونے والے عوامی احتساب یا انتخابات کے ذریعے ہونے والے اپنے نتیجے کا انتظار کرے ۔
یہ 60ء کی دہائی کا ذکر ہے ، یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو خود تو بولتا ہی تھا ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اِس کا '' طُوطی '' بھی بولتا تھا ۔ گو کہ 64 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوچکی تھیں ، لیکن ابھی یہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہی تھا ۔ پرنٹ میڈیا ایوبی آمریت کے نشانے پر تھا ۔ لہذا ریڈیو اور فلم ہی وہ ذرایع تھے جو عوام کی تفریحی سرگرمیوں کی تسکین و فرو غ کا ذریعہ تھے ۔ ریڈیو سستا اور مقبول ترین عوامی رسائی کا ذریعہ ہوا کرتا تھا ۔ریڈیو کے بعض پروگرام تو اتنے مقبول تھے کہ اُنہیں خاندان کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا ۔ مثلاً اتوار کی صبح ساڑھے آٹھ بجے ایک پروگرام '' حامد میاں کے ہاں '' اگر نہ سُنا جائے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ آج اتوار ہے ۔ ہفتے کی رات نو بجے '' اسٹوڈیو نمبر 9 '' کے نام سے ایک گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل ڈراما نشر ہوتا تھا تو سڑکوں پر ٹریفک کا شور کم ہوجاتا تھا ۔ اِسی طرح منگل کی رات مزاحیہ خاکوں پر مبنی ایک پروگرام '' دھنک '' نشر ہوا کرتا تھا ۔ اِس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اِس پروگرام میں نشر ہونے والے بعض خاکے ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گئے تھے ۔
میری عمر کے لوگوں کو آج بھی یہ خاکے یاد ہوں گے ۔ اِسی دھنک پروگرام میں ایک مزاحیہ خاکہ '' کریم کے جوتے'' بھی نشر ہوا تھا ۔ اور اتنا مقبول ہوا کہ ضرب المثل کے طورپر عوام اِس کا حوالہ دینے لگے تھے ۔ عوامی اصرار پر بار بار نشر ہونے والے اِسی خاکے کے لیے مجھے یہ پوری تمہید باندھنا پڑی ۔'' کریم کے جوتے'' نامی خاکے میں اِس کے مرکزی کردار ، کریم کے پھٹے پُرانے اور بوسیدہ ، اُن جوتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن سے پورا شہر واقف ہوتا ہے ۔ اور بیچارہ کریم بمشکل جب نئے جوتے خرید لیتا ہے تو اُس کے لیے اپنے پُرانے جوتوں سے جان چھڑانا عذاب بن جاتا ہے ۔ کریم اپنے پُرانے جوتے شہر کے جس مقام پر بھی پھینک کر آتا ہے ۔ اُسی روز یا اگلے روز شہر کا کوئی بھی '' نیک آدمی '' رضاکارانہ طور پر کریم کے یہ پُرانے جوتے اُٹھا کر ازراہ ہمدردی کریم تک پہنچا دیتا ہے کہ ''بھیا آپ کے یہ جوتے فلاں مقام پر پڑے ہوئے تھے ، شاید آپ وہاں بھول آئے تھے ، ا،س لیے میں اِنہیں آپ تک پہنچانے کے لیے اُٹھا لایا ہوں ۔'' بعض اوقات تو کریم کہیں جوتے پھینک کر آتا اور اُس کے گھر لوٹنے سے قبل ہی جوتے کریم کے گھر پہنچ جاتے ۔
آخر میں کریم اِن جوتوں کو نیٹی جیٹی کے پُل سے سمندر بُرد کردیتا ہے ، لیکن سمندر میں تیراکی کرنے والا ایک شخص اِنہیں پہچان کر جوتے پھر کریم تک پہنچا دیتا ہے ۔ یہ خاکہ اتنا مقبول ہوا کہ جب کسی چیز سے آدمی کی جان نہ چھوٹے تو لوگ کہا کرتے تھے کہ '' یار یہ تو میرے لیے کریم کے جوتے بن گئی ہے۔'' یوں سمجھیں کہ کریم کے جوتوں کا قصہ '' میں تو کمبل چھوڑ رہا ہوں ، لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔'' اِس محاورے کا متبادل محاورہ بن گیا تھا ۔ آج بھی اُس زمانے کے لوگ کبھی کبھی اِس کا حوالہ دے بیٹھتے ہیں ، لیکن نئی نسل اِن خاکوں اور حوالوں سے ناواقف ہے ۔ میری تو تجویز ہے کہ پی ٹی وی ، ریڈیو اور خود اپنے ٹیلی ویژن کے اِن کلاسکس پروگراموں کو دوبارہ نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ، ڈرامائی تشکیل کرے اور نئی نسل کو بھی اپنے اِس ثقافتی ورثے سے روشناس کروانے کا اہتمام کرے ۔ ذکر ہو رہا تھا '' کریم کے جوتوں کا ''۔ گزشتہ تین سال سے میں موجودہ حکومت کے اقدامات اور روّیوں کا جب بغور مطالعہ کرتا ہوں تو بار بار میرے ذہن پر کریم کے جوتے نہ جانے کیوں بجنے لگتے ہیں ۔
موجودہ حکمرانوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی بھی طرح اُن کی جھولی میں سیاسی شہادت کا تبرّک آن گرے تا کہ اگلے الیکشن میں اِسی جھولی کو مظلومیت کے پرچم میں تبدیل کر کے لہرایا جائے اور عوامی ہمدردی کے ووٹ سمیٹ لیے جائیں ۔حکمران اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خود وہ ، عوام کے حق میں خواہ کتنے ہی ظالم حکمران کیوں نہ ثابت ہوں ،لیکن اِس خطے کے عوام ظالم سے ظالم حکمران کے لیے یا اُنکی اولاد کے لیے ، جب ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہوجائیں تو سخاوت کے دریا بہا کر '' مظلوم '' حاکموں کے بیلٹ بکس ووٹوں سے لبالب بھر دیتے ہیں ۔ یہ برصغیر کی قوموں کا اجتماعی مزاج ہے ۔صرف پاکستان ہی نہیں ، بھارت جیسا ، دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز رکھنے والا ملک ، جہاں جمہوری نظام کا تسلسل گزشتہ 65 ء برسوں سے جاری ہے ۔ خطے کی اِس اجتماعی سائیکی سے ابھی تک چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔
موروثی حکمرانی اور سابقہ حکمرانوں کی اولاد سے اظہارِ ہمدردی ہمارے مزاج کا حصہ ہے ۔ بنگلہ دیش میں مجیب فیملی ، بھارت میں نہرو خاندان ، سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان اور پاکستان میں بھٹّو اور شریف خاندان اِس کی واضح مثالیں ہیں ۔ برما ، نیپال اور بھوٹان میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے ۔ وہ اندرا گاندھی جنہوں نے 75 ء میں ایمرجنسی لگائی اور اگلے الیکشن میں عوامی عتاب کا نشانہ بنیں ۔ جب 84 ء میں اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں بطور وزیراعظم قتل ہوئیں تو بھارتی عوام نے اُن کے صاحبزادے راجیو گاندھی کی جھولی میں اندرا ہمدردی کے اتنے ووٹ ڈالے کہ وہ اوور نائٹ میدانِ سیاست کے سُپر اسٹار بن گئے ۔ حالانکہ وہ اِس میدان کے سرے سے کھلاڑی ہی نہ تھے ۔ راجیو گاندھی خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے تو آج اِنکی بیگم سونیا گاندھی بطور '' کنگ میکر '' یا ''بادشاہ گر '' بھارت میں اپنا رول کامیابی سے پلے کر رہی ہیں اور برسرِ اقتدار ہیں ۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے اپنے والد کی ہمدردی سمیٹی تو بے نظیر نے بھٹّو صاحب کی مظلومیت کا انعام اقتدار کی شکل میں عوام سے پایا ۔ اور بے نظیر کی شہادت کا صلہ اِس ملک کے عوام نے صدر زرداری صاحب کو اقتدار کی شکل میں منتقل کر دیا ۔
زرداری صاحب نے خود کو سیاستدان تو ثابت کیا ، لیکن انھوں نے اس کا شاید خیال نہیں رکھا کہ اُن کے سیاسی اقدامات سے عوام کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثرات بھی مرّتب ہوں گے یا نہیں ؟ نتیجتاً آج ڈالر 60 روپے سے 97 پر ، قرضوں کا حجم ناقابلِ برداشت ، امن و امان ، خانہ جنگی کے قریب تر اور کرپشن کا جن بوتل سے مکمل باہر آچکا ہے ۔ لہذا اگلے انتخابات میں کارکردگی دکھانے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس سوائے '' بڑھکوں'' کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ لے دے کر اب صرف یہی راستہ باقی بچا ہے کہ کسی بھی طرح کوئی طاقتور ادارہ موجودہ عوامی مینڈیٹ کو شہید کر کے جمہوری سیٹ اپ کو ماضی کی طرح قبل از وقت چلتا کردے یا پھر عوامی ایجی ٹیشن کے ذریعے یہ کام ہوجائے ۔
تاکہ اگلے الیکشن میں عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑ کر ایک مرتبہ پھر مظلومت کے ووٹ سمیٹ لینے کی کوشش کی جائے ۔ لیکن اِس مرتبہ یہ انوکھی تبدیلی واقعی ہوئی ہے کہ سیاسی شہادت موجودہ حکومت کے لیے '' کریم کے جوتے'' بن کر رہ گئی ہے ۔ کیا اسٹیبلیشمنٹ ، کیا عوام ، کیا میڈیا ، کیا سوِل سوسائٹی اور کیا عدلیہ ، سب کے سب اِس نُکتے پر متفق ہوچکے ہیں کہ سیاسی شہادت حاصل کرنے کی ہر کوشش کو اِسی طرح ناکام بنا دیا جائے گا ، جیسے کریم کی اپنے جوتوں سے چھُٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں کو پورا شہر ناکام بنانے پر غیر اعلانیہ طور سے متفق ہوچکا تھا ۔ 88ء سے 99ء تک موجودہ جمہوری دورِ حکومت کے مقابلے میں کہیں کم ، کرپشن ، ماورائے عدالت قتل اور مالی بدعنوانیوں کو جواز بنا کر مقتدر حلقوں نے عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو چلتا کردیا تھا ۔ لیکن اِس مرتبہ یہ بڑی اچھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ موجودہ حکومت جس آئینی ادارے سے بھی '' پنگا'' لیتی ہے ، اُس کا گلا دباتی ہے ، اُس سے ٹکراؤ مول لیتی ہے ، وہی ادارہ حکومت سے تصادم مول لینے کی بجائے ہاتھ پیچھے لے جا کر '' کریم کے جوتوں '' کی طرح ، پانچ سالہ عوامی مینڈیٹ حکومت کے سامنے میز پر رکھ دیتا ہے ۔ اور بیچاری حکومت کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا کہ وہ کریم کے اِن جوتوں کو اپنے پیروں میں پہن کر ، پھر اقتدار کے ایوان میں واپس لوٹ جائے اور عنقریب ہونے والے عوامی احتساب یا انتخابات کے ذریعے ہونے والے اپنے نتیجے کا انتظار کرے ۔